سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) مقیم امام کے پیچھے مسافر کی نماز

  • 14658
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 3451

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسافر مقیم امام کے پیچھے با جماعت نما ادا کرے تو کیا صرف دو رکعت پڑھ سکتا ہے؟ کیونکہ مسافر پر صرف د و رکعت فرض ہے خصوصاً جبکہ وہ امام کے ساتھ آخری دو رکعت میں ملا ہو ۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں ''۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسافر پر مقیم امام کے ساتھ پوری نماز پڑھنا واجب ہے خواہ وہ مقیم امام کے ساتھ شرعو نماز میں داخل ہو یا درمیان میں۔
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ـ:

(( إنما جعل الإمام ليؤتم به .))

    '' اما اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ ( متفق علیہ )
دوسری حدیث میں ہے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

(( فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا.))

'' جو نماز تم امام کے ساتھ پا لو وہ پڑھو اور جو تم سے رہ گئی تھی اس کو پورا کر لو ''۔     (صحیح بخاری )
    یہ دونوں احادیث مسافر اور مقیم دونوں کیلئے عام ہیں ۔ جس طرح مقیم امام کی اقتداء کرتا ہے ۔ اسی طرح مسافر بھی امام کی اقتداء کرے گا۔ اسی طرح جماعت اتھ نماز ادا کرتے ہوئے جو رکعات فوت ہو گئی تھیں ان کو پورا کیا جائے گا۔ مقتدی مسافر ہو یا مقیم کیونکہ یہ حکم عام ہے اور سب کیلئے ہے۔
موسیٰ بن سلمہ کہتے ہیں :

((كنا مع ابن عباس بمكة فقلت أنا إذا كنا معكم صلينا أربعا و إذا رجعنا إلى رحالنا صلينا ركعتين ؟ قال تلك سنة أبى القاسم صلى الله عليه وسلم .))

    '' ہم مکہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ تھے۔ میں نے پوچھا جب ہم تمہارے ساتھ ہوتے ہیں تو چار رکعات نماز ادا کرتے ہیں اور جب اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹتے ہیں تو دو رکعت ادا کرتے ہیں۔ ( ایساکیوں ؟) عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا یہ ابو القاسم محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے''۔
                                    (مسند الامام احمد ج۱، ص۲۱۶، حدیث نمبر۱۸۶۵)
علامہ ناصر الدین البانی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ :  '' اس کی سند صحیح ہے اور اس کے رواۃ صحیح کے رواۃ ہیں ''۔( ارواء الغلیل )
    ایک روایت کے یہ لفظ ہیں ، عبداللہ بن عبا س رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا گیا کہ مسافر جب اکیلا ہو تو دو رکعت پڑھتا ہے اور جب مقیم کے پیچھے نماز ادا کرے تو پوری پڑھتا ہے۔ یہ کیوں ے ؟ انہوں نے کہا تلک السنۃ یہی سنت ہے ۔ ( مسند احمد )
    یہ حدیث اس مسئلہ میں صریح نص ہے کہ مسافر کیلئے مقیم امام کے پیچھے پوری نماز پڑھنا ہی واجب ہے کیونکہ ایک صحابی رسول کا من السنۃ یا تکل ھی النسۃ کہنا مروع حدیث کے حکم سے ہوتا ہے۔
    عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے منیی میں دو رکعت ادا کی۔ آپ کے بعد ابو بکر، عمرب اس پر عمل کرتے رہے۔ اس حدیث کے آخر میں ہے :

(( فكان ابن عمر إذا صلى مع الإمام صلى أربعا و إذا صلاها وحده صلى ركعتين .))

    '' عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے تو چار رکعت پڑھتے تھے اور جب اکیلے ہوتے تو دو رکعت پڑھتے ''۔ ( مشکوة المصابیح ، کتاب الصلوٰة ، باب صلوۃ المسافر ، متفق علیه )
    یہ تھا ایک صحابی رسول کا سنت پر عمل اوریہی عمل کرنے کا وہ دوسروں کو حکم دیتے تھے۔

ابو مجلز كہتے ہیں:

(( قلت لابن عنر : ألمسافر يدرك ركعتين من صلوة القوم يعنى المقيمين أتجزيه الركعتان أو يصلى بصلوتهم قال فضحك و قال يصلى  بصلوتهم ,)) (سنن الكبرى للبيهقى 3/157)

    علامہ البانی حفظ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سندہ صحیح اس کی سند صحیح ہے ۔                     (ارواء الغلیل )

    میں نے عبداللہ بن عرم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کہا کہ مسافر مقیم ام کے ساتھ دو رکعت پا لیتا ہے، کیا اس دو رکعت کفایت کر جائیں گی یا جتنی مقیم لوگوں نے نماز ادا کی ہے انتی کرے ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ بات سن کر ہنس ُڑے اور کہا جتنی نماز مقیم لوگوں نے پڑھی ہے، انتی ہی مسافر پڑھے گا ۔
    یہ ایک صحابیہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمل اور فتویٰ بھی ہے کہ مسافر مقیم امام کے پیچھے پوری نمازیں ادا کرے گا ۔ خواہ وہ شروع میں امام کے ساتھ مال ہو یا آخری دو رکعتوں میں ۔ اس کے بر عکس اگر مقیم آدمی مسافر امام کے پیچھے ادا کر تا ہے توا سے پوری نماز پڑھنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے سال نماز پڑھائی اور مقیم لوگوں کو کہا تم اپنی نماز پوری کر لو ۔ ہم مسافر ہیں۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ