سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) نماز کے بعد اجتماعی دُعا کا مسئلہ

  • 14651
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1170

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے یہاں راولپنڈی کی مرکزی مسجد میں مدینہ یونیورسٹی کے ایک فاضل عالم دین ہیں وہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا اہتمام ضرور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں لوگوں کو آہستہ آہستہ قریب لانے کیلئے کر لیتا ہوں۔ اس بارے میں شرعی وضاحت فرمائیں کہ یہ اجتماعی دُعا جو فرضوں کے بعد مانگی جاتی ہے اس کا کیا ثبوت ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اجتماعی دُعا جو فرضوں کے بعد کی جاتی ہے، اس کا پابندی سے اہتمام کرنا بدعت ہے جس کا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے کوئی ثبوت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ طیبہ میں دس سال پانچوں نمازیں پڑھائیں۔ صحابہ  رضی اللہ تعالٰی عنہم کی کثیر تعداد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے پڑھیں مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اس اجتماعی دعا کا اہتمام کا ذکر نہیں کیا۔ اس مسئلہ کے بارے میں مصنف ابنِ ابی شیبہ سے یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ یزید عامری کہتے ہیں کہ:

(( صليت مع رسول الله عليه وسلم الفجر فلما سلم انصرف ورفع يديه و دعا.))
    '' رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ میں نے فجر کی نماز پڑھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب سلام پھیرا تو صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دُعا کی''۔
    اگر چہ اس کی سند حسن ہے مگر ابن ابی شیبہ میں" و رفع یدیه و دعا "( ہات اٹھائے اور دعا کی ) کے الفاظ نہیں ہیں ۔
    یہ روایت جس طویل روایت کا اختصار ہے وہ اسی سند کے ساتھ مسند احمد، ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، دارقطنی ، مسدرک حاکم، بہیقی، ابن حبان، ابن سکن مصنف عبدالرزاق موجود ہے مگر اس میں مندرجہ بالا الفاظ نہیں ہیں۔ اسی طرح باقی روایات کا حال ہے یہی وجہ ہے کہ کبار علماء محدثین نے اسے بدعت کہا ہے چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمہ الفتاوی الکبری ۱/۱۸۴ پر ایک سائل کے جواب میں لکھتے ہیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ