سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) امامت کے احکامات

  • 14653
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1350

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز پنج گانہ میں امامت کون کروا سکتا ہے ؟ امام کیلئے کیا احکام ہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام کے احکامات کے بارے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حدیث ہے ۔ سیدنا ابو مسعود انصاری سے مروی ہے ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

«يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ»
    '' لوگوں کا امام ہونا چاہئے جو ان میں اچھی طرح قرآن کی قرأ جانتا ہو۔،۔ اگر وہ قراٌ مین برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سنت کو زیادہ جاننے والا ہو ، اگر سنت میں برابر ہو تو جوان میں سے ہجرت میں مقدم ہو، اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو سب سے پہلے اسلام لانے والا ہو، کوئی آدمی دوسرے آدمی کی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ اس کے گرھ میں اس کے اپنی بیٹھنے والی جگہ پر بیٹھے مگر اس کی اجازت لے کر ''۔( مسلم۱/۴۶۵(۶۷۳)
    حدیث کے بعض فرق میں اسلا م کی جگہ عمر کا بھی ذکر آتاہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ قاری قرآن پھر سنت کا عالم علی الترتیب امامت کا انتخاب ہونا چاہئے اور جو امام منتخب ہو اس کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے مقتدیوں کا لحاظ رکھتے ہوئے امامت کرائے کیونکہ اس کے پیچھے بچے، ضیعف ، بیمار، مسافر اور مختلف قسم کے افراد ہوتے ہیں، لہٰذا نہ ہی زیادہ لمبی نماز پڑھے اور نہ ہی اس قدر مختصر ہو کہ قیام، رکوع و جود وغیرہ کا بھی خیال نہ رکھے۔
نوٹ:     یاد رہے کہ حنفی حضرات نے امامت کے متعلق کچھ لا یعنی فضلو اور مضحکہ خیز شرائط ذکر کی ہیں جیسا کہ در مختار میں امامت کے بیان میں امامت کی مختلف شرائط ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا مارا کہ امام کی بیوی سب سے حین ہو ، امام کا سر بڑا ہو ، امام کا آلہ تناسل چھوٹا ہو وغیرہ یہ شرائط انتہائی مضحکہ خیز اور باعث عار ہیں جن کا کتاب و سنت میں کہیں بھیو جود نہیں پایا جاتا نہ کسی صحیح سند سے اور نہ ہی کسی ضعیف سند سے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت جیسی عظیم شاہراہ پر ہی قائم رکھے۔ آمین
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ