سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) باپ کی موجودگی میں چچا کی ولایت

  • 14715
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2762

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لڑکی چچازاد کے ساتھ شادی شدہ ہے۔ اس کے خاوند نے نئی شادی کر لی اور اپنی اس پہلی بیوی کو طلاق دے دی۔ یہ مطلقہ اپنے چچا یعنی سسر کے پاس رہ رہی ہے۔ اب اس مطلقہ کے سسرال اس کے طلاق دینے والے خاوند کے چھوٹے بھائی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ لڑکی کے والدین اس پر رضامند نہیں ہیں۔ کیا یہ نکاح صحیح ہو سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ نکاح درست نہیں ہے اس لئے کہ عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی اور قریبی ولی کی موجودگی میں دور والا عزیز ولی نہیں بن سکتا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ...َ ٢٣٢﴾...البقرة

            ''جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقے سے باہم نکاح پر راضٰ ہوں''۔(بقرہ : ۲۳۲)

            اس آیت میں اولیاء کو خطاب ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو منع کر دیا ہے کہ وہ عورتوں کو ان کی مدت ختم ہونے کے بعد شادی سے روکیں۔ اگر عورت پر اولیاء کا اختیار نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کو روکنے کی کیا ضرورت تھی۔ امام شافعی فرماتے ہیں:

" هذه أية فى اشتراط  الولى  إلا لما كان لعضله معنى"

            ''یہ آیت عورت کے نکاح میں ولی کی شرط لگانے کے لئے واضح ترین دلیل ہے''

ورنہ (لا تعضلوھن)بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے ۔ امام ابنِ کثیر ، ابنِ العربی اور امام قرطبی سے بھی اس طرح کا قول مذکور ہے۔ حدیث میں ہے جو کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں:

(( قال رسول الله عليه وسلم لا نكاح  إلا بولى ))

            ''ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہے''

            ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی، ابنِ ماجہ ، ابنِ حبان اور امام حاکم کے علاوہ ابنِ القیم نے بھی تہذیب السنن میں اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی بھی اس کے صحیح ہونے کے قائل ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے جو کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے فرماتی ہیں:

(( قال رسول الله صلى الله   عليه وسلم  أيما امرأة  نكحت بغير إذن وليها  فنكاحها باطل  فنكاحها باطل فنكاحها باطل.))

''کہ جو نسی عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے، باطل ہے''۔ (صحیح الجامع الصغیر ، مستدرک حاکم و سنن الترمذی وقال حسن)

            علامہ ناصر الدین البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مسئلہ مسئولہ میں اگرچہ لڑکی کا چچا بھی س کے اولیاء میں شامل ہے لیکن والد کی موجودگی میں وہ ولی نہیں کیونکہ جب قریبی ولی موجود ہو تو دور ولے عزیز کی ولایت کا اعتبار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی ولایت جائز ہے جیسا کہ امام ابنِ قدامہ فرماتے ہیں:

" إن زوج المرأة  الولى الأبعد  مع حضور الولى  الأقرب بغير إذنه  فأجابنه إلى زواجها فالعقد فاسد."

            ''اگر عورت کا دور والا ولی قریبی ولد کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح کر دیتا ہے تو یہ نکاح فاسد ہے خواہ عورت اس کو قبول ہی کر لے ''    (المغنی لا بن قدامہ ج ۷، ص۳۶۴ ، معجم الفقہ الحنبلی ج۲،ص۹۸۴)

            کیونکہ ولی ہونا تعصیب سے ہے جس طرح قریبی عصبہ کے ہوتے ہوئے دور والے عصبات محروم ہوتے ہیںاسی طرح قریبی ولی کی موجودگی میں دور والے کو اس کا اختیار نہیں ہے اور میراث میں یہ ترتیب صحیح حدیث سے ثابت ہے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ قریبی ولی دوسرے اولیاء سے عورت کی مصلحت پر زیادہ حریص ہوتا ہے اور اس پر شفقت اور رحم کے لحاظ سے بھی دوسروں سے زیادہ قریب ہے۔ اس لئے یہ حق صرف اسی کو ہونا چاہیے ہاں اگر یہ خود کسی دوسرے کو اجازت دے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ