سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) نماز جنازہ سری یا جہری ؟

  • 14690
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 5605

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم لوگ جو نماز جنازہ اونچی قرأت سے پڑھتے ہیں اس کا اور آہستہ پڑھنے کا کیا ثبوت ہے ؟ اس سوال کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل دہیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز جنازہ میں قرات جہرا و سرا دونوں طرح درست ہے البتہ دلائل کی رو سے سرا پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے۔ سری پڑھنے کے دلائل یہ ہیں۔

۱)         سیدنا ابو امامه  سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :

 (( السنة فى الصلوة على الجنازة ان يقرأ فى التكبيرة الأولى بأم الفرآن مخافتة ثم يكبر ثلاثا و التسليم  عند الأخرة.))

            '' نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورة فاتحہ آہستہ آواز میں پڑھے پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے پاس سلام پھیرے ''( نسائى 1/280, المحلى 5/129. المحموع 5/33, شرح معانى الاثار للصحاوى1/288)

            یعنی تکبیر اولیٰ کے بعد سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھے پھر باقی تکبیرات میں جیسا کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے کہ دوسری تکبیر کے بعد درود پڑھے پھر تیسری تکبیر کے بعد دُعا پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دے ۔ بعض صحیح روایات میں چار سے زائد تکبیرات کا بھی ثبوت موجود ہے ملاحظہ ہو ۔ احکام المنائر للشیخ البانی حفظہ اللہ، امامش افعی  نے کتاب الام ۱/۲۳۹،۲۴۰ پر اور انہی کی سند سے امام بیہقی ۴/۳۹٣  پر اور امام ابن الجاوری المنتقی (۲۶۵) پر لائے ہیں کہ ابو امامه  کی مذکورہ حدیث میں ہے ۔

(( أن السنة فى الصلوة على الجنازة أن يكبر الإمام ثم يقرء بفاتحة الكتاب بعد التكبيرة الأولى سرا فى نفسه ثم يصلى على النبى صلى الله عليه وسلم و يخلص الدعاء  للجنازة فى التكبيرات لا يقرأ فى شىء منهن ثم يسلم سرا فى نفسه  والسنة أن يفعل من وراءه مثلها فعل إمامه.))

            '' نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے۔ پھر ( تکبیر کے بعد ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔ پھر باقی تکبیروں میں میت کیلئے خلوص سے دعا کرے اور ان تکبیروں سے قرأ ت نہ کرے آہستہ آہستہ سلام پھیرے اور سنت یہ ہے کہ مقتدی بھی وہ عمل کرے جو اسکا امام کرے ''۔

اور امام شافعی  فرماتے ہیں :

(( و أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم لا يقولون بالسنة والحق إلا لسنة رسول الله صلى الله علسه وسلم إن شاء الله تعالى ,))

            '' یعنی اصحاب صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مسئلے کے بارے میں کہیں کہ یہ سنت اور حق ہے تو اس کا مطلب محض یہ ہوتا ہے کہ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے ۔ ان شاء اللہ ''

            ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرأت آہستہ کرنا مسنون ہے اور سرا فی نفسہ مخافتہ کے الفاظ اس مسئلہ پر صراحت سے دلالت کرتے ہیں ۔ا ور جہری قرأ ت کرنے کا استدلال اس حدیث سے ہے کہ سیدنا عوف بن مالک  فرماتے ہیں :

" صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على جنازة فحفظت من دعائه وهو  يقول  أللعم اغفر له وارخمه  وعافه  واعف عنه .))

            '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ  کی نماز پڑھائی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعا سے یاد کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کہہ رہے تھے اے اللہ اس کو بخش دے اور اس پر رحم کر اور اس کو عافیت دے معافی سے نواز دے''۔ (الحدیث)

            اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ پڑھناسے یہ دعا حفظ کی اوریہ تبھی ہو سکتا ہے جب آپ نے جہری پڑھی ہو ۔ بہر کیف سری پڑھنا حدیث سے صراحتاً اور جہری پڑھنا استدلالاً ثابت ہے، اس لئے آہستہ پڑھنازیادہ قوی و بہتر ہے ۔ تفصیل کیلئے علامہ البانی حفظہ اللہ کی کتاب احاکم الجنازء ملاحظہ کیجئے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ