سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) نماز میں سورتوں کی ترتیب

  • 14645
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1270

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز کے اندر ترتیب قران کے مطابق سورتیں پڑھنی چاہئیے یا آگے پیچھے کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں ؟ ہمارے اما م صاحب نماز میں ترتیب قرآن کا لحاظ نہیں رکھتے۔ سورتوں میں تقدیم وتاخیر کر جاتے ہیں ، کیا یہ درست ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام کا موجودہ ترتیب قرآن سے ہٹ کر سورتوں کو نماز میں تقدیم و تاخیر سے پڑھنا درست ہے ۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور سلف صالحین  رحمہ اللہ  سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ امام بخاری  رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح '' باب الجمع بین السورتین فی الرکعة والقراةبالخواتیم و بسورة قبل سورة و باوّل سورة ''کا عنوان قائم کیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دو سورتیں ایک رکعت میں پڑھنا یا سورتوں کی آخری آیات یا سورتوں کی پہلی آیات پڑھنا جائز ہے یا نہیں ۔ امام بخاری  رحمہ اللہ  نے اس کے جواز کیلئے کچھ آثار و احادیث نقل کی ہیں۔

((عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ يَؤُمُّهُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ، وَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ بِهَا لَهُمْ فِي الصَّلاَةِ مِمَّا يَقْرَأُ بِهِ افْتَتَحَ: بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، ثُمَّ يَقْرَأُ سُورَةً أُخْرَى مَعَهَا، وَكَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ،))الحديث

    سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری مسجد قبا میں ان کی امامت کراتا تھا ۔ وہ جب بھی کوئی سورۃ پڑھتا تو پہلے قل ھو اللہ احد پڑھتا پھر اس کے بعد کوئی اور سورۃ اس کے ساتھ ملاتا اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتا تو اس کی قوم نے اسے کہا تم قل ھو اللہ پر اکتفا کیوں نہیں کرتے بلکہ اس کے بعد اور سورۃ ملاتے ہو تو صرف قل ھو اللہ پڑھ لیا کرو یا اسے چھوڑ کر کوئی دوسری سور ۃپڑھا کرو تو اس نے جواب دیا کہ میں یہ کام ترک نہیں کروں گا۔ اگر تم پسند کرو گے تو تمہاری امامت کروں گا ۔ اور اگر تم نا پسند کرتے ہو تو امامت چھوڑ دیتا ہوں ۔ قو م نے ان کے علاوہ کسی کی امامت کو پسند نہ کیا کیونکہ وہ ان تمام سے افضل تھا ۔ جب اس قوم میں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس بات کی خبر دی تو آپ نے اس سے کہا تجھے اپنےساتھیوں کی بات ماننے سے کونسی چیز روکتی ہے  اور ہر رکعت میں اس سورۃ کے لازمی پڑھنے پر تجھے کس چیز سے ابھارا ہے ، توا سنے کہا ، مجھے اس سورۃ سے محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا، تیری اس سورۃ کے ساتھ محبت تجھے جنت میں داخل کردے گی ۔ 
    مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ سورتوں کی تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ درست نہ ہوتی تو اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  منع کر دیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسے امت سے علیحدہ کیا ۔ 
    اسی طرح مسلم کی ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز کےا ندر پہلے سورۃ بقرہ پڑھی پھر نساء اور پھر آل عمران۔ حالانکہ آل عمران سورۃ نساء سے پہلے آتی ہے۔ بخاری شریف میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے صبح کی نماز میں پہلی رکعت میں سورۃ کہف اور دوسری میں سورۃ یوسف یا یونس پڑھی ۔ 
    مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں ترتیب قرآنی ضروری  نہیں اس میں تقدیم و تاخیر درست ہے ۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ