سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(80) کیا شہید کا نماز جنازہ پڑھنا بدعت ہے ؟

  • 14689
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1937

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ کہتے ہیں کہ شہید ہونے والے کا نماز جنازہ پڑھنا بد عت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔کیا یہ بات درست ہے قرآن و سنت کے دلائل سے وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شہید کی نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں رسولا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ :

۱١)        شداد بن الہاد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے ، کہتے ہیں ایک اعرابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ مسلمان ہو کر کہنے لگا ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ہجر ت کروں گا۔ اللہ کے ر سول نے اسے بعض صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے سپر د کر دیا ۔ وہ ان کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ غزوہ خیبر میں جو مال غنیمت حاصل ہوا، اس میں سے رسول اللہ نے اس کا حصہ بھی نکالا اور اس کے ساتھ ساتھیوں کو دے دیا۔ جب وہ بکریاں چرا کر واپس آیاتو انہوں نے کہا یہ حصہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے تیرے لئے مقرر کی ہے۔ وہ اس حصہ کو لے کر رسول اللہ کے پاس آئے اور کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی اس دنیاوی مال کیلئے نہیں کی تھی بلکہ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لایا تھا کہ میری شہ رگ میں تیر لگے اور میں شہید کر دیا جاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو سچ کہتا ہے توا للہ تجھے سچا کر دے گا۔ پھر وہ تھوڑی دیر ٹھہرے اور دشمن کے ساتھ قتال میں مشغول ہو گئے اور شہید ہوئے تو اسے اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اسے وہیں تیر لگا جہاں اُس نے اشارہ کیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا یہ وہی ہے ۔ کہا گیا، ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے اللہ کے ساتھ صدق سے معاملہ کیا تو اللہ نے بھی سچ کر دکھایا ۔

"ثم كفنه النبى فى جبة النبى صلى الله علسه وسلم فصلى عليه فكان فيما ظهر من صلاته أللهم هذا عبدك خرج مها جرا فى سبيلك فقتل شهيدا أنا شهيد على ذلك.))

            '' پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جبہ میں کفن دیا اور اس نے نماز جناز ہ پڑھی تو آپ کی دعا سے جو الفاظ ظاہر ہوئے ، وہ یہ ہیں ۔ اے اللہ ! یہ تیرا بندہ تیرے راستے میں ہجرت کر کے نکلا اور شہادت کی موت سے مشرف ہو امیں اس پر گواہ ہوں ''۔ (صحیح سنن النسائی ، سنن الکبری ، بیہقی۴٤/۱۷۔۱۰٠، حاکم )

            شیخ البانی صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں اس کی سند صحیح ہے جس کی سب راوی مسلم کی شرط پر ہیں ۔ سوائے شداد بن الہاد کے اوریہ معروف صحابی رسول ہیں ۔

۲٢)      عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں ۔

(( أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بوم أحد بحمزة فسجى ببردة ثم صلى عليه فكبر تسع تكبيرات ثم أتى بالقتلى يصفون ويصلى عليهم وعليه معهم .))

            '' رسول اللہ نے احد کے دن حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو چادر سے ڈھانپنے کا حکم دیا ۔ پھر رسول اللہ نے اسکی نماز جنازہ پڑی اور نو تکبیریں کہیں ۔ پھر دوسرے شہداء کو لایا جاتا ۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور ساتھ حمزہ کی بھی ''۔         (منافی الآثار طحاوی  )

            شیخ البانی فرماتے ہیں ،ا س کے سب راوی ثقہ اور معروف ہیں او رمحمد بن اسحق نے سماع کی تصریح کی ہے

۳)        انس بن مالک کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ  کے پاس گزرے۔ اُن کا مثلہ ( ناک کان اور دوسرے ظاہری اعضاء کٹے ہوئے ) کیا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ  کے سوا شہدائے احد میں کسی کا جنازہ نہیں پڑھا ۔ (ابو دائود، ترمذی، احمد، حاکم )

            شیخ البانی فرماتے ہیں کہ اس کی سندحسن ہے۔

            یہ تین روایات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔ ٹھیک ہے بعض صحیح روایات میں یہ بھی موجود ہے کہ شہدائے احد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی لیکن ان روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ جن میں ہے کہ حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا کسی کا نماز جنا زہ نہیں پڑھا گیا ۔ ان کے تطبیق اس طرح ہے کہ حمزہ  کی طرح مستقلاً ایک ایک کا جنازہ نہیں پڑھا گیا۔ ان کی تطیق اس طرح ہے کہ حمزہ  کی طرح مستقلاً ایک ایک کا جنازہ نہیں پڑھا گیا اورپھر یہ شریعت کا قاعدہ بھی ہے الائبات مقدم علی النفی ایک طرف کسی چیز کے ثبوت کی دلیل ہو اور دوسری طرف نفی والی پر مقدم ہوتی ہے ۔اب ہمارے اس مسئلہ میں بعض احادیث نماز جنازہ کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء اُحد کی نماز جنازہ پڑھی اور بعض اس کی نفی کرتی ہیں تو اس قاعدے کے مطابق ان احادیث کو ترجیح ہو گی جو نماز جنازہ کے پڑھنے پر دلالت کر رہی ہیں تو پھر جو احادیث شہرائے احد پر نماز جنازہ کی نفی کرتی ہیں وہ صرف دو صحابہ  سے مروی ہیں ایک جابن بن عبداللہ اور دوسرے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ جبکہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ اس واقع کے وقت کے چھوٹے بچے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہی دونوں صحابی رسول ( انس اور جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ) اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے نماز جنازہ پڑھنے کو بھی بیان کر رہے ہیں ۔ جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث مستدرک حاکم میں ہے جبکہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث ابو داؤد میں بھی ہے۔

            بخاری شریف میں عقبہ بن عامر  کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھر سے نکلے اور شہداء اُحد کا جنازہ آٹھ سال بعد پڑھا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھنی چاہئے اگر چہ لمبی مد ت گزرنے کے بعد پڑھی جائے ۔ خلاصہ یہی ہے کہ شہید کی نماز جنازہ دوسرے فوت ہونے والوں کی طرح فرض نہیں ۔ علامہ ابن القیم فرماتے ہیں :

 (( والصواب فى المسئلة أنه مخير بين الصلوة عليهم  تركها لمحىء الأثار لكل واحد من الأمرين ,))

            '' اور اس مسئلہ میں درست بات یہ ہے کہ شہید کا نماز جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے کیونکہ دونوں طرح کے آثار موجود ہیں''۔ (تہذیب السنن )

            حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں امام احمد بن جنبل سے دونوں امروں کا جواز نقل کیا ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں :

(( ولا شك أن الصلوة  عليهم أفضل من الترك إذا تيسرت لأنها دعاء و عبادة.))

            '' اس میں کوئی شک نہیں کہ شہداء کا نماز جناز ہ پڑھنانہ پڑھنے سے افضل ہے جب یہ میسر ہو کیونکہ یہ دعا اور عبادت ہے ''۔ (احکام الجائز ، ص ۱۰۸)

            شوکافی نے بھی شہید کی نمازِ جنازہ پڑھنے کو زیادہ پسند کیا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ