سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(331) اکٹھی تین طلاقوں کے ایک ماہ بعد دوبارہ نکاح کرنا

  • 14431
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1653

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں مفتیان اسلام اس مسئلہ میں کہ میرے حقیقی بڑے بھائی مسمی ذربت خاں ولد میر بت خاں سکنہ و ڈاکخانہ بنی افغانان تحصیل وضلع میانوالی نے گھریلو ناچاکی اور بے اتفاقی کی وجہ سے اپنی منکوحہ بیوی مسمات ستر بی بی دختر مبارک شاہ کو آج سے ایک ماہ پانچ دن قبل ایک ہی مجلس میں اکھٹی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں ۔ اب بچوں کی وجہ سے دونوں میان بیوی صلح کرکے اپنا گھر آباد رکھنا چاہتےہیں ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی فتویٰ مطلوب ہے کیا شرعا رجوع جائز ہے نہیں یا نیا نکاح کرنا پڑے گا دلائل کے ساتھ جواب تحریر فرمایئں۔

میں مسمی عبد الوحید خاں میر بت حلفیہ بیان دیتاہوں کہ میرے بھائی کی اپنی بیوی کو یہ پہلی طلاق ہے اس سے پہلے کو ئی زبانی یا تحریری طلاق نہیں دی ۔ (سائل ،میر  عبد الوحید خاں  میربت خاں سکنہ وڈاک خانہ بنی افغانان تحصیل وضلع میانوالی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال وبشرطیکہ طلاق دہندہ زربت خاں ولد میر بت خاں کی یہ پہلی طلاق ہے تو قرآن وحدیث  کی نصوص صریحہ، صحابہ کرام ﷢ ،فقہائے اسلام ،محقیقن علمائے امت اور ماہرین شریعت کی تصریحات کےمطابق ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہیں اور رجعی طلاق میں عدت کے اندر (تین حیض یا تین ماہ ) نکاح قائم اور بحال رہتا ہے اور رجوع شرعا جائز ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ... ٢٢٩﴾...الطلاق

رجعی طلاق دو  دفعہ ہے ، پھر یاتو نیک ارادہ سےبیوی کو روک لینا ہے یا پھر شائشتگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔،،

یہاں اس آیت شریفہ میں لفظ مرتان مرۃ کا تثنیہ ہے اور مرۃ کا معنی ایک دفعہ اور ایک وقت ہے ۔جیساکہ سورۃ النور میں اس کی صراحت مو جود ہے فرمایا :

﴿أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ...٥٨﴾...النور

’’اے ایمان والو ! تمہارے غلام لونڈی اور نابالغ لڑکے لڑکیاں آپ کے پاس آنے کے لئے تین وقتوں میں اجازت حاص کریں (1) نماز فجر سے پہلے (2) اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے  کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تینوں وقت تمہاری م اور پردے کے ہیں ،،

اس آیت میں ثلث مرات سے مراد ثلث اوقات ہیں جیسا کہ خود قرآن مجید میں اس کی تصریح آپ کے سامنے ہے اور علم تفسیر کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے القرآن یقسر بعضہ بعضا اس قاعدہ کے مطابق الطلاق مرتان کا معنی لامحالہ طلاق دو دو وفعہ ہی صحیح ہے۔ دو طلاقیں مراد لینا ہرگز صحیح نہیں کیو نکہ قرآن کے الفاظ الطلاق طلقتان ہرگز نہیں ۔ پس قرآن سے ثابت ہواکہ ایک مجلس کی تین یا تین سے زیادہ طلاقیں ایک رجعی طلاق شرعا واقع ہوتی ہے ۔ اب احادیث صحیحہ بھی ملاحظہ فرمائیں:

1۔ عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً (صحیح مسلم : کتاب الطلاق ج 1 ص 477)

’’حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول الللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور حضرت ابو بکر صدیق ﷜ کے دور میں اور حضرت عمر کے دور خلافت کے پہلے دو بر سوں تک تین طلاقیں ایک  ہی شمار ہوتی  تھی ۔ ایک سچا واقعہ یہ بھی ہے :

2۔ عن ابن عباس، قال: طلق ركانة بن عبد يزيد - امرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن حزناً شديداً، قال: فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كيف طلقتها؟ " قال: طلقتها ثلاثاً، فقال: "في مجلس واحد؟ " قال: نعم، قال: "فإنما تلك واحدة، فأرجعها إن شئت"، قال: فراجعها،.( اخرجه احمد وابو یعلی وصححه نیل الاوطار :ج 2 232باب ماجاء فی طلاق البتة وجمع الثلاث )

شرح صحیح البخاری میں شیخ الاسلام حافظ ابن حجر فرماتےہیں :

ھذا الحدیث نص فی المسئلة لا یقبل التاویل الذی فی الروایات الاٰتی ذکر ھا . (فتح الباری شرح صحیح البخاری ج9 ص 316.)

یعنی رکانہ ﷜ اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے کر بڑے غمگین ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پرعرض کیا کہ حضرت ! اکٹھی تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو ایک طلاق واقع ہوئی ہے آپ رجوع کر لیں ۔ توانہوں نےاپنی یکجائی مطلقہ ثلاثہ بیوی سے رجوع کر لیا۔

ایک ہزار سے زائد صحابہ ﷢ کا مذہب

حضرت ابن عباس ؓ ابن مسعو د ﷜ ،ابو موسیٰ اشعری ﷜ عبد الرحمٰن بن عوف ﷜ حضرت زبیر ﷜ ، حضرت علی﷜ او ر دوسرے ایک ہزار سےزائد صحابہ ﷢ کا بھی یہی فتویٰ اور مذہب تھا کہ اکٹھی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے ۔

وھذا حال کل صحابی من عھد الصدیق  الی ٰ ثلاث سنین من خلافة عمر بن الخطاب وھم یزیدون  علی الالف قطعا. (التعلیق المغنی علی الدار قطنی ج 4 ص 47.)

4۔ اما م محمد بن مقاتل رازی حنفی من اصحاب ابی حنیفہ اور ایک قول کے مطابق امام ابو حنیفہ کے مذہب میں بھی یہی فتویٰ ہے ۔

وحکاہ عن محمد بن مقاتل الرازی من اصحاب ابی حنیفة وھواحد القولین فی مذھب ابی حنیفة. (التعلیق المغنی :ج 2ص 48 .)

5۔مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیز بن باز ﷫ کا فتویٰ بھی یہی ہے ہ ایک مجلس کی اکٹھی تین طلاقیں ایک ہی طلاق ہوتی ہے۔ فرماتےہیں ان عباس ﷜ کے شاگردوں میں سے اہل علم کی ایک جماعت اور کئی دوسروں نے بھی اس بات کو اختیار کیا ہے اور محمد بن اسحاق صاحب السیرۃ بھی اس بات کے قائل ہیں اور شیخ الاسلام امام ابن تیمہ ﷫ اور امام ابن قیم ﷫ نےبھی یہی بات اختیار کی ہے ۔( فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز ج1 ص 172.)

6۔ شیخ الکل السید نذیر حسین المحدث الدہلوی اور شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔ (فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 73 اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صورت مسؤلہ میں قرآن وحدیث کی نصوص ،صحابہ کرام ﷢  اور علمائے اسلام کے مطابق ایک رجعی طلاق واقع  ہوئی ہے اور یہی صحیح ہے اور جس قاری صاحب نےیہ کہا ہے کہ تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ان کی یہ رائے مذکورہ بالااحادیث صحیحہ مرفوعہ غیر معلل ولا شاذ ہرگز صحیح نہیں ۔

حنفی حضرات کا فتویٰ :

مزید یہ کہ امام محمد بن مقاتل رازی حنفی کےعلاوہ آج کے متعدد مفتیان احناف کی راجح رائے بھی یہی ہے  کہ ایک مجلس کی  اکٹھی تین ۃیا تین سے زائد طلاقیں ایک رجعی طلاق سمجھنی چاہیے  ۔جیسا کہ دارالعلوم دیو بند کے نائب مفتی کفیل الرحمٰن نشاط دار العلوم دیوبند کے صدر مفتی ظفیر الدین حنفی دیو بندی کا فتویٰ ہے ، ملا حظہ ہو کتاب جدید فقہی مسائل از خالد سیف اللہ دیو بندی ص 424 اور علامہ سعید اکبر آبادی حنفی ،علامہ عروج قادری حنفی اور بریلوی مکتبہ فکر کے مشہور عالم دین اور پاکستان کی شرعی عدالت کے سابق جج پیر کرم شاہ بھیروی بریلوی کے رائے بھی یہی ہے ۔ ملاحظہ کتاب مقالات علمیہ ص 247 ورسالہ فکر ونظر ۔تفصیل کا یہ مو قع نہیں، خلاصہ یہ کہ صورت مسؤلہ میں ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے ۔ چونکہ اس طلاق دہند ہ اپنی بیوی سے رجوع کر کے اپنا گھر آباد رکھ سکتاہے ۔ حلالہ کی قطعا ضرورت نہیں ۔ حلالہ ویسے بھی لعنتی فعل ہے اور بے غیر تی کا مظہر ہے ۔ مفتی کسی قانونی سقم کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص814

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ