سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

فرض نماز کے دوران میت سامنے رکھنا

  • 14596
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1728

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم ایک ایسی بستی میں رہے ہیں جہاں کے لوگ ایک عرصہ سے سنت نبوی پر عمل پیرا ہیں۔ اس بستیل میں عمل بالسنہ کی پابندی اللہ کے فضل سے ہمارے بزرگوں کی کوششوں سے ہوئی ۔ میں بھی ان میں سے بعض کے ساتھ رہا ہوں تو اللہ نے مجھے بھی ہدایت بخشی کہ میں دینی تعلیمات پر عمل کرنے لگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس بستی میں سنت پر عمل ہوتا ہے اور یہ عمل بھی اس کا احسان ہے کہ اس کام کو جاری کرنے کی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دے ہے۔ چنانچہ میں حسب توفیق دی دعوت و تبلیغ کا کام کرتاہوں اور میں ۱۹۷۷ء سے اسی بستی میں نماز پڑھاتا ہوں ۔ مصر کے حالیہ واقعات کے بعد وزارت اوقات نے  ہمارے گائوں کی مسجد میں ایک ـخطیب بھیج دیا اس خطیب نے پہلے تو یہی کیا میں اسی طریقے پر کاربند ہوں گا جس پر آپ عمل پیرا ہیں۔ لیکن جب مسجدمیں اس کے قدم جم گئے تو اس نے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز سے پہلے مسجد میں ریڈیو رکھیں اور اس سے تلاوتل سنیں، جس طرح مصر کی دیگر مساجدمیں رواج ہے اور ظاہر ہے کہ شیطان کے پیروکار تو بہت ہوتے ہیں، انہوں نے اس کی تائید کیاور واقعی نماز سے پہلے لاؤڈ سپیکر پر ریڈیو لگا دیا ۔ میں سے انہیں اس کام سے منع کرنے کی کوشش کی اور دلائل سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ جہاں لوگ نماز پڑھ رہے ہوں وہاں بلند آواز سے تلاوت کرنا جائز نہیں اور یہ کام سنت کو ختم کرکے بدعت جاری کرنے کے مترادف ہے۔ اس نے کہا: ۔’ اگر منع ہے تو مصر کی دوسری مسجدوں میں کیوں ہوتا ہے؟ پھر بدعتوں کامعاملہ یہاں تک پہنچ یا کہ انہوں نے جمعہ کے دن نمازوں کے سامنے چارپائی پر میت رکھی اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران میت ہمارے سامنے رہی، پھرہم نے اس کی نماز جنازہ ادا کی میں نے جمعہ سے پہلے اس کام سے منع کرنے کی کوشش کی ، کیونکہ یہ کام شریعت کے مطابق نہیں ، لیکن اس نے ماننے سے انکار کر دیا اور کہا: ’’ یہ امام مالک کی رائے ہے اور یہ عبرت کے لیے ہے۔ ‘‘ میں نے کہا: امام مالکi کے نزدیک تو نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنا ویسے ہی جائز نہیں۔ لیکن وہ اپنی رائے پر قائم رہا اور میری رائے تسلیم نہیںکی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس امام کے آنے سے بستی میں بدعتوں  کا دروازہ کھل گیا ہے اورابھی معلوم نہیں کتنی بدعتیں سامنے آئیں گی، تو اب میں کیا کروں؟ گائوں میں ایسا افراد بھی موجود ہیں جو سنت پر عمل کرنا اوربدعت سے بچنا چاہتے ہیں ، لیکن پورے گائوں میں کوئی اور کوئی مسجد بھ نہیں ہے۔ تو کیا میں گائوں چھوڑ جائوں اور سکندریہ کے شہر کی کسی مسجد میں نماز پڑھا کروں جہاں لوگ سنت پر قائم ہوں؟ اگر میں ایسا کروں گا تو یہاں بدعتوں میں اور اضافہ ہوگا۔ بعض افراد ایسے ہیں جو سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ سفرکرکے سنت پر عمل کرنے والے والوں کی کسی مسجد میں نہیں جاسکتے ۔ کیونکہ دیہات میں اس قسم کے افراد کم ہیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱۔         جمعہ کے دن میں مسجد میں امام کے آنے سے پہلیل بلند آواز سے قرآن مجید نشر کرنے کے لیے ریڈیوں وغیرہ رکھنا جائز نہیں۔

۲۔        علماء کے دواقوال میں سے راجح قول یہی ہے کہ مسجد میں جنازہ کی نماز ادا کرنا جائز ہے  کیونکہ اس کے جواز کی دلیل موجود ہے۔ لیکن فرض نماز ادا کرتے ہوئے میت ان کے سامنے نہیں رکھی جانی چاہئے ۔ سلام پھیرنے کے بعد نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے میت سامنے قبلہ کی طرف رکھی جائے۔

۳۔        مذکورہ بالا غلطیوں کی وجہ سے آپ اس امام کے پیچھے نماز پڑھنال ترک نہ کریں بلکہ اسے مسلسل نصیحت کرتے رہیں اور دلائل کے ساتھ سنت  واضح کرتے رہیں۔ حکمت ، اچھے انداز سے نصیحت اور بہترین انداز سے بحث مباحثہ کا اصول پیش نظر رکھیں ۔ امید ہے  اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نصیب فرمادے گا اور آپ کی دعا قبول فرمائے گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ دارالسلام

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ