سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) تشہد میں انگلی کو حرکت کس وقت دیں ؟

  • 14650
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1370

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تشہد میں انگلی کو حرکت دینے کے بارے میں دو طرح کی احادیث آتی ہیں ایک میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  انگلی کو حرکت دیتے تھے۔ دوسری میں ہے ، نہیں دیتے تھے۔ ان احادیث کی وضاحت کریں اور یہ بھی بتلائیں کہ تشہد میں انگلی کو حرکت کس وقت دینی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تشہد میں سبابہ انگلی کو حرکت دینا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے ثابت ہے جیسا کے وائل بن حجر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث میں یہ لفظ ہیں:

((ثم رفع إصبعه فرأيته يحركها يدعوبها.))

کہ میں دیکھا نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایاپھر اس کو حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے ''۔
                                            (صحیح سنن النسائی ،ج١، ص۱۹۴)

مولوی سلام اللہ حنفی شرح موطا میں لکھتے ہیں :

" و فيه تحريكها دائما إذا الدعاء بعد التشهد"

    '' کہ اس حدیث میں ہے کہ انگلی کو تشہد میں ہمیشہ حرکت دیتے رہنا ہے کیونکہ دعا تشہد کے بعد ہوتی ہے''۔
علامہ ناصر الدین البانی  رحمۃ اللہ  فرماتے ہیں :

" ففيه دليل على أن السنة أن يستمر فى الإشارة وفى تحريكها إلى السلام لأن الدعاء قبله"

    ' ' اس حدیث میں دلیل ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ انگلی کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری ر ہے کیونکہ دعا سلام سے متصل ہے''۔(صفۃ صلوۃ النبی/۱۵۸)
    اس کے علاوہ صرف ایک مرتبہ انگلی اٹھا کر رکھ دینا یا اشھد ان الا الہ الا اللہ پر اٹھانا ، اس کے بار ے میں صحیح احادیث کی کوئی لدیل نہیں ملتی جبکہ یہ عمل مذکورہ ہے حدیث کے منافی ہے ۔ جس روایت میں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  تشہد میں انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے وہ حدیث بھی ضعیف ہے ۔ کیونکہ اس میں محمد بن عجلان عامر بن عبداللہ بن الزبیر سے بیان کرتا ہے اور محمد بن عجلان متکلم فیہ راوی ہے۔ اس کے عالوہ چار ثقہ راویوں نے عامر بن عدباللہ سے اسی روایت کو بیان کیا ہے لیکن اس میں لایحر کھا کا لفظ نہیں ہے۔معلوم ہوا یہ لفظ شاذ ہے۔ امام مسلم نے بھی محمد بن عجلان کے طریق سے اسی روایت کو ذکر کیا ہے اس میں بھی لا یحر کھا کا لفظ نہیں ہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں وائل بن حجر والی روایت کو ابن المقلن، ابن القیم، امام نودی کے علاوہ علامہ ناصر الدین البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ صرف اہلدایہ فی تخریج احادیث کو شاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یحر کھا والے لفظ صرف زائدہ بن قدامہ عاصم بیان کرتا ہے زائد کے علاوہ عاصم کے دوسرے شاگرد یشیر بیدہ کا لفظ ذکر کتے ہیں ۔ لیکن یہ بات تحقیق اور انصاف سے عاری ہے۔
    پہلی بات تویہ ہے کہ سب محدثین نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اشاری والی حدیث کے ثبوت سے حرکت دینے کی نفی نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث ہے۔ کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو بیٹح کر نماز پڑھا رہے تھے اور صحابہ پیچھے کھڑے تھے" فا شار الیھم ان اجلسو ا" ان کی طرف اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ تفق علیہ ۔
    اس حدیث سے ہر عقلمند آدمی یہ سمجھے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا اشارہ صرف ہاتھ کو اٹھا دیان نہیں تھا جیسا کہ سلام کے جواب میں کرتے تھے۔ بلکہ اشارہ تھا جس میں سمجھ آتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھنے کا حکم دے رہے ہیں ۔ یہ اشارہ حرکت کے بغر ہو ہی نہیں سکتا۔
    اس مثال سے یہ بات واضح ہو گیا کہ ا شارہ والی احادیث کو تحریک والی احادیث کے مخلاف قرار دیان درست نہیں ہے۔ اس طرح بعداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ :

(( لهى أشد على الشيطان من الحديد.))
    '' یہ انگلی شیطان کلئے ہوے سے بھی زیادہ سخت ہے ''۔(احمد)
    اس حدیث کو حرکت نہ دینے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس میں حرکت دینے یا نہ دینے کی صراحت موجود ہی نہیں ہے جبکہ حرکت دینا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہو چکا ہے اگر اس کو تسلیم کرلیں کہا س مٰن حرکت نہ دینے کی صراحت ہے تو پھر صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ دونوں امر جائز ہیں جیسا کہ علامہ صنعانی نے سبل اسلالم میں اےس ترجیح دی ہے۔ لیکن پہلی بات زیادہ پختہ ہے کیونکہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ایک خاص اہتمام کے ساتھ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کا طریقہ بیان کر رہے ہیں اور خاص کر تشہد کی ھالت کا اور تشہد میں ایسی چیزں انہو ں نے بیان کی ہیں جو زیادہ کسی نے بیان نہیں کیں۔ اس لئے ان کی روایت کو ترجیح ہو گی۔ واللہ اعلم
    زیادہ تفصیل کیلئے علامہ ناصر الدین البانی کی کتاب تمام المنہ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ