سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(68) کیا وسوسوں اور خیالات سے نماز باطل ہو جاتی ہے ؟

  • 14677
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1473

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے نماز ادا کرتے وقت اکثر خیالات اور وسو سے آتے رہتے ہیں ۔ کیا نماز کے اندر خیالات اور وسوسوں سے نماز باطل ہو جاتی ہے یا نہیں۔ ان خیالات کو دور کرنے کا مجھے کوئی وظیفہ بتائیں ۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کے اند ر وسوسے اور خیالات کے آنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ بخاری شریف میں باب من صلی بالناس فذکر جاجة فتخطاھم من عبقه بن الحارث سے مروی ہے انہوں نے کہا :    

((صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ العَصْرَ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا، فَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ إِلَى بَعْضِ حُجَرِ نِسَائِهِ، فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِهِ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ، فَرَأَى أَنَّهُمْ عَجِبُوا مِنْ سُرْعَتِهِ، فَقَالَ: «ذَكَرْتُ شَيْئًا مِنْ تِبْرٍ عِنْدَنَا، فَكَرِهْتُ أَنْ يَحْبِسَنِي، فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ.))

    '' میں نے نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم   کے پیچھے مدینہ میں عصر کی نماز ادا کی ۔ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے سلام پھیرا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گر دنیں پھلانگتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے حجرے کی طرف چلے گئے۔ لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی اس جلدگی سے گھبرا گئے۔ جب آپ   صلی اللہ علیہ وسلم   واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم آپ کی جلدی پر متعجب ہیں۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا مجھے یا دآگیا کہ ہمارے گھر میں ایک سونے کی ایک ڈلی ہے۔ میں نے نا پسند کیا کہ وہ مجھ روک کر رکھے۔ میں نے اس کی تقسیم کا حکم دیا ہے۔

 اس حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں ''۔      (بخاری ۱/۱۴۰)

(( ذكرت و أنا فى الصلوة .))

    '' مجھے نماز کی حالت میں یہ بات یاد آئی ''
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی حالت میں کسی چیز کی یاد آئے یا کوئی خیال آجائے توا س سے نماز باطل نہیں ہوتی ۔ اسی طرح مسند احمد صحیح مسلم میں سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :

((أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ حَالَ بَيْنِي وَبَيْنَ صَلَاتِي وَقِرَاءَتِي يَلْبِسُهَا عَلَيَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ شَيْطَانٌ يُقَالُ لَهُ خَنْزَبٌ، فَإِذَا أَحْسَسْتَهُ فَتَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْهُ، وَاتْفِلْ عَلَى يَسَارِكَ ثَلَاثًا» قَالَ: فَفَعَلْتُ ذَلِكَ فَأَذْهَبَهُ اللهُ عَنِّي.))

    '' سیدنا عثمان ابن ابی العاص نے کہا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم، شیطان میرے اور میری نماز کے درمیان  حائل ہو جاتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا اس شیطان کا نام خنزب ہے جب اس کا اکسانا محسوس کرو تو ( دوران نماز ) اعوذب اللہ پڑھو اور دائیوں طرف تین مرتبہ تھوکو۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مجھ سے دور کر دیا ''  (مشکوۃ باب الوسوۃ١۱/۲۹، بتحقیق شیخ البانی رحمۃ اللہ)
    سیدنا عمررضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں اپنا لشکر روانہ کرتا ہوں حالانکہ میں نماز میں ہوتا ہوں۔ ( نیل الا وطار ۲/۳۸۳)
    یعنی بعض اوقات نماز کے دوران میرا خیال لشکر کی تیاری کی طرف پلٹ جاتاہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے :

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي مَا وَسْوَسَتْ بِهِ صُدُورُهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ.))
    '' سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے وہ خیالات و ساوس جو ان کسے سینوں میں پیدا ہوتے ہیں ، معاف کر دئیے ہیں۔ جب تک ان خیالا ت کے ساتھ کلام نہ کر لیں یا انہیں عملی جامہ نہ پہنا لیں ''۔    (متفق علیہ مشکوٰۃ باب الوسوۃ ۱/۲۶)
    ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شیطان نماز کے اندر وسو سے ڈالتا ہے اور جب کسی شخص کو نماز میں کوئی خیال آئے یا وسوسہ پیدا ہو تو وہ اعوذباللہ پڑھ کر بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے۔ اللہ تعالیٰ اس سے یہ وسوسہ دور کر دے گا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وسوسہ اور خیال آجانے سے نماز باطل نہیں ہوتی ۔ انسان کو حالت نماز میں ان خیالات کو دور کر کے اپنی پوری توجہ نماز کی طرف مبذول کر دینی چاہئے تاکہ پورےا نہمک اور دھیان سے نماز ادا کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے صحیح طور پر مناجات ہو البتہ جتنا دھیان نماز میں کم ہوتا ہے، اتنا ثوب کم ہو جاتا ہے جیسا کہ ابو داؤد اور نسائی اور ابن حبان میں عمار بن یاسررضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ