سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) دعائے قنوت ، رکوع سے پہلے یا بعد ؟

  • 14665
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1816

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دُعائے قنوت وتر میں رکوع سے پہلے مانگی چاہیئے یا بعد میں ۔ بخاری شریف میں سید نا انس سے مروی ہے کہ رکوع کے بعد قونت کرنا غلط ہے کیا یہ درست ہے قرآن و سنت کی رو سے صحیح مسئلہ کی و ضاحت کریں۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول و فعل اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے عمل سے وتر میں دُعا قنوت رکوع سے قبل ثابت ہے اور اکثر روایات رکوع سے قبل ہی قنوت وتر پر دلالت رکتی ہیں۔ سیدنا ابی بن کعب  رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے :

(( أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر فيقنت قبل الركوع))

    ۱) رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ( تین ) وتر ادا کرتے تو دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے ۔  ( سنن ابن ماجہ (۱۱۸۶)۱/۳۷۴ ١، نسائی۳/۲۳۵، دارقطنی۲/۱۳)
    یہ روایت بطریق سفیان از زبید الیامی مروی ہے اس کے علاوہ دار قطنی ۳/۳۱ اور بیہقی ۳/۴۰ میں بطریق فطر بن خلیفہ از زبیری مروی ہے ان دنوں نے بھی زبید سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے دعائے قنوت قبل از رکوع ہی بیان کیا ہے۔
   ۲)    سیدنا حسن  رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں :

(( علمنى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أقول إذا فرغت من قراءة فى الوتر أللهم اهدنى .)) ( الحديث)

    '' یعنی مجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ کلمات وتر میں قرأ ت سے فارغ ہو نے کے بعد پڑھنے کیلئے سکھائے ''  ( کتاب التوحید لابن مندہ ۲/۹۱، ارواء الغلیل٢۲/۱۶۸)
    یہ روایت اپنے مفہوم کے لحاظ سے بالکل واضح ہے کہ وتر میں دعائے قنوت قرأت سے فارغ ہونے کے بعد رکوع سے پہلے کرنی چاہئے۔
   ۳)    علقمہ سے روایت ہے :

((أن ابن مسعود و أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا يقنتون فى الوتر قبل الركوع.))
    '' کہ ابن مسعود  رضی اللہ تعالٰی عنہ اور رسول اللہ کے صحابہ کرام  رضی اللہ تعالٰی عنہم وترمیں رکوع سے قبل قنوت پڑھا کرتے تھے ''۔
    علامہ ابن تر کماین نے الجوہر النقی میں اور علماہ البانی حفظہ اللہ نے ارواء الغلیل میں اس کی سند کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے لہٰذا صحابہ کے عمل سے بھی وتر میں قنوت رکوع سے قبل ہی ثابت ہوئی ۔ امام ابن ابی شیبہ آثار صحابہ کے بعد فرماتے ہیں ھذا القول عندنا ہمارا قول یہی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ۲/۳۰۶)
   ۴)    عاصم کہتے ہیں میں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے قنوت کے بارے میں سوال کیاتو آپ نے فرمایا رکوع سے پہلے ہے پھر میں نے کہا فلاں شخص آپ کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ رکوع کے بعد ہے تو انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا وہ غلط کہتا ہے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رکوع کے بعد صرف ایک ماہ قنوت کیا ۔ یہ اس وقت ہو اجب آپ نے ۷۰ قراء صحابہ کو مشرکوں کی ایک قوم (بنی عامر ) کی طرف تعلیم کیلئے بھیجا تھا ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان وعدہ تھا (انہوں نے وعدہ شکنی کرتے ہوئے ان قراء کو شہید کر ڈالا ) تو آپ نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد قنوت کیا اور ان پر بد دعا فرمائی ۔
                                    (بخاری ۱/۱۹۷، ص ١٩٧ مطبوعہ مکتبہ دارالسلام)
    اس روایت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو دُعا ہنگامی حالات میں مسلمانوں کی خیر خواہی ، کفار و مشرکین اور دشمنان اسلام کیلئے بد دعا کے طور پر کی جاتی ہے وہ رکوع کے بعد ہے جسے قنوتِ نازلہ کہا جاتا ہے اور جو دعا رکوع سے قبل مانگی جاتی ہے وہ قنوت وتر ہے اور قنوت وتر میں ہاتھوں کا اٹھانا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی کسی صحیح حدیث میں ثابت نہیں ۔ رکوع سے قبل قرأ ت سے فارغ ہونے کے بعد اسی طرح بغیر ہاتھ اٹھائے دعا مانگنی چاہئے جو لوگ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں ہو اسے قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہیں ۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ