سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) مرنے کے بعد میت کو کن کاموں سے اجر ملتا ہے ؟

  • 14701
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 10588

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مرنے کے بعد انسان کو کن چیزوں کا ثواب جاتا ہے ۔ جو آج کل رواج بن چکا ہے گھروں میں سپارے دئیے جاتے ہیں پڑھانے کیلئے اور پھر ان سپاروں کا ثواب مردے کو دیا جاتا ہے ۔ پھر روٹی بھی کپڑے بھی ۔ گویا مردے کے نام کے دئیے جاتے ہیں ثواب کیلئے ۔ میں ایک بات بتاؤں کہ جناب میری دادی بھی اہل حدیث ہے اس کا بڑا بیٹا فوت ہو چکا ہے اس کو فوت ہوئے۳سال ہو گئے ہیں لیکن آج تک اس کے نام کی روٹی اور کپڑے وغیرہ دیتی ہے اگر میں منع کروں تو میرے والد صاحب مجھے سختی سے سے ڈانٹتے ہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر چیز مردے کو جاتی ہے۔ اگر تم نے کسی کو کہا کہ کچھ نہیں جاتا تو میں تمہیں مار دوں گا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں ان سب چیزوں کا ثواب مردے کو جاتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب پڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ عبادات میں معتبر وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ  کے طریقہ کے مطابق ہو ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبوں میں یہ  پڑھا کرتے تھے :

((فإن خير الحديث كتاب الله و خير الهدى هدى محمد ة شر الأمور محدثاتها وكل بدعة ضلالة ))

            '' یقینا بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور معاملات میں سے برے ( دین میں ) نئے ایجاد کردہ ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ''۔( رواه مسلم , مشكوة  كتاب الإيمان , باب الإعتصام بالكتاب والسنة )

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے :

(( خير أمتى قرنى ثم الذين يلونهم  ثم الذين يلونهم...))

            '' میری امت میں سے بہتر زمانہ میرا ہے اور پھر جو ان کے بعد آئیں ا ور پھر جو ان کے بعد ہے ( یعنی صحابہ  اور تابعین  ) '' (متفق علیہ مشکوۃ باب مناقب الصحابہ)

ابن مسعود فرمایا کرتے تھے :

(( من كان منكم مستنا فليس بمن قد مات فإن الحى لا تومن عليه الفتنة أولئك أصحاب هذه الأمة  وأبرها قلوبها ... فاعرفوا لهم فضلهم واتبعوا على أثارهم تمسكوا بما استطعتم من أخلاقهم  وسيرهم فإنهم كانوا على هدى مستقيم))

'' تم میں سے جو کوئی کسی طریقے کو اخیتار کرنے والا ہے وہ ان کے طریقے کو اختیار کرے جو فوت ہو چکے ہیں کیونکہ زندوں سے فتنہ کا خوف رہتا ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے جو اس امت میں سب سے افضل۔۔۔۔۔ ان کی فضیلت کو پہچانو اور ان کے آثار کی پیروی کرو اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی سیرت اور اخلاق کو اپناؤ وہ بالکل سیدھے راستے پرتھے '' (مشکوة ، کتاب الاعتصام۱/۳۲)

            جو جچیز دلائل سے ثبا تہے اور ان قرون مفضلہ میں موجد تھی ویہ ہے کہ انان جب دنیا سے فوت ہو جاتا ہے تو ایس کیا عمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے جیسا کہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

(( و إذا مات ابن أدم انقطع عنه عمله ))

'' کہ جب آدمی فوت ہو جاتاہے توا سکے عملوں کا سلسلہ خمت ہوجاتا ہے ''

            اب کیا مرنے کے بعد کسی دوسرے کے عمل یا اپنے بعض کئے ہوئے عملوں کا ثواب اسے پہنچتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میت زندہ افراد کی کوشش اور محنت پر دو وجوہات سے مستفیدہوتی ہے۔ پہلی وجہ وہ ہے جس کا سبب یہ اپنی زندگی میں بن گیا تھا اور اہل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

(( و إذا مات ابن آدم انقطع  عنه عمله إلا عمله إلا من ثلاث صدقة جارية  أو  ولد صالح يدعوا  له أو علم بخ من بعده .))

            '' کہ جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال اس سے منقطع ہو جاتے ہیں ( یعنی کسی کا ثواب اسے نہیں ملتا ) مگر تین چیزیں ہیں ( جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا ہرتا ہے ) ایک صدقہ جاریہ ، دوسری نیک اولاد ہے جو اس کے لئے دعا کرتی رہیں اور تیسری چیز عمل ہے جس سے لوگ اس کے جانے کے بعد فائدہ اٹھا رہے ہیں ''۔( رواه مسلم 5/73, الادب المفرد ,ابو داؤد و نسائى احمد بيهقى )

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے والا اگر ان میں کوئی چیز چھوڑ جاتا ہے تو اسے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا رہتا ہے ۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں سلمان فارسی  فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے:

(( رباط يوم و ليلة فى سبيل الله خير من صيام شهر و قيامه و إن مات |أجرى عليه عمله الذى كان يعمله و أجرى عليه رزقه و أمن الفتان ))

            '' ایک دن اور ایک رات اللہ تعالیٰ کے راستے ( جہاد فی سبیل اللہ ) میں پہرہ دینا ایک مہینے کے روزے اور راتوں کو قیام کرنے سے افضل ہے اور اگر وہ شخص اسی حالت میں فوت ہو جاتا ہے تو اس کیلئے  اس کے وہ سارے عمل جاری رکھے جائیں گے جو اس حال میں وہ کرتا تھا ۔ یعنی جتنے عمل وہ کرتا تھا سب کا اجر اور ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی ا سی طرح اس کو ملتا رہے گا ''۔ ( رواه مسلم ,مشكوة  كتاب الجهاد ص 349)

ایک اور روایت میں یہ لفظ ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((كل عمل ينقطع عن صاحبه إذا مات إلا المرابط فى سبيل الله فإنه ينمى له عمله إلى يوم القيامة .))

            '' مرنے کے بعد انسان سے ہر عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں پہر ہ دینے والا ، اس کے عمل اس کیلئے قیامت تک بڑھائے جاتے ہں ( یعنی قیامت تک اسے ان اعمال کا اجر ملتا رہے گا )'' (المعجم الكبير للكبرانى بسند صحيح)

            دوسری وجہ جس سے مرنے والے کو فائدہ پہنچتا ہے وہ ہے دوسرے مسلمان کا ان کیلئے دعا کرنا ان کی طرف حج  اور صدقہ خیرات کرانا اسی طرح ان کیلئے استغفار کرنا ان چیزوں سے بھی میت مستفید ہوتی ہے کیونکہ ان سب چیزوں کے دلائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں ۔ا ستغفار کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ ... ١٠﴾...الحشر

            '' اور  وہ لوگ جو ان ( اہل ایمان) کے بعد آئے ( دنیا میں وہ ایمان کی حالت میں ) کہتے ہیں ( دعا کرتے ہوئے ) اے اللہ ! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جوا یمان کی حالت میں ( تیرے پاس ) ہم سے پہلے پہنچ چکے ہیں ''۔(الحشر)

اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ ابو ہریرہ  فرماتے ہیں ۔

(( لما نعى لنا رسول الله صلى الله علسه وسلم النجاشى صاحب الحبشية فى اليوم الذى مات فيه فقال صلى الله عليه وسلم  إستغفروا لإخيكم .))

            '' کہ جس دن حبشہ کا حاکم نجاشی فوت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کی موت کی خبر سنائی اور کہا اپنے بھائی کیلئے بخشش طلب کرو''( البخارى , كتاب الجنائز باب الصلوة على الجنائز بالمصلى  والمسجد)

            اس آیت کریمہ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ استغفار سے میت مستفید ہوتی ہے۔ دعا کی دلیل نماز جنازہ کی عام احادیث اور اس طرح جو قبروں کی زیارت کی احادیث ہیں سب اس چیز پر دال ہیں ۔ عبداللہ ابن عباس  فرماتے ہیں :

((سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ، فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، لَا يُشْرِكُونَ بِاللهِ شَيْئًا، إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللهُ فِيهِ))

            '' کوئی مسلمان آدمی فوت ہو جاتا ہے تو اس پر چالیس آدمی نماز جنازہ پڑھیں جو اللہ کے ساتھ شکر کرنے والے نہ ہوں تو اللہ ان کی سفارش ( دعا ) کو اس کے بارے میں قوبل کر لیتا ہے ''  ( مسلم كتاب الجنائز باب من صلى عليه اربعون شفعوا فيه )

اور جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان جاتے تو یہ دعا پڑھتے :

((سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ، فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، لَا يُشْرِكُونَ بِاللهِ شَيْئًا، إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللهُ فِيهِ))

            '' ان گھروں ( قبروں ) میں رہنےو الے مومون! اور مسلمانوں ! تم پر سلامتی ہو اللہ تعالیٰ تمہارے پہلے آنے اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے ۔ یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں ''۔  ( مسلم كتاب الجنائز باب  ما يقال عند دخول القبور  والدعا لأهلها)

ایک روایت  میں یہ الفاظ ہیں:

(( أسئل الله لنا ولكم العافية.))

            '' میں اللہ سے تمہارے لیے اور اپنے لیئے عافیت کا سوال کرتا ہوں ''۔

            رحم کی دعا اور عافیت کا سوال کران اس بات کی دلیل ہے کہ میت اس لئے مستفید ہوتی ہے ۔

صدقے کی دلیل :    صحیح بخاری میں سیدہ عاشہ کی حدیث ہے کہ :

((أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسَهَا وَلَمْ تُوصِ، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَلَهَا أَجْرٌ، إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»))

            '' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میری والدہ اچانک فوت ہو گئی اور اُس نے کوئی وصیت نہیں کی ۔ میرا خیال ہے اگر وہ مرتے وقت بات کرسکتی تو صدقہ ضرور کرتی ۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کرو ؟ اور کیاا اُسے اس پر اجر ملے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں !'' (صحیح بخاری و مسلم )

            اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ سعد بن عبادہ کی والدہ وفات پا گئیں اور وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے۔

(( إن أمتى ماتت و كنت غائبا عنها فهل ينفعها إن تصدقت عنها ؟ قال : نعم.))

            '' کہ میری والد فوت ہو گئی اور میں وہاں موجود نہیں تھا۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کر دوں تو اسے اس صدقہ کا نفع پہنچے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں !   ( بخارى )                                                                                    

فرض روزہ کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

 (( من مات وعليه صيام صام عنه وليه ))

'' کہ جو شخص فوت ہو گا اور اس کے ذمے روزے تھے اس کا ولی اس کی طر ف سے روزے رکھے ''( مسلم كتاب الصيام باب قضاء الصيام عن الميت)

حج کی لدیل : ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری والدہ نے حج کی نذر مانی تھی لیکن حج رکنے سے پہلے فوت ہو گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((أَرَأَيْت لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ، أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ؟ اقْضُوا اللَّهَ فَاَللَّهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ»))

            '' کہ مجھے بتاؤ اگر تمہاری والدہ کا کسی پر قرض ہوتا تو اس قرض کو ادا کرتی ؟ اس نے کہاں ضرور کرتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتا ہے اس کا قرض ادا کیا جائے ''۔         (بخاری )

            یہ چند چیزیں ہیں جو شریعت سے ثابت ہیں کہ میت کے مرنے کے بعد ان سے فائدہ  پہنچتا ہے ان کے علاوہ دوسری اشیاء لوگوں نے ایجا کر رکھیں ہے۔ قل ، تیجا، ساتواں ، چالیسواں وغیرہ ان کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں اور یہ سب کام بدعت کے زمرہ  میں ہیں۔ اگر ان چیزوں کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہوتا اور یہ میت کیلئے مفید ہوتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بیان کر دیتے اور صحابہ کرام ضرور اس پر عمل کرتے لیکن یہ چیزیں نہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور نہ صحابہ کرام  سے کسی نے ان کو اخیتار کیاتھا بلکہ یہ چیزیں تو ہندو اور دوسری غیر مسلم قوموں سے مسلمانوں میں آگئی ہیں ۔

            باقی رہا قرآن مجید پڑھ کر اس کا ثواب میت کو بخشا تو اس بارہ میں بعض علماء کی رائے ہے کہ اس یں کوئی حرج نہیں لیکن شرعاً کسی صریح اور مروع حدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ چیزیں موجود نہیں تھیں اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خیر القرون میں یعنی صحابہ اور تابعین میں میں اس کا کوئی رواج تھا۔ اگ ریہ اچھا کام ہوتا تو صحابہ کرام اسے ضرور بالضرور سر انجام د یتے اوریہ بات مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقرب صرف ان اعمال سے حاصل ہو سکتا ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں قیاس اور آراء کو اس جگہ دخل نہیں کیونکہ یہ تو قیقی امر ہے۔ علامہ عز بن عبدالسلام فرماتے ہیں :

" ومن فعل طاعة لله تعالى ثم اهدى ثوابا إلى حى أوميت  لم ينتقل ثوابها إبيه﴿ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾...النجم فإن شرع فى الطاعة  ناويا أن يقع  عن الميت  لم يقع إلا فيما  إستثناه  الشرع كالصدقة  والصوم و الحج و الدعاء و الإستغفار."

            '' کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا کوئی کام کیا پھر اس کا ثواب میت یا زندہ کو دے دیا اللہ کی اطاعت کا ثواب اسے ہر گز نہیں پہنچے گا کیونکہ قرآن میں ہے کہ انسان کیلئے صرف وہی چیز ہے جس کی اُس نے کوشش کی ۔ اگر کسی اطاعت کی ابتداء اس نیت پر کی کہ اس کا ثواب فلاں میت کو مل جائے تو یہ میت کی طرف سے واقع ہی نہیں ہوگی ۔ ہاں ہو چیز یں جن کو شریعت سے مستثنی قرار دیا ہے جیسے صدقہ ، روزہ، حج ، دعا، استغفار وغیرہ ( ان کا ثواب ) اور قرأت قرآن کو کہیں بھی متشنیٰ نہیں کیا ''    ( احکام الجنائر ، ص ۱۷۴)

شیخ الاسلام ابن تیمہ  فرماتے ہیں :

" لم يكن من عادة السلف إذا صلوا تطوعا و صاموا  وحجوا وقر ؤا القرآن أنهم يهدون  ثوابهم إلى الأموات إنما كانوا يدعون لهم و يستغففرون لهم فلا ينبغى للناس أن يعدلوا عن الطريق السلف فإنه أفضل و أكمل ."

            '' سلف کی یہ عاد تھی کہ وہ نفلی نماز پڑھنے روزہ رکھنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کے بعد اس کا ثواب میت کو پہنچاتے ہو ں وہ تو ان کیلئے دعا کرتے اور بخشش مانگتے تھے لوگوں کے لائق نہیں کہ وہ سلف کا طریقہ چھوڑ دیں کیونکہ یہی طریقہ افضل اور زیادہ کامل ہے ۔''( فتاوى ابن تيميه ج24, ص 222, 223)

            بعض علم سے کورے لوگ قرآن خوانی کے جواز کیلئے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 (( إقرؤا على موتاكم سورة  ياسين)) ( رواه ابو داؤد)

            حالانکہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے ثابت ہی نہیں ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی ابو عثمان اپنے باپ سے بیان کرتا ہے اور یہ باپ بیٹادونوں ہی مجہول راوی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حدیث موقوف اور مضطرب بھی ہے۔ پھر آج کل لوگوں نے جو رواج بنایا ہو کہ قرآن خوانی کیلئے اجرت پر قراء اور دوسرے لوگوں کو بلایا جاتا ہے اس فعل کو تو اہل علم و دانش میں کسی نے بھی اچھا اور مستحسن قرار نہیں دیا۔ علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں ۔

" من بدع التعزية إعطاء الدراهم لمن يقرأ القرآن  على روح الميت أو يسبح أو يهلل."

            '' جو میت کی روح کیلئے قرآن خوانی یا ذکر و اذکار پر پڑھنے والے کو پیسے دئیے جاتے ہیں یہ بھی  تعزیت کی بدعات میں سے ''۔

            جو مرنے والا اپنی زندگی میں ا یسا عمل کر جاتا ہے جو صدقہ جاریہ کے زمرے میں آتا ہے تو اس کا ثواب بھی اسکو پہنچتا رہتا ہے، کسی کے نام پر صدقہ دینے والی اس میں کوئی بات نہیں ۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ