سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(335) اکٹھی تین طلاقیں دے كردوبارہ گھر بسانا

  • 14435
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1123

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتےہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ میں نےاپنی بیوی بلقیس کو 14 ستمبر کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی تھیں ،اب میں اپنی بیوی کی منت سماجت کی وجہ طلاق سے رجوع کرکے اپنا گھر آبادر کھناچاہتا ہوں ۔ قرآن وحدیث کے مطابق  فتویٰ جاری کیا جائے کہ میں اپنا گھر آباد رکھ سکتا ہوں کہ نہیں ؟میں بحثیت مسلمان یہ بیان کرتاہوں کہ میں نےاپن بیوی کو یہ پہلی طلاق دی ہے غلط بیانی کامیں خود ذمہ دار ہوں کا ۔ (سائل :اسرار احمد ولد محمد ایوب ساکن کھلا بت ٹاؤن شب سیکڑ نمبر 4 ہری پور  ہزارہ حال میواتی محلہ کوٹ لکھپت اکبر شہید روڈ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

:بشرطیکہ یہ پہلی طلاق ہو اور طلا ق نامہ اصل واقعہ کے عین مطابق  ہو تو صورت مسؤلہ میں ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے ، جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے ۔

1۔ عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً(مسلم :باب الطلاق ج1 ص 477.)

’’حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق ﷜ کے عہد سے لے کر حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو برسوں تک اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوتی تھی۔،،

عن ابن عباس، قال: طلق ركانة بن عبد يزيد - امرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن حزناً شديداً، قال: فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف طلقتها قال ثلاثاًفي مجلس واحد قال فقاله إنما تلك واحدة، فأرتجعها فتراجعھا((اخرجه احمد وابو یعلی وصححه ونیل الاوطار ج 6 ص232 ۔فتح البار ج9 ص316)

حضرت رکانہ ﷜ اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے کر بڑے غمگین ہوئے ۔جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کاعلم ہو ا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تو ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے تم رجوع کرلین توانہوں نےرجوع کر لیا۔

3۔ایک ہزار صحابہ :

حضرت ابن عباس ،حضرت ابن مسعود،حضرت علی ،حضرت زبیر ، حضرت ابو سیٰ اشعر ی ،حضرت عبد الرحمان بن عوف و غیر ہم ایک ہزار سے زائد صحابہ کرام ﷢ کا بھی یہی فتویٰ اور مذہب ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے ۔

4۔ علمائے احناف میں سے امام محمد بن مقاتل رازی حنفی ، مفتی عتیق الر حمٰن عثمانی حنفی ، علامہ سعید احمد اکبر آبادی حنفی ، محقق شہیر ومو لف شمس پیرزادہ اور مشہور بر یلوی حنفی عالم دین کرم شاہ آستا نہ عالیہ بھیرہ کی راجخ رائے بھی یہی ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شرعا ہوتی ہے۔

5۔امام ابن تیمہ ، امام ابن قیم ،امام داؤد ظاہری ،شیخ الکل  السید نذیر حسین دہلوی اور شیخ الاسلام ابو الوفا ء ثناء اللہ امرتسری  قدس اسرار ھم کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔.(کتاب مقالات علمیہ : ص 238 : ج2 وفتاوی ثنالیہ ج 2 ص 227.)

خلاصہ اور فیصلہ :

مذکورہ بالااحادیث صحیحہ معتبر ہ قویہ ، مرفوعہ ، متصلہ اور ایک ہزار سے زائد صحابہ  وبعض تابعین اور محقیقن علمائے امت کے مطابق صورت سوال میں بشرط صحت سوال ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے اور یہ طلاق حسب وضاحت خط کشیدہ 2002۔9۔14 کو دی گئی ہے اور آج مورخہ 2002۔10۔15 ہے ،لہذا عدت باقی ہے اور نکاح سابق قائم اوربحال ہے پس طلاق دہندہ اسرار احمد مذکور اپنی بیوی بلقیس بی بی سے رجوع کر کے اپنا گھر آباد رکھ سکتا ہے ۔ حلالہ کی ہر گز ضرورت نہ ہے حلالہ ویسےبھی بحکم رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم لعنتی فعل اور بے غیرتی کامظہر ہے ۔ مفتی کسی قانونی سقم اورعدالتی کارروائی کا ہرگز دار ذمہ ہوگا -

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص823

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ