سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) شہید کی نماز جنازہ

  • 14687
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1681

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے کچھ ساتھی جو کشمیر میں شہید ہوئے ہیں ہم نے ان کی نماز جنازہ کیلئے اپنی مولوی صاحب سے کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ جو شہید ہو جاتے ہیں ، ان کی نماز جانزہ نہیں پڑھنی چہائے۔ قرآن وسنت کیر و سے واضھ کہ شہید اگر جنازہ پڑھ لیا جائے تو کیا درست ہے یا نہیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شہید کی نماز جنازہ نہ ضروری ہے اور نہ ناجائز۔ بلکہ اس کا پڑھنا بھی جائز ہے اور نہ پڑھنا بھی ۔ دونوں کی طرح کی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ شہداء کا جنازہ پڑھنے کے متعلق چند ایک احادیث کا ذکر کرتا ہوں :

(( عن شداد بن الهاد أن رجلا من الأعراب جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم فأمن به و اتبعه ثم قال أهاجر معك فلبثوا قليلا ثم نهضوا فى قتال العدو  فأتى به النبى صلى الله عليه وسلم يحمل قد أصابة سهم ... ثن كفنه صلى الله عليه وسلم فى جبته ثم قدمه فصلى عليه .)) 

            '' سیدنا شداد بن الہاد سے روایت ہے کہ ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا۔ پرھ وہ شخص جنگ میں شہید ہو گیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جبہ میں کفن دیا اور اس کی نماز جنازہ ُڑھی '' ۔

            یہ حدیث صحیح ہے اور امام نسائی کی السنن الکبری (۲۰۸۰)۱/۶۳۴۱اور امام طحاوی کیش رح معانی الاثار ۱/۲۹۱، مستدرک حاکم ۳/۵۹۵۔۵۹۶ اور بیہقی۴/۱۵۔۱۶ میں موجود ہے۔

(( عن عبد الله بن الزبير : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر يوم أحد بحمرة فسجى ببردة ثم صلى عليه فكبر تسع تكبيرات ثم أتى بالقتلى يصفون و يصلى عليهم و عليه معهم ))

            '' سیدنا عبداللہ بن زیبر  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے احد کے دن سیدنا حمزہ کے متعلق حکم دیا ۔ پس انہیں ایک چادر میں چھپا دیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حمزہ کی تو نکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ ادا فرمائی ۔ پھر دوسرے شہداء باری باری لائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی بھی نماز جنازہ ادا فرمائی اور ان کے ساتھ ساتھ حمزہ کی نماز بھی ادا فرماتے رہے ''۔ (طحاوی۱/۲۹۰)

            امام بخاری  نے بخاری کتاب لاجنائز باب الصلاة علی الشھید میں عقبہ بن عامر سے روایت کی ہے :

(( أن النبى صلى الله عليه وسلم خرج يوما فصلى على أهل أحد صلاته على الميت ...))

            ' ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے شہداء اُحد پر اس طرح نماز ادا کی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  میت پر نماز ادا کرتے تھے ''۔

(بخاری۳/۱۶۴،۷/۲۷۹،۲۸۰،۳۰۲، مسلم۷/۲۷، احمد۴/۱۴۹،۱۵۳ طحاوی۱/۲۹۰، دارقطنی۱۹۷، السنن الکبری للنسائی ۱/۲۳۵(۲۰۸۱)

            امام ابن حزم، امام احمد بن جنبل، امام ابن قیم اور لعماء اہلحدیث  نے اس مسلک کو راجح قرار دیا ہے جس کی تفصیل تحفۃ الاحوذی۲/۱۴۸۹، نیل ۴/۴۸، المغنی ۳/۲۹۵ وغیرہ میں ہے۔ امام ابن قیم نے تہذیب السنن ۴/۲۹۵ میں فرمایا ہے۔

((والصواب فى المسألة أنه مخير بين الصلاة عليهم  وتركها لمجىء الأثار بكل و هذا  إحدى الروايات  عن الإمام أحمد وهى الأليق بأصوله  ومذهبه.))

            '' مذکورہ بالا مسئلہ میں درست بات یہی ہے کہ شہید کی نماز جناز پڑھنے اور ترک کرنے میں اختیار ہے ۔ اس لئے کہ ہر ایک کے متعلق آثار مری ہیں اور امام احمد  سے بھی ایک روایہت اس طرح مروی ہے اور ان کے اصول و مذہب کے زیادہ مناسب ہے ''۔     

            دور حاضر کے محدث علماہ البانی حفظہ اللہ کی رائے اس مسئلہ میں یہ ہے کہ شہید کی نماز جنازہ نہ پڑھنے سے پڑھنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ جنازہ دُعا اور عباد ت ہے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ