سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) امام سے پہل کرنے کی سزا - اور امام کی پیروی کا صحیح طریقہ

  • 14657
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4317

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام سے پہل کرنے کی سزا  -  اور امام کی پیروی کا صحیح طریقہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امیر کی اطاعت تو مدت ہوئی مسلمانوں سے چھن چکی ۔ نہ انکا کوئی امیر المومنین ہے جس کی اطاعت کو وہ اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نا فرمانی سمجھیں نہ انہیں اسے حاصل کرنے کی کوئی فکر ہے۔ الا ما شاء اللہ ۔ لے دے کر نماز کے امام کی صورت میں انہیں پانچ وقت اطاعت کا سبق یا ددلایا جاتا ہے اور ان سے دنیا کے تمام کام چھڑوا کر اور ہر طرف سے توجہ ہٹا کر امام کی اقتداء میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتاہے کہ اب تمہاری ہر حرکت امام کی حرکت کے بعد ہونی چاہئے۔ اس سے پہلے کوئی حرکت تمہارے لئے جائز نہیں مگر اکثر مسلمان نا فرمانی کرنے کی فکر ہے نہ عقل کے تقاضوں کے خلاف ورزی۔ وہ ہر رکن میں امام سے پہلے حرکت کرتے ہیں او رکرتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ حالانکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پر سخت سزا سے ڈرایا ہے ۔

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا يَخْشَى الَّذِي يَرْفَعُ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ، أَنْ يُحَوِّلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ.))

    '' ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر میں بدل دے ''۔ (متفق علیہ ، مشکوٰۃ۱۰۶)
    نماز کی حالت میں امام سے پہل کرنا عقل کے تقاضوں کے بھی سرا سر خلاف ہے۔ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  نے فتح الباری میں ایک نکتہ نقل فرمایا ہے کہ اگر غور کریں تو امام سے آگے بڑھنے کی کوئی وجہ بھی اس کے بغیر نہیں ہو ستکی کہ نماز سے جلدی فراغت حاصل ہو جائے ۔ اس جلد ی بازی کا علاج یہ ہے کہ آدمی سوچے کہ وہ امام کے فارغ ہونے سے پہلے تو نماز سے نکل ہی نہیں سکتا پھر یہ جلد بازی کیوں ؟

امام کی پیروی کی تا کید

    امام کی پیروی اور اس سے پہلے نہ کرنی کی چند اور احادیث ملا حظہ فرمائیں :

((عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:«أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي إِمَامُكُمْ، فَلَا تَسْبِقُونِي بِالرُّكُوعِ وَلَا بِالسُّجُودِ، وَلَا بِالْقِيَامِ وَلَا بِالِانْصِرَافِ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ أَمَامِي وَمِنْ خَلْفِي))

    '' انس  رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دن ہمیں نماز پڑھائی ، نماز سے فارغ ہو کر اپنا چہرہ ہماری طرف پھیر کر فرمایا : لوگو! میں تمہارا امام ہوں ۔ تم مجھ سے نہ رکوع میں پہل کر و نہ سجد میں نہ قیام میں اور نہ منہ پھیرنے میں کیونکہ میں تمہیں اپنے سامنے اور پیچھے سے دیکھتا ہوں ''۔
                                            (راوہ مسلم ، مشکوۃ ص ۱۰۱)

((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا يَقُولُ: " لَا تُبَادِرُوا الْإِمَامَ إِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَالَ: وَلَا الضَّالِّينَ فَقُولُوا: آمِينَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "))

    '' ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا، امام سے جلدی نہ کرو جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو جب ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو ۔ جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو جب سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو اور جب سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ سجدہ نہ کرے تو تم سجدہ نہ کرو ''۔
                                (بلوغ المرام باب صلوۃ الجماعۃ و الامامہ)

امام کی پیروی کا مطلب نہ امام سے پہلے  نہ امام کے برابر حرکت کرے

    مولانا محمد اسماعیل سلفی  رحمہ اللہ  نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز میں لکھا ہے ::
    '' حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب امام تکبیر کہہ چکے تو مقتدی اس کے بعد تکبیر کہے۔ جب امام سجدے میں چلا جائے تو تم سجدے میں جاو ۔ جب امام سر اٹھا چکے تو تم سر اٹھاؤ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو ۔ اس سے ظاہر ہے کہ مقتدی کو ہر فعل اس وقت کرنا چاہئے جب امام وہ کام کر چکے۔ نہ امام سے پہلے جاناچاہئے نہ اس کے ساتھ بلکہ امام کے بعد وہ رکن ادا کرے۔ متابعت کرے یعنی پیچھے لگے''۔
    سیدنا عبداللہ بن مسعود رحمہ اللہ  نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ ارکان ادا کرنے میں امام سے سبقت کر رہا تھا ۔ فرمایا:
'' نہ تم نے تنہا نماز پڑھی نہ امام کی اقتداء میں''۔
                                        (بحوالہ رسالۃ الصلویۃ امام احمد )
نیز عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ :
    '' انہوں نے ایک شخص کو امام سے سبقت کرتے دیکھا تو فرمایا نہ تم نے اکیلے نماز ادا کی نہ امام کی اقتداء کی ۔ اسے مارا اور کہا نماز لوٹاؤ ''۔
                                        (رسالۃ الصلوٰۃ ص ۳۵۲مجموعہ الحدیث)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایسی نماز کو ناجائز سمجھتے ہین ۔
امام احمد فرماتے ہیں ( ترجمہ )
    نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان اذا کبر فکربوا کا یہ مطلب ہے کہ امام کی تکبیر ختم ہو جائے پھر مقتدی تکبیر کہے لوگ جہالت کی وجہ سے غلطی کرتے ہیں اور نمازکے معاملہ کو ہلکا سمجھتے ہیں امام کےساتھ ہی تکبیر کہنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ غلطی ہے۔
                                            (رسالہ الصلوٰۃ لا حمد ص۱۵۴)
    امام احمد نے اس مقام پر بڑے بسط ( تفصیل ) سے لکھا ہے کہ امام سے پہلے یا امام کے ساتھ تمام ارکان ادا کرنا غلط ہے ۔ امام جب رکوع و سجود میں چلا جائے اور اس کی تکبیر کی آواز ختم ہو جائے تو مقتدی کو اس وقت رکوع و سجود وغیرہ امرو شروع کرنی چاہئیں۔ ہمارے ملک میں یہ غلطی عام ہے، تمام طبقات یہ غلطی کرتے ہیں۔ اگر سبقت نہ کریں تو امام کے ساتھ ضرور ادا کرتے ہیں حالانکہ یہ صاف حدیث کے خلاف ہے ۔ خطرہ ہے کہ نماز ضائع ہو جائے گی ۔ امام کی اطاعت کا شرعاً یہی مطلب ہے کہ تمام ارکان وغٰرہ امام پہلے ادا کرے مقتدی اس وقت شروع کرے جب امام رکن میں مشغول ہو جائے۔ حدیث کا نمشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ امام سے سبقت درست ہے۔ نہ امام کی معیت بلکہ امام جب رکن میں مشغول ہو جائے تو اس کے بعد مقتدی مام کے ساتھ شریک ہو ۔
    تعجب ہے کہ تمام مکاتب فکر اس غلطی میں مبتلا ہیں ۔بریلوی حضرات تو بدعات میں اس قدر محو ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو سنت کی محبت سے خالی کر دیا ہے ۔ وہ ہر وقت نئی سے نئی بد عتوں کی تلاش میں پریشان ہیں ۔ اہل حدیث حضرات اور دوسرے موحد گروہ بھی اس غلطی میں از اول تا آخر مبتلا ہیں الا من رحمہ، امام احمد کا ارشاد کس قدر درست ہے :

" لو صليت فى مائة مسجد ما رأيت أهل مسجد واحد يقيمون الصلوة على ما جآء عن النبى صلى الله عليه وسلم وعن أصحابه رحمة الله عليهم."

    '' آپ سو مسجدوں میں نماز ادا فرمائیں ۔ کسی میں بھی انحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت اور صحابہ کے طریق پر آپ کو نماز نہیں ملے گی ''۔
                                        (رسالہ الصلوٰۃ لا حمد ص۱۵۴)
    مولانا محمد اسماعیل سلفی کا کلام ختم ہوا ۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا فہم اور عمل

    امام احمد بن جنبل اور مولانا محمد اسماعیل سفلی نے ان احادیث کا جو مطلب بیان کیا ہے ، تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرامین کا یہی مطلب سمجھے ہے اور اس کے مطابق عمل کیا ہے۔

((البَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ، قَالَ: " كُنَّا نُصَلِّي خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، لَمْ يَحْنِ أَحَدٌ مِنَّا ظَهْرَهُ حَتَّى يَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَبْهَتَهُ عَلَى الأَرْضِ ))
    '' براء بن عازب  رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سمع اللہ لمن حمدہ، کہتے تو ہم میں سے کوئی بھی اپنی پشت نہیں جھکاتا تھا یہاں تک کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی پیشانی زمین پر رکھ لیتے ''۔ (بخاری و مسلم )
    رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا کوئی صحابی بھی آپ کی زمین پر رپیشانے رکھنے سے پہلے اپنی پیٹ نہیں جھکا تا تھا۔ کیا اب میں کوئی ایس مسجد ملتی ہے جس میں تمام لوگ اتنے حوصلے والے ہوں کہ ایک شخص بھی امام کے زمین پر پیشانی رکھنے تک اپنی پیٹھ کو نہ جھکائے کم از کم مجھے تو نہیں ملی۔ ہاں اللہ کی رحمت سے امید ضرور ہے کہ اگر ہم پوری کوشش کریں اور اپنے بھائیوں کو بار بار سمجھائیں تو اس عمل پر پابندی شروع ہو جائے گی۔

سعید بن مسیب کا حجاج کو جلد بازی سے روکنا

    یہ اس وقت کی بات ہے جب حجاج بن یوسف کو مسلمانوں کی حکومت میں کوئی عہدہ حاصل نہیں ہوا تھا۔ ایک دفعہ اس نے سعید بن مسیب کے پہلو میں نماز ادا کی اور امام سے پہلے سر اٹھانا اور اس سے پہلے سجدہ میں گرنا شروع کر دیا۔ جب اس نے سلام پھیرا تو سعید بن مسیب نے اس کی چادر کا کنارہ پکڑ لیا اور نماز کے بعد اذکار پڑھتے رہے۔ حجاج چھڑانے کی کوشش کرتا رہا تا آنکہ سعید نے اپنا ذکر مکمل کر لیا پھر حجاج کی طرف متوجہ ہو کر اسے اس کی جلد بازی پر خوب تنبیہ کی اور ساتھ ہی نماز کے آداب سکھائے ۔ حجاج نے ساری بات خاموشی سے سنی اور جواب میں کچھ نہ کہا۔ آکر ایک وقت آیا کہ وہ حجاز کا حاکم بن گیا ۔ جب مدینہ آیا اور مسجد نبیو  صلی اللہ علیہ وسلم  میں داخل ہو تو سعید بن مسیب کی مجلس کا رُخ کیا اور ان کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ایک دہ وہ باتیں تم ہی نے کی تھیں ؟ سعید نے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ہاں میں نے ہی کہی تھیں۔ حجاج نے کہا آ پ جیسے معلم اور ادب سکھانے والے کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ کے بعد میں نے جو نماز بھی پڑھی آپ کی بات مجھے ضرور یاد آتی رہی پھر اٹھ کر چلا گیا۔
                                            (الدبیہ و النہایہ ص ۱۹۹، ج۹٩)
    اس تا دیب کا اثر تھا کہ کہ گو حجاج کے ہاتھ سے بھلے بھلے لوگ محفوظ نہیں رہے مگر اس نے سعید کے ادب سکھانے کا ہمیشہ خیال رکھ ااو رانہیں کبھی نہ پریشان کیا نہ کوئی تکلیف پہنچائی ۔
    ہمیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے ساتھ نماز پڑھنے والا اگر اس قسم کی جلد بازی کرے تو اسے سمجھائیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فر ما دے اور اس کی درست نمازوں اور نیک دعاؤں میں ہمارا حصہ بھی شامل ہو جائے اگر وہ قوبل نہ بھی کرتے تو ہم ادائے فرض سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ