سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(338) طلاق ظہار

  • 14438
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1081

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمی جلال دین قوم گجر ساکن جو ڑ پل ضلع لاہور کے مسماۃ ممتاز بی بی کے بطن سے تین بچے ہیں اور وہ ابنی بیوی کے ساتھ خوش وخرم زندگی بسر کر رہا تھا ۔ لیکن چند دن قبل دو آدمیوں نے مل کر جلال دین کو محبوس کرکے اس کی  کنپٹی پر پستو ل رکھ کر حکم دیا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو ۔ یا در ہے کہ مذکورہ دونو ں آدمیوں میں سے ایک آدمی ممتاز بی بی سے شادی کرنا چاہتا ہےاور اس لئے انہوں نے جلال دین کو دھمکی دے کر اس باب پر مجبو ر کر دیا ، لہذا جلال دین نے اپنی بیوی کو کہا کہ آج کے بعد تم میری ماں بہن کی طرح ہو۔ فتویٰ جاری فرمائیں کہ کیا ایسی حالت میں اس  پر کوئی کفارہ وغیرہ تو نہیں ؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں فتوی ٰ جاری  فرئیں ۔اور اگر کفارہ ہے تو کتنا ہے ؟ (ایک سائل : بذریعہ ہفت روزہ اہلحدیث لاہور )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط سوال صورت مسؤلہ میں طلاق واقع ہوئی نہ ظہارہی ہوا ہے ۔ کیونکہ جلال دین گجر صورت مسؤلہ میں مکرہ یعنی مجبور تھا کہ پستول اس کی گر دن پر رکھ دیا گیا تھا۔ لہذا مکرہ کی کوئی کاروائی شرعا معتبر نہیں ۔ کیونکہ آدمی پر شرعی ذمہ دار  اس وقت عائد ہوتی ہے جب وہ اپنی کاروائی میں صاحب ارادہ اور باختیار ہو ۔اور یہ دونوں شرعی تکلیف کی بنیاد ہیں اور جب بنیاد ہی  نہ ہو تو مجبور اور بے بس آدمی کا روائی شرعا معتبر نہیں ۔.

والمکرہ لا ارادة له ولا اختیار ولا إرادۃ والا ختیار ھی اساس التکلیف فاذا انتفیا انتفی التکلیف واعتبر المکرہ غیر مسؤل عن تصر فاته ۔لأنه مسلوب إلا رادۃ . (1)فقه السنة ج 2 ص 212

اور قرآن مجید میں ہے :

﴿ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ ... ١٠٦﴾...النحل

کہ جو شخص کلمہ کفر بولنے پر مجبور کر دیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو وہ اس طرح کافر نہ ہوگا ۔

اور حدیث میں ہے :

 أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " رفع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه ".أخرجه ابن ماجه، وابن حبان، والدارقطني، والطبراني، والحاكم، وحسنه النووي.وإلى هذا ذهب مالك، والشافعي، وأحمد، وداود من فقهاء الامصار،وبه قال عمربن الخطاب، وابنه عبد الله، وعلي بن أبي طالب، وابن عباس. (1)فقه السنة: ج 2 ص 212

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت سے غلطی ،بھول چوک اور اکراہ ومجبوری کے عالم میں وقوع پذیر کا روائی پر کوئی شرعی حکم لاگو نہیں ہوتا ۔امام مالک ،امام شافعی ،امام احمد اور امام داؤد ظاہری اسی طرف گئے ہیں  کہ مجبور اور بے بس وغیرہ کی کارروائی شرعا معتبر نہیں ۔ حضرت عمر فاروق ،عبد اللہ بن عمر ،علی اور ابن عباس ﷢ کا یہی مذہب ہے ۔،، خلاصہ کلام یہ کہ صورت مسؤلہ میں طلاق ہوئی اور نہ ظہار ہوا ہے ۔جلال دین گجر اور اس کی بیوی ممتاز بی  بی کا نکاح قائم اوربحال ہے ۔ اور کوئی کفارہ بھی نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص828

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ