سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) میت کو دیکھ کر کھڑے ہونا ؟

  • 14702
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1334

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میت کو دیکھ کر کھڑے ہو جانا چاہئے یا بیٹھے رہنا چاہئے؟ قرآن و سنت کی رو سے واضح فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست کی جب بنیاد رکھی تو اس کے مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ کئی احکام نازل ہوئے۔ کئی ایسے تھے جن پر یہ عمل تھا لیکن بعد میں ان میں تغیر و تبدل ہوا ۔ مثال کے طور پر پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دلی خواہش پر بیت اللہ کو قبلہ بنا دیا گیا ۔ اسطرح شروع شروع میں شراب کی کلی ممانعت نہ تھی لیکن بعد میں اس کو قطعی طور پر حرام کر دیا گیا ۔ اسی طرح پہلے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے ۔ یہاں تک کہ آپ یہودی اور یہویدیہ کی میت کیلئے بھی کھڑے ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  یہودی کے جنازہ کیلئے کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، کیا اس میں جان نہ تھی ۔

            آپ نے صحابہ کرام  سے فرمایا ، جب تم جنازہ دیکھو تو اس کیلئے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور جو ساتھ چل رہا ہو، وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک اسے زمین پر نہ رکھ دیا جائے۔ (بخاری ومسلم)

            لیکن اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے :

(( قام رسول الله صلى الله عليه وسلم  لجنازة ثم جلس فجلسنا ))اور ابو داؤد میں یہ لفط ہیں : (( كان يقوم فى الجنازة ثم جلس بعد )) ( مسلم 3/59,ابن ماجه 1/468, احمد (631,1167) , موطا 1/332, ابو داؤد 2/64)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کیلئے کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھ گئے ہم بھی بیٹھ گئے۔ موطا اور ابو دائود کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جنازوں کیلئے کھڑے ہوتے تھے پھر بعد میں بیٹھ گئے ۔

            واقد بن عمرو بن سعد بن معاذنے کہا ، میں بنو سلمہ کے ایک جنازہ میں حاضر ہوا ۔ میں کھڑا ہو کر نافع بن جبیر نے کہا بیٹھ جائیے۔ میں تمہیں عنقریب اسکے متعلق حدیث بتاؤں گا ۔ پھر بیان کیا مجھے مسعود بن الحکم الزرقی نے بتايا کہ انہوں نے سیدنا علی کو کوفہ میں کہتے ہوئے سنا، وہ فرما رہے تھے:

(( كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرنا بالقيام فى الجنازة ثم جلس بعد ذلك و امرنا بالجلوس.))

            ''آپ نے ہمیں جنازہ کیلئے کھڑے ہونے کا حکم د یا تھا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھے اور ہمیں بھی بیٹھنے کا حکم دیا ۔''(احمد۶۲۷،بیہقی۲۷/۴،کتاب الاعتبار للحازى ۹۱)

            ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے علامہ عبدالرحمن مبارک پوری کتاب الجنائز ص۷۷ اور علامہ البانی حفظہ اللہ احکام الجنائز ص۴۶پر لکھتے ہیں کہ قیام پہلے مشروع تھا بعد مں منسوخ ہو گیا ۔ اور علامہ شو کافی نے امام مالک ، امام شافع اور امام ابو حنیفہ کا مذہب، نسخ کا نقل کیا ہے۔ جبکہ امام احمد امام اسحاق بن راہویہ  کا عدم نسخ کا۔ یعنی یہ لوگ نسخ کے قائل نہیں بلکہ یہ کہتے کہ جوا زکے طور پر ہے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ