سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(124) ایک محفل میں غلطی سے تین دفعہ طلاق کہنے کے بعد کیا کرے؟

  • 14730
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2059

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی نے ایک محفل میں اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق کہہ دیا پھر اس کو غلطی کا احساس ہوا۔ اب وہ دونوں اکھٹے رہنا چاہتے ہیں کیا یہ طلاق ہو گی یا نہیں؟ اگر طلاق ہو گئی ہے تو واپس میاں بیوی کے ملنے کا طریقہ کیا ہے؟ اگر طلاق نہیں ہوئی تو طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی ہے لیکن یہ ایک ہی طلاق ہو گی۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:

((كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً.))

 ''رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ، ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے دو سالوں تک تین مرتبہ طلاق کہنے سے ایک طلاق واقع ہوتی تھی۔''(صحیح مسلم ۱/۴۲۲)

اب اگر اس مطلقہ عورت کی عدت گزر چکی ہے تو نیا نکاح کر سکتا ہے۔ ورنہ عدت کے اندر بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے۔ ( والمطلّقات یتربّصن بانفسھنّ ثلاثة قروء)آگے ہے (وبعولتھن احقّ بردّھن فی ذٰلک ان ارادو ا اصلاحا)(بقرہ: ۲۲۸) کہ طلاق دی گئی عورتیں تین حیض انتظار کریں اور اس مدت کے اندر ان کے خاوند ان کو لوٹنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ دوسری آیت میں ہے:

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ... ٢٣٢﴾... البقرة

  ''کہ جب تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی ، پھر وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔''(البقرہ : ۲۳۲)

  باقی شریعت میں صحیح طلاق کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی منکوحہ، مدخولہ کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اُس نے مجامعت نہ کی ہو یا حمل کی حالت میں اور ایک مرتبہ طلاق کا لفظ منہ سے نکالے۔ یہ طلاق سنی کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ جتنی صورتیں ہیں وہ طلاق بدعی میں داخل ہیں اور اگر غیر مدخول بہا ہے (یعنی ابھی تک بیوی کا حق زوجیت ادا نہیں کیا) تو جب چاہے حیض میں طہر میں طلاق دے سکتا ہے کیونکہ اس کی عدت نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ