سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(345) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلقہ کا حکم

  • 14445
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1224

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلقہ عورت ام المومنین کادر جہ رکھتی ہے یانہیں ؟ اگر نہیں تو دوسری جگہ نکاح کرانے کا وہ حق رکھتی تھی یانہیں .


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ ام المومنین ایسے مقد س لقب کی بنیاد پر رشتہ زوجیت  بحال رہنے کے ساتھ مشروط ہے پر ہے اور جب تک یہ رشتہ استوار رہے ام المومنین کا لقب بحال رہے گا ، یعنی  جب تک کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم

کے حرم پاک میں تھی وہ ام المومنین بھی تھی اور ظاہر ہے کہ طلاق موثر ہونے پر رشتہ زوجیت اپنے آپ ختم ہو جاتا ہے ، لہذا جوں ہی کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے محروم ہوئی اسی وقت وہ ام المومنین کے مقدس لقب سے بھی محروم قرار پائی شاید یہی وجہ ہو کہ ام المومنین  حضرت سودہ بنت زمعہ ﷜ نے  اپنی باری ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کو ہبہ کر دی تھی تاکہ ان کا یہ اعزاز بحال رہے ۔(ملحاظہ ہو صحیح بخاری ج3ص785 لال المراۃ تھب یومھا  من زوجھا  نصرتھا ۔)

رہا یہ سوال کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلقہ بی بی طلاق موثر ہونے کے بعد دوسری جگہ  پرنکاح کر سکتی ہے یا نہیں تو علماء کے اس مسئلہ میں دو قول ہیں(1) ایک یہ کہ وہ کہیں نکاح نہیں کر سکتی (2) دوسرا یہ کہ دوسری جگہ نکاح کرنے  کی مجاز ہے۔

1۔ نکاح امر مشروع ہے ۔ (ھن لباس لکم وانتم لباس لھن ) کےمطابق مطلقہ اور غیر مطلقہ ہر د و یہ ضرورت ہے ، خواہ پیغمبر کی مطلقہ ہو یا غیر مطلقہ ۔لہذا اس کے  اس جائز حق پر قد غن لگانا  سراسر زیاتی ہے ۔

2۔ کسی خوش نصیب مسلمان عورت کےلئے اس دنیا میں سب سے بڑا اعزاز یہ ہے  کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی کے حرم پاک میں شامل ہو ۔ جب کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےحرم پاک سےخارج قرار پاگئی تو ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت بڑی سعادت سے محروم  ہوگئی اور ایسی صورت میں اس کو کسی اور جگہ نکاح کرنے کی اجازت نہ   دینا گویا اس کی باقی ماندہ زندگی مزید تلخ کرنا ہے حالانکہ حدیث میں  ہے لا ضرر ولا ضرار ۔ ارواء التعلیق

3۔ قرآن مجید سے بھی اس کا جواز معلوم ہوتا ہے ،چنانچہ فرمایا :

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ﴿٢٨﴾...الأحزاب

أي: أعطيكن حُقُوقَكُنَّ وَأُطْلِقْ سَرَاحَكُنَّ.وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَازِ تَزْوِيجِ غَيْرِهِ لَهُنَّ لَوْ طَلَّقَهُنَّ، عَلَى قَوْلَيْنِ، وَأَصَحُّهُمَا نَعَمْ لَوْ وَقَعَ، لِيَحْصُلَ الْمَقْصُودُ مِنَ السَّرَاحِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ(تفسیر ابن کثیرص481 سورة احزاب ج3مصری)

جملہ اسرحکن کی تفسیر میں امام  ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نئی جگہ نکاح کےمتعلق علماء کےدوقول ہیں :صحیح یہ ہے کہ وہ نکاح کر سکتی ہے ۔ جواز کا پہلو اسرحکن سے نکلتا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ طلاق کےبعد وہ بیوی امہات المومنین کے زمرے سے خارج ہےاور اسے کسی دوسری جگہ نکاح کرنے کاحق حاصل ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص838

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ