سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بدعات کو ثابت کرنے کے لیے نبیﷺکی طرف نسبت کرنا

  • 140
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1778

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ميں بدعت كے متعلق معلوم كرنا چاہتا ہوں اكثر لوگ بہت سارے امور كے متعلق كہتے ہيں كہ يہ بدعت ہے، جس كى بنا پر مجھے بہت تشويش اور مشكل ہوتى ہے، پھر يہ كہ آيا كيا كسى حديث ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ: اگر كوئى شخص نيا اور فائدہ مند عمل كرتا ہے تو اسے ثواب ہو گا۔؟ اگر ايسا ہى ہے تو پھر سب بدعات كو مذموم كيوں شمار كيا جاتا ہے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال: بعض لوگ عید میلاد النبی یا دیگر بدعات کو ثابت کرنے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کے اس فرمان کو دلیل بناتے ہیں: من سن سنة حسنة......الخ برائے مہربانی اس حدیث کی تشریح جو سلف نے پیش کی ہے وہ کر دیجیے اور اس حدیث سے غلط استدلال کا رد بھی  فرما دیجیے۔؟

اول:

سب سے پہلے تو شرعى طور پر بدعت كى تعريف اور معنى معلوم كرنا ضرورى ہے:

بدعت كى تعريف:

دين ميں ايجاد كردہ نيا طريقہ جس پر عمل كرنے سے اجر و ثواب اور اللہ كا قرب حاصل كرنا مقصد ہو يہ بدعت كہلاتا ہے۔

اس كا معنى يہ ہوا كہ وہ طريقہ نہ تو شريعت ميں وارد ہے اور نہ ہى اس كى كتاب و سنت ميں كوئى دليل پائى جائے اور نہ ہى وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں پايا جاتا تھا، تعريف سے يہ بھى واضح ہوتا ہے كہ دنياوى ايجادات شرعى طور پر مذموم بدعت ميں شامل اور داخل نہيں ہونگى۔

رہا سائل كا اشكال ميں پڑنا اگر تو سائل كا مقصد ابو ہريرہ اور جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں تعارض ہے تو ہم سائل سے عرض كرتے ہيں كہ آئيں ہم ان احاديث كى نص اور اس كى شرع كو ديكھتے ہيں:

جرير بن عبد اللہ البجلى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى نے بھى كوئى اچھا طريقہ بنايا اور اس پر عمل كيا جانے لگا تو اسے اور اس پر عمل كرنے والے سب كو بغير كسى كمى كے اجروثواب حاصل ہو گا، اور جس كسى نے بھى كوئى شر اور برا طريقہ ايجاد كيا اور اس پر چلا جانے لگا تو اسے اور اس پر عمل كرنے والوں كو بغير كسى كمى كے گناہ ہو گا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2675 ) امام ترمذى نے اس حديث كو حسن صحيح كہا ہے۔

اس حديث كى كوئى مناسبت اور قصہ ہے جو قولہ : جو كوئى اچھا طريقہ ايجاد كرتا ہے " كى وضاحت كرتا ہے، وہ قصہ صحيح مسلم كى حديث ميں جرير بن عبد اللہ ہى كى روايت سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" كچھ اعرابى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور انہوں نے اون پہنى ہوئى تھى جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى يہ برى اور پراگندہ حالت ديكھى كہ وہ تنگ دست اور ضرورتمند ہيں تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو صدقہ و خيرات پر ابھارا، تو لوگوں نے اس ميں سستى اور دير كى حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے چہرہ مبارك سے اس كا اظہار ہونے لگا۔راوى بيان كرتے ہيں: پھر ايك انصارى صحابى چاندى كى ايك تھيلى لايا اور پھر ايك دوسرا صحابى اور پھر سب نے ان كى پيروى كى حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے چہرہ سے خوشى و سرور ٹپكنے لگا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" جس كسى نے اسلام ميں كوئى اچھا طريقہ جارى كيا اور اس پر بعد ميں عمل ہونے لگا تو اس كے ليے بھى اس پر عمل كرنے كے برابر اجر لكھا جائيگا اور كسى كے اجروثواب ميں كوئى كمى نہيں كى جائيگى۔

اور جس كسى نے اسلام ميں كوئى برا طريقہ جارى كيا اور بعد ميں اس پر عمل كيا جانے لگا تو اس كے ليے اس پر عمل كرنے والے كے برابر گناہ لكھا جاتا ہے اس ميں كوئى كمى نہيں كى جاتى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1017 )۔

اور اس كى مزيد وضاحت نسائى كى روايت ميں ہے:

جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس دن كے نصف ميں بيٹھے ہوئے تھے كہ كچھ لوگ ننگے پاؤں ننگے بدن آئے انہوں نے گردنوں ميں تلواريں حمائل كى ہوئى تھيں ان ميں سے اكثر افراد مضر قبيلہ كے تھے، بلكہ سب ہى مضر كے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب ان كے فقر و فاقہ كى يہ حالت ديكھى تو آپ كا چہرہ متغير ہو گيا، آپ اندر داخل ہوئے اور پھر باہر نكلے اور بلال رضى اللہ تعالى عنہ كو اذان كا حكم ديا اور نماز كى اقامت كہى آپ نے نماز پڑھائى اور پھر لوگوں سے خطاب فرمايا:

لوگو اپنے پروردگار كا تقوى اختيار كرو جس نے تمہيں ايك ہى جان پيدا كيا اور اس سے اس كى بيوى كو پيدا كيا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتيں پھيلائے، اور اس اللہ كا تقوى اختيار كرو جس كے نام پر تم سوال كرتے ہو، اور صلہ رحمى كرتے ہو، يقينا اللہ تعالى تمہارا نگہبان ہے، اور اللہ كا تقوى اختيار كرو، اور ہر جان ديكھے كہ اس نے كل كے ليے كيا آگے بھيجا ہے، آدمى كو اپنے دينار اور اپنے درہم اور كپڑے اور گندم اور كھجور كے صاع سے صدقہ كرنا چاہيے حتى كہ آپ نے فرمايا: چاہے وہ آدھى كھجور ہى صدقہ كرے۔تو ايك انصارى شخص تھيلى لايا اس كى ہتھيلى اس سے عاجز آ رہى تھى بلكہ عاجز ہو چكى تھى، پھر لوگ اس كى پيروى كرنے لگے حتى كہ ميں نے غلہ اور كپڑوں كے دو ڈھير ديكھے اور ميں نے ديكھا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا چہرہ لہلانے لگا گويا كہ وہ سونا ہو، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" جس كسى نے بھى اسلام ميں كوئى اچھا طريقہ جارى كيا تو اس كو اس كا اور اس پر عمل كرنے والے كا بھى اجرثواب حاصل ہو گا اس كے اجر ميں كوئى كمى نہيں كى جائيگى، اور جس كسى نے اسلام ميں كوئى برا طريقہ جارى كيا تو اسے اس كا اور اس پر عمل كرنے والے كا گناہ ہو گا اس ميں كوئى كمى نہيں ہو گى "

اسے امام نسائى نے مجتبى نسائى، كتاب الزكاة، باب التحريض على الصدقة ميں روايت كيا ہے.

اس قصہ اور مناسبت سے يہ واضح ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:

" جس كسى نے اسلام ميں كوئى اچھا طريقہ جارى كيا "

كا معنى يہ ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كا احياء كيا يا اس كى طرف راہنمائى كى يا اس پر عمل كا حكم ديا يا اس پر عمل كيا تا كہ لوگ اس كى اقتدا كرتے ہوئے اسے ديكھ كر يا سن كر اس سنت پر عمل كرنے لگيں۔

اور اس پر درج ذيل حديث بھى دلالت كرتى ہے، ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ( صدقہ كرنے ) پر ابھارا، ايك شخص كہنے لگا ميں اتنا ديتا ہوں، تو مجلس ميں كوئى شخص بھى نہ بچا جس نے اس آدمى پر صدقہ نہ كيا ہو چاہے وہ تھوڑا تھا يا زيادہ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" جس كسى نے بھى كوئى اچھا طريقہ جارى كيا اسے اس كا پورا اجر ديا جائيگا اور ان كا اجر بھى جنہوں نے اس پر عمل كيا ان كے اجر ميں كوئى كمى نہيں كى جائيگى "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 204 )۔

اوپر جو بيان ہوا ہے اس سے وہ كچھ واضح ہوتا ہے جس سے شك كى كوئى مجال نہيں رہتى كہ اس سے يہ مراد ہو سكتا ہو كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين ميں بدعت كو جائز قرار ديا يا پھر بدعت حسنہ كا دروازہ كھولا جيسا كہ لوگوں كا خيال ہے، اس ليے درج ذيل امور بيان ہوئے ہيں:

1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بار بار تكرار كے ساتھ ہر خطبہ جمعہ اور عيد كے خطبہ ميں يہ بيان فرمايا كرتے تھے:

" ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "

اسے نسائى نے باب كيف الخطبۃ صلاۃ العيدين ميں روايت كيا ہے، اور مسند احمد ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے اور ابو داود ميں عرباض بن ساريہ اور ابن ماجہ ميں ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے:

اس حديث ميں شاہد " ہر گمراہى آگ ميں " ہے۔

جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ يہ كہتے:

" اما بعد: يقينا سب سے بہتر كلام اللہ كى كتاب اللہ ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 867 )۔

تو جب ہر بدعت گمراہى ہے تو اس كے بعد يہ كيسے كہا جا سكتا ہے كہ اسلام ميں كوئى بدعت حسنہ بھى ہے، اللہ كى قسم يہ تو صريحا اللہ كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كےفرمان و فيصلہ كے مخالف ہے۔

2 - اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ بتايا ہے كہ جس نے بھى دين ميں كوئى نيا كام اور بدعت ايجاد كى تو اس كا عمل تباہ اور مردود ہے، اسے اللہ تعالى قبول نہيں فرمائيگا، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

صحيح بخارى بمع فتح البارى حديث نمبر ( 2697 )۔

تو پھر اس كے بعد كسى شخص كے ليے بدعت كو جائز كہنا اور اس پر عمل كرنا كس طرح جائز ہو سكتا ہے۔

3 - بدعتى شخص جو دين ميں كوئى ايسا كام اضافہ كرتا ہے جو دين ميں نہ تھا اس كے اس فعل سے كئى ايك برائياں لازم آتى ہيں جو ايك ايك بڑھ كر ہيں۔مثلا:

دين كے ناقص ہونے كا الزام، اور يہ كہ اللہ نے اس كى تكميل نہيں كى، اور اس ميں زيادتى كى مجال ہے حالانكہ يہ درج ذيل فرمان بارى تعالى كے متصادم ہے:

’’آج ميں نے تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپنى نعمت بھرپور كر دى ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں۔‘‘

يہ كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے ہى دين ناقص تھا حتى كہ يہ بدعتى شخص آيا اور اس نے آ كر تكميل كى۔

اس بدعت كے اقرار سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر دو قسم كے امور كى تہمت لازم آتى ہيں:

يا تو وہ اس بدعت حسنہ سے جاہل تھے۔

يا پھر انہيں علم تھا ليكن انہوں نے اپنى امت سے چھپائى اور اس كى تبليغ نہ كى ( نعوذ باللہ باللہ من ذلك )۔

اس بدعت كا اجر نہ تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم پا سكے اور نہ ہى صحابہ كرام حتى كہ يہ بدعتى شخص آيا تا كہ اس اجر كو حاصل كر سكے، حالانكہ اسے تو يہ كہنا چاہيے تھا كہ: اگر يہ بھلائى اور خير كا كام ہوتا تو وہ صحابہ كرام اس كى طرف سبقت لے جاتے۔

بدعت حسنہ كا دروازہ كھولنے سے دين ميں تغير و تبدل اور خواہشات و رائى كا دروازہ كھولنے كا باعت بنے گا، كيونكہ ہر بدعتى شخص يہ كہےگا ميں نے جو كام كيا ہے وہ اچھا اور حسن ہے، تو ہم كسى رائے كو اپنائيں اور كس كے پيچھے چليں ؟

بدعات پر عمل كرنے سے كئى سنتوں كو ترك كرنے كا باعث ٹھرے گا، اور يہ حقيقت ہے واقعات اس كے شاہد ہيں: جب بھى كوئى بدعت ايجاد ہوتى ہے تو اس كے مقابلہ ميں ايك سنت مٹ جاتى ہے، ليكن اس كے برعكس صحيح ہے۔

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں ہر قسم كى ظاہر اور باطنى گمراہى اور فتنوں سے محفوظ ركھے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ