سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) مسئلہ رفیع یدین اور آمین بالجہر

  • 14630
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2740

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے محلے میں ہر بدھ جماعت اسلامی والوں کا درس ہوتا ہے آج میں بھی شوقیہ چلی گئی وہاں جو سوال زیر بحث آیا وہ یہ کہ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ رفع الدین اور آمین کہیں یا نہ کہیں آپ کی مرضی ہے کافی بحث ہوئی ۔ ان کا موقف یہ تھا کہ ہمارے نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس لئے رفع بدین کیاتھا کہ کفار آپ کے پیچھے بغلوں میں بت دبا کر کھڑے ہو جاتے تھے اسلئے آپ نے رفع یدین کیا اور کروایا۔ اس کے بعد آپ نے ایسا کرنا چھوڑ دیا کیا ایسا ہی ہے ؟ پھر یہ کہ کیاآپ نے واقعی چھوڑ دیا تھا اور انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ امام شافعی اور امام مالک کے درمیان بھی بحث جاری رہی اور وہ فیصلہ نہیں کر پائے۔ قرآن و سنت کی ر وشنی میں مفصل جواب دیں ۔ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صور ت مسؤلہ میں جو دو مسئلے ذکر کیے گئے ہیں وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہیں اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور مسئلہ رفیع الیدین تو ایسا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی متواتر احادیث سے ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی بھی رفیع الیدین کو چھوڑ اہو ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ))

    '' تحقیق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے۔ اور جب رکوع کیلئے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو ا سی طرح اٹھاتے تھے ''۔
(بخاری (۷۳۵) مسلم ۹۳،۹۳:۴، مسند احمد ۱۴۷،۶۲،۱۸:۲،۸:۲ ۔مؤطا امام مالک ۷۵:۱، مصنف عبدالرزاق (۲۵۱۸،۲۵۱۷)ابن ماجہ(۸۵۸)
    اسی طرح رفع الیدین کی رویات سید ناوائل بن حجر  رضی اللہ عنہ سے سنن ابو داؤد ١ ۱/۱۹۳ (۷۲۶٢) نسائی اور مسلم ١۱/۱۷۳ میں بھی مروی ہے اور سید ناوائل بن حجر رضی اللہ عنہ متاخر الاسلام ہیں ۔ چنانچہ علاما بدر الدین عینی حنفی بخاری کی شرح عمدۃ القاری ۳/۹٩ پر رمقطراز ہیں کہ :

 "وائل بن حجر أسلم فى المدينة فى سنة من الهجرة "

    '' وائل بن حجر ۹٩ ہجری میں مدینہ میں مسلمان ہوئے ''۔
    یہ حضر موت کے علاقہ میں رہنےو الےتھے اور حضر موت سے مدینہ تک اس وقت کی مسافت کے لحاظ سے چھ ماہ کا سفر تھا جب پہلی دفعہ آپ کے پاس آئےا ور آپ سے دین کے احکامات سیکھ کر دوبارہ اپنے وطن واپس چلے گئے پھر اس کے بعد ١٠۱۰ھ میں دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیان کرتے ہیں:

((ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَابِ))

    '' پھر میں اس کے بعد ایک زمانے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضر ہوا ان دنوں سخت سردی تھی میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے اوپر موٹی چاردیں تھیں۔ ان کے ہاتھ کپڑوں کے نیچے سے حرکت کرتے تھے''۔    (ابو داؤد (۷۲۷)١۱:۱۹۳)
    اس سے معلوم ہوا کہ ١۱۰٠ ھ تک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے رفع الیدین ثابت ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وفات پا گئے جو حضرات نسخ کے قائل ہیں وہ  ١٠۱۰ھ کے بعد کی عدم رفع الیدین کی کوئی صحیح روایت پیش کریں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رفع الیدین  کا حکم اس لئے دیا کہ کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے بت لے کر کھڑے ہو جاتے تھے جاہلوں کا پھیلا ہوا بہت بڑا جھوٹ ہے جسے بیان کرنے والا اگر کوئی عالم ہے توا سے خدا کے عذاب سے ڈرنا چاہئے ایسی بات کا وجود تو پورے ذخیرہ حدیث میں کہیں بھی نہیں ۔ نہ کسی صحیح حدیث میں نہ ہی کسی ضعیف حدیث میں بعض لوگوں کو اپنا گرد اکھٹا کرنے کے شوق میں اور سیاسی اور جمہوری مصلحتوں میں آکر نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے چھوٹی بات منسوب کرنا اور اس پر اصرار کرنا خدا کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ ایسی مصلحتوں کا دنیا میں تو کوئی فائدہ نہ ہوگا لیکن آخر میں لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر سنت رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف ایسی مہم بازی کا جو نتیجہ ملے گا ، اس سے پھر وہاں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔دوسری بات یہ ہے کہ کفار کا آ پ کے پیچھے آ کر نماز کیلئے کھڑا ہو ان ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر رفع الیدین اس لئے کیا کہ لوگ بغلوں میں جو بت رکھتے تھے ان کو گرانے کا ایک طریقہ تھا تو کیا پہلی دفعہ تکبیر تحریم کے ساتھ جو رفع یدین کے وقت بت نہیں گرنے دیتے وہ رکوع کی رفع یدین کے وقت کیسے گرنے دیں گے۔
    نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ترک رفع الیدین کے متعلق کوئی صحیح حدیث مروی نہیں بلکہ عماملہ اس کے برعکس ہے۔ امام جلال الدین الیسوطی  رحمہ اللہ  نے اپنی مایہ ناز کتاب الازھار المتنائرۃ فی الاخبار المتواتر ۃ میں رفع یدین کی حدیث کو متواتر کہا ہے۔ ا سطرح نظم المتنائر میں الحدیث المتواتر اور تدریب الراوی وغیرہ ملاحظہ ہوں۔ امام شافعی اور امام مالک تو صحیح روایت کے مطابق رفع یدین کے قائلو فاعل تھے ان میں اس مسئلہ پر کوئی اختلاف اور بحث تمیحص مروی نہیں ہے۔ امام ترمذی  رحمہ اللہ  عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عن کی رفع یدین والی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

" وبهذا  يقول أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله علسه وسلم منهم ابن عنر و جابر بن عبد الله وابو هريرة  و أنس و ابن عباس و عبد الله بن الزبير  و غيرهم  من التابعين  الحسن البصرى  وعطاء و طاوس  و مجاهد  و نافع وسالم بن عبد الله و سعيد بن  جبير و غيرهم زوبه  يقول مالك و معمر واالأوزاعى و ابن عيينة و عبد الله بن المبارك و الشافعى  و أحمد  و إسحاق"

    '' یہی بات صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے اہل علم کہتے ہیں ۔ ان میں سے ابن عمر ، جابر بن عبداللہ ، ابو ہریرہ ، انس، ابن عباس ، عبداللہ بن الزبیرہ وغیرہ ۔ اور تابعین میں سے حسن بصری عطا ، طاوئس، مجاہد، نافع، سالم، سعید بن جبیر وغیرہ۔ اوریہی بات امام مالک، امام معمر، امام اور زاعی ابن عینیہ ، امام عبداللہ بن مبارک، امام شافعی ، امام احمد اور امام اسحاق بن راوہیہ کہتے ہیں''۔ (ترمذی ٢۲/۳۷)
    امام تر مذی رحمہ اللہ  کی اس صراحت سے معلوم ہو گیا کہ امام مالک، امام شافعی اور امام احم بن جنبل وغیرہ بھی رفع یدین کے قائل و فاعل تھے۔
    لہٰذا یہ بات کہنی کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ  کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف تھا ختم نہیں ہو سکا سراسر غلط اور بے بنیاد ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بفرض محال اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ شافعی رحمہ اللہ و مالک رحمہ اللہ میں یہ اختلاف تھا تو پھر بھی ان کے اختلاف کی وجہ سے مسئلہ رفع یدین پر کوئی آنچ نہیں آسکتی کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی متواتر سنت ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی بھی ترک نہیں کی اور آپ کی حدیث کے مد مقابل تو کسی امام کی بات قابل حجت نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی حدیث رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقابل میں امام کی بات کو ترجیح دیتا ہے تو گویا اس نے امام جو کہ امتی ہے اس کا درجہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بڑا سمجھا ہے۔ اس کے علاوہ آمین بالجہر کی بھی احادیث کئی ایک ہیں۔ سید ناوائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

(( سمعت رسول الله سلى الله عليه وسلم  قرء غير المغضوب عليهم ولا الضالين  فقال امين مد بها صوته.))

    '' میں نے ر سول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سنا کہ آپ نے غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھا اور آمین کے ساتھ اپنی آواز کو دراز کیا''۔ (ابو داؤد ۹۳۲) ترمذی (۲۴۸)، درامی۱:۲۸۴، دارقطنی،۳۳.٣٤، بیہقی ١:٥۷، ابن ابی شبیہ ۲:٤۲۵)
    بعض روایتوں میں مدبھا صوتہ، کی جگہ رفع بھا صوتہ آتا ہے۔ یعنی اپنی آواز کو بلند کیا ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ:

" أمن ابن الزبير ومن ورآئه حتى أن للمسجد للخة"

    '' عبداللہ بن زبری اورا ن کے مقتدیوں نے اس قدر بلند آواز سے آمین کہی کہ مسجد لرز گئی ''۔ ( بخاری ٢:۲۶٢، مسند شافعی ۱۵، ۲۱۲، بیہقی٢:۵٩)
    اسی طرح حضرت عطاء تابعی  رحمہ اللہ  سے مروی ہے جو امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ  کے استاذ ہیں کہتے ہیں کہ :
    '' میں نے مسجد حرام میں دو سو (۲۰٠) صحابہ کرام کو پایا جب امام ولا الضالین کہتا تو سب صحابہ بلند آواز سے آمین کہتے تھے''۔  بیہقی ٢:۵٩، ابن حبان (۱۹۹۷،١۹۹۶)

(( عن  عائشة عن النبى  صلى الله عليه وسلم  قال: ما حسدتكم اليهود  على شىء ما حسدتكم على السلام و التامين))
    '' سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس قدر یہودی آمین اور سلام پر حسد کرتے ہیں اس قدر کسی چیز پر حسد نہیں کرتے ''۔ (مصباح الزجاجه ۱١/۲۹۷)
    امام بو صیری  رحمہ اللہ  نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے تمام رواۃ سے امام مسلم نے حجت لی ہے۔ یہی روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسند احمد ۶٢:١۱۳۴٣٤، ۱۳۵١٣٥، بیہقی ٢۲:٥۵۶٦، مجمع الزوائد ، ابن ماجہ (۸۵۶٥٦) صحیح ابن خزیمہ ۵۷۴٥٧ ٤ وغیرہ میں موجودہ ہے۔
    ان روایات سے معلوم ہوا کہ آمین رفع یدین نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہیں جو کہ منسوخ نہیں ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان پر ہمیشہ عمل درآمد کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر صحیح معنوں میں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ