سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں

  • 14667
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 6110

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن و سنت کی روشنی میں عورت کی نماز کے بارے میں بتائیں کیونکہ عموماً کہا جاتا ہے کہ عورت کی نماز مرد کی نماز سے مختلف ہے۔ مثلاً عورت کو مرد کی طرح سجدہ نہیں کرنا چاہئے وغیرہ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو نماز کی کیفیت و ہییت بیان فرمائی ہے اس کیا دائیگی میں مرد و عورت برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ۔ '' تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ''۔
                        (بخاری مع فتح الباری۲/۱۱۱، مسند احمد۵/۵۲، ارواء الغلیل حدیث نمبر۲۱۳١٣)
    یاد رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے سلام تک مردوں اور عورتوں کی نماز ہیئت ایک جیسی ہے سب کیلئے تکبیر تحریمہ قیام، ہاتھوں کا باندھنا، دعاء استفتاح پڑھنا، سورہ فاتحہ، آمین، اس کے بعد کوئی اور سورت، پھر رفیع الیدین رکوع، قیام ثانی، رفع یدین، سجدہ ، جلسہ استراحت ، قعدہ اولیٰ ، تشہد، تحریک اصابع، قعدہ اخیرہ ، تورک، درود پاک اور اس کے بعد دعا، سلام اور ہر مقام پڑھی جانے والی مخصوص دعائیں سب ایک جیسی ہی ہیں عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک ، مر دحال قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر ، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں او ر عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں یہ کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں ۔ چنانچہ امام شوکافی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :

(( و اعلم أن  هذه  السنة تشرك فيها الرجال والنساء و لم يرد ما يدل على الفرق بينهما فيها وكذا لم يرد  ما يدل على الفرق بين الرجل والمرأة فى مقدار الرفع روى عن الحنفية أن الرجل  يرفع إلى الأذنين والمرأة إلى المنكبين لأنه أسترلها ولا دليل على ذالك كما عرفت ,))

۱)    '' اور جان لیجئے کہ یہ رفع یدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جوان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو ۔ اور نہ ہی کوئی ایسی حدیث وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقتدار پر دلالت کرتی ہو اور احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس لئے زیادہ سا تر ہے لیکن اس کیلئے ان کے پاس کوئی دلیل شرعی موجود نہیں ''۔
                                            ( نیل الا وطار ۲/۱۹۸)
    شارح بخاری امام حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ شمس الحق عظیم آابادی  رحمۃ اللہ  فرماتے ہیں :

" لم يرد ما يدل على التفرقة فى الرفع بين الرجل والمرأة "

    '' مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کیلئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ''۔    (فتح الباری٢/۲۲۲، عوں المعبود ۱/۲۶۳)
۲)    مردوں اور عورتوں کے حال قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو سینے پر باندھیں خاص طور پر عورتوں کیلئے علیحدہ حکم دینا کہ وہ ہی صرف سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں اس لئے حنفیوں کے پاس کوئی صریح و صحیح حدیث موجود نہیں ۔ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری ترمزی کی شرح میں فرماتے ہیں کہ :

" فاعلم أن مذهب الإمام أبى حنفية أن الرجل يضع اليدين فى الصلوة تحت السرة والمرأة تضعهما على الصدر و لم يرو عنه ولا عن أصحابه شيء خلاف ذلك-"

    '' پس جان لو کہ امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر امام بو حنیفہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں ہے ''۔   (تحفہ الا حوذی ۱/۲۱۳)
    محدث عصر علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

"وضعهما على الصدر الذى ثبت فى السنة وخلافه إما  ضعيف أولا أصل له "

    '' اور سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یا پھر بے اصل ہے ''۔(صفۃ صلاۃ النبی  صلی اللہ علیہ وسلم /۸۸)
۳)    حالت سجدہ میں مردوں کا پانی رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا یہ حنفی علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  دوعورتوں کے پاس گزر ے جو نماز پڑے رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جب تم سجدہ کر وتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسانہیں ۔ علامہ البانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

"مرسل لا حجة فيه رواه أبو داؤد فى "المراسيل"(عن يزيد بن ابى حبيب , صفة صلاة النبى صلى الله عليه وسلم /89)

    '' روایت مرسل ہے جو قابل حجت نہیں امام ابو داؤد نےا سے مراسیل میں یزید بن ابی حبیبت سے روایت کیا ہے مگر یہ روایت منقطع ہے اور اس کی سند میں موجود ایک راوی سالم محدثین کے نزدیک متورک بھی علامہ ابن التر کمانی حنفی نے الجوھر النقی علی السنن الکبری للبیھقی ٢/۲۲۳پر تفصیل سے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے ''۔
۴)    اس بارے میں حنفی علماء ایک اور روایت پیش کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے اس طرح کہ اس کیلئے زیادہ سے زیادہ پردہ کا موجب ہو ۔ یہ روایت السنن الکبری للبیہقی ۲/ ۲۲۲۔ ۲۲۳ میں موجود ہے لیکن اس روایت کے متعلق خود امام بیہقی نے صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی ضعیف روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک اثر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ :

" أنه كان يأمر نساءه يتربعن فى الصلاة"(مسائل احمد لابنه عبد الله /71)

"وہ اپنی عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ نماز میں چار زانوں بیٹھے"۔

مگر اس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہے۔(تقریب ۱۸۲)

پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کرنے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر اس طریقہ کے خلاف رسول اللہ کے متعد ارشاد مروی ہیں چند ایک یہاں نقل کیے جاتے ہیں ۔

(( لا يبسط أحدكم ذراعيه إنبساط الكلب))

    '' تم سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے دونوں بازے کتے کی طرح نہ بچھائے''

(( إعتدلوا فى السجود ولا يفترش أحدكم ذراعيه  افتراش الكلب))

    '' سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازہ کتے کی طرح نہ بچھائے ''۔
    غرض نماز کے اند رایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح ہوں۔ امام بن قیمہ فرماتے ہیں ـ:
    '' نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑ کی طرح اِ دھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرف افتراش یا کتے کی طرح اقعاء کو ے کی طرح ٹھونگیں مار نا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع ہیں ''۔( زاد المعاد1/116)
    پس ثابت ہو اکہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے :

(( إذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما))

    '' جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ ہی اپنے پہلوؤں سے ملاتے تھے ''۔
    بخاری مع فتح الباری ٢/ ۳۰۱، سنن ابو داؤد مع عون۱/۳۳۹، السنن الکبری للبیہقی۲/۱۱۶، شرح السنہ للبغوی (۵۵۷)
    قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وار دہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں فرمایا۔ دوسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیئت نماز کا مفرق مروی نہیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم کے عہدِ رسالت سے جملہ اُمہات المومنین ، صحابیات  اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ کا ہوتا تھا ۔ چنانچہ امام بخاری ل نے بسند صحیح اُم درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے :

(( إنها كانت تجلس فى صلاتها جلسة الرجل و كانت فقيهة ))

    '' وہ نما ز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں ''۔  ( تاریخ صغیر للبخاری ٩٠)
    چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   کا حکم عام ہے :

(( صلوا كما رأيتمونى أصلى ))(بخارى )

    '' تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔''
    ا س حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں ۔
    پانچویں بات یہ ہے کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین محدثین اور صلحائے اُمت میں سے کوئی بھی ایسامرد نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہو کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے مردوں اور عوتوں کی نماز میں فرق کیا ہو بلکہ امام ابو حنیفہؒ کے استاذ کے استاذ امام ابرہیم نحعی سے بسند صحیح مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں :

(( تفعل المرأة فى الصلاة كما يفعل الرجل))

    '' نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے ''۔    (مصنف ابن ابی شیبہ۱/۷۵/۲)
    جن علماء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کیلئے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا قیام میں ہاتھ سینہ پر باندھنا اور سجدہ میں زمین کے چاتھ چپک جانا موجب ستر بتایا ہے۔ وہ دراصل قیاس فاسد کی بناء پر ہے کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن وسنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر از خود دین میں اضافہ کرے۔ البتہ نماز کی کیفیت وہیئت کے علاوہ چند مرد و عورت کی نماز مختلف ہیں ۔
    ۱١)    عورتوں کیلئے اوڑھنی او پر لے کر نماز پڑحنا حتی کہ اپنی ایڑیوں کو بھی ڈھکنا ضرویر ہے۔ اس کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا :

(( لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار.))

    '' اللہ تعالیٰ کسی بھی بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا''۔    (ابن ماجہ (۶۵۵)۱/۲۱۵، ابوداؤد (۶۴۱) ، مسند احمد۶/۱۵۰،۲۱۸،۲۵۹)
    لیکن مردوں کیلئے کپڑا ٹخنوں سے اوپر ہونا چہائے کیونکہ بکاری شریف میں آتا ہے ہے کہ :

(( ما أسفل من الإزار من الكعبين فى النار ))

    '' کپڑے کا ٹخنے سے نیچے ہونا باعث آگ ہے ''۔
    ۲٢)    عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو اس کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو جائے مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو ۔ امام ابو بکر ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور اور امام حاکم نے سیدنا عطاء سے بیان کیا ہے کہ :

((عن عائشة أنها كانت تؤم النساء فتقوم معهن فى الصف.))

    '' سیدہ عائشہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں ''۔
    اور اُ م سلمہ کی روایت میں آتا ہے کہ :

(( أنها أمت النساء فقامت وسطهن .))

    '' انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں ''۔
   ( مزید تفصیل کیلئے عون المعبود۲/۲۱۲ ملاحظہ فرمائیں )

۳)   امام جب نماز میں بھول جائے تو ا سے متنبہ کرنے کیلئے مرد سبحان اللہ کہے اور عورت تالی بجائے ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے :

(( ألتسبيح للرجال و التصفيق للنساء))
    '' مردوں کیلئے سبحان اللہ اور عورتوں کیلئے تالی ہے ''
    (بخاری ۲/۶۰، مسلم۲/۲۷، ابو داؤد (۹۳۹) ، ابن ماجہ۱/۲۲۹، نسائی۳/۱۱، مسند احمد۲/۲۶١،۳۱۷،۳/۳۴۸)
    ۴٤)    مرد کو نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں لیکن عورت کو حالتِ حیض میں فوت شدہ نماز کی قضا نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، دارمی اور مسند احمد میں موجود ہے۔
    ٥۵)   اسی طرح عورتوں کی سب سے آخری صف ان کی پہلی صف سے بہتر ہوئی ہے ۔ مسلم کتاب الصلوٰۃ ، ابو داؤد، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور مسند احمد۲/۴۸۵،۲۴۷،۳/۳،۱۶ میں حدیث موجو دہے ۔
    یہ مسائل اپنی جگہ پر درست اور قطعی ہیں مگر ان میں تمام تصریفات منصوصہ کو مروجہ تصریفات غیر منصوصہ کیلئے ہر گز دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ یہ تفریقات علماء احناف کی خودساختہ ہیں جن کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ