سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(328) طلاق بائنہ صغریٰ

  • 14428
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1926

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرح متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں یہ کہ  مسمی محمد رمضان ولد فضل دین قوم انصاری سکنہ غلام آباد مکان نمبر 328 ڈی  تحصیل وضلع فیصل آباد کاہوں یہ کہ مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا مقصود ہے جو ذیل عرض ہے ۔

یہ کہ میری دختر مسمات نسیم اختر کا نکاح ہمراہ مسمی شاہد ندیم ولد فقیر محمد قوم انصاری سید آباد مکان نمبر 161 گلی نمبر 5 فیصل آباد سے ڈیڑھ ماہ قبل کردیا تھا۔ جب کہ یہ صرف نکاح ہی ہوا تھا ۔ نکاح کے دن نا چکی پیدا ہوگئی  کیونکہ برا ت آئی تو مسمات کے والدین نے کھانا نیچے  زمین پر لگایا اور پھر برات والوں کو دعوت دی ۔ اس بات پر دلہا ناراض ہو گیا اور کہنے لگا کہ ہم کمی نہیں ہیں کہ نیچے بیٹھ کر کھانا کھائیں اور اس بات سے غلط جملے  استعمال کئے ،لہذا کھانا پھر دوبارہ اسٹینڈ پر لگایا گیا۔ اس کے باوجود خاوند  مذکور نے لڑکی والوں سے بہت تکرار کی ۔ اور بہت جھگڑا کیا خاوند مذکور نے اسی بنا پر میری بیٹی نسیم اختر کوکہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔میری طرف سے اس کو طلاق طلاق طلاق ہے ،میں اسے اپنے ہاں آباد نہیں کرسکتا ۔ برادری والوں نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے ایک نہ مانی اور براب واپس چلی گئی لڑکی کے باپ نے صلح کی کوشش کس مگر ناکام رہی ۔ بلکہ خاوند مذکور نے اعلانیہ طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ میں اسے اپنے گھر آباد نہیں کر سکتا لڑکی جو اس وقت سے اپنے والد کے ہاں کسمپری کی زندگی بسر کر رہی ہے اب علمائے دین سے سوال ہے کہ آیا شرعا مسمات کو یہ طلاق واقع ہو گئ ہے ؟ شرعا  جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں ،کذب بیانی ہوگی تو سائلہ خو ذمہ دار ہو گی ، لہذا شرعی فتویٰ صادر فرمائیں ۔

(سائل: محمد رمضان حقیقی باپ مسمات  مذکور ہ نسیم اختر)

(تصدیق : ہم اس سوال کو حرف بحرف حلفا خدا کو حاضر ناضر جان کر تصدیق  کرتے ہیں کہ سوال بالکل صداقت پر مبنی ہے اگر کسی وقت غلط ثابت ہو گا تو ہم اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ لہذا ہمیں شرعی فتویٰ صادر فرمائیں ۔

محمد شریف ولد محمد رمضان قوم انصاری مکان نمبر 122 ۔حاجی محمد ارائیں ولد خیر دین قوم انصاری محلہ غوثیہ ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بشرط صحت سوال وموافقت سوال بالا باصل واقع صورت مسؤلہ میں طلاق واقع ہو چکی ہے ،چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے مروی ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ . (1)صحیح بخاری باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ والنسیان ج2 ص 793و 794.

’’رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ نے میری امت کے دل کےخیالات معاف کر رکھے ہیں جب تک میری امت ان خیالات پر عمل نہ کرے یا زبان سے بول کر ادانہ کرے ۔،،

اس حدیث سے ثابت ہواکہ  طلاق خواہ تحریری ہو یازبانی کلامی ہو دونوں صورتوں میں پڑجاتی ہے ۔

امام ترمذی ﷫ اس حدیث پر ارقام فرماتے ہیں  :والعمل علی ھذا عند اھل العلم ان الرجل اذا حدث نفسہ بالطلاق لم یکن شیا حتی یتکلم به . (2)تحفة الاحوذی شرح جامع الترمذی باب ماجافی من یحد ث نفسه بطلاق امراته ، ج 2 ص215

’’اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہےکہ طلاق  دہندہ کے خیال سےاس وقت تک طلاق واقع نہ ہوگی جب تک وہ زبان سے طلاق کا لفظ ادا نہ کرے۔

امام ابن قدامہ حنبلی ارقام فرماتے ہیں :

وجملة ذلک أن الطلاق لا یقع إلا بلفظ فلو نواہ بقلبه من غیر لفظ لم یقع فی قول عامة أھل العلم منھم عطاء وجابر ن زید وسعید بن جبیر ویحییٰ بن ابی کثیر امام شافعی ،امام اسحاق ،امام قاسم ،امام سالم ،امام حسن بصری ،امام عامر شعبی ۔ ولنا قو ل النبی  صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ تجاوز لأمتی عما حدثت به أنفسھا مالم تتکم به أو تعمل. .(3) رواہ النسائی والترمذی وقال هذا  حدیث صحیح ۔مغنی ابن قدامه ج 7 ص394.

اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ طلاق محض دل کےارادے سے نہیں بلکہ اس وقت پڑتی ہے جب طلاق دہندہ لفظ طلاق زبان سے بول کرادا کرے گا ۔امام عطاء ، یحی ،جابر بن زید ،امام شافعی ،امام اسحاق ،قاسم ،سالم حسن بصری اور شعبی وغیرہم کا یہی مذہب وفتویٰ ہے۔

امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہ ہے کہ جب نیت اور زبان کی موافقت میں طلاق کا لفظ بولا جائے گا تو طلاق واقع ہو جائےگی ۔

فالمشھور عن مالک أن الطلاق  لا یقع إلا بلفظ ونیۃ. (بدایة المجتہد :ج2 ص 56)

شیخ الکل سید نذیر حسین اور مولانا عبد الحق محدث ملتانی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :’’ جب شوہر شریعت کے مطابق عورت کو طلاق دے گا زبانی دے یا تحریری تو طلاق خواہ مخواہ پڑ جائے گی ۔(2) فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص 73.

مفتی محمد شفیع حنفی آف کراچی کےنزدیک بھی زبانی طلاق واقع ہو جاتی ہے (3) فتاویٰ دار العلوم دیو بند ج 2 ص658.

لہذا ان احادیث صحیحہ ، جمہور اہل علم ، تابعین ،ائمہ مجتہدین کے مطابق صورت مسئولہ میں طلاق  واقع ہو چکی ہےکہ طلاق دہندہ مسمی شاہد احمد ولد فقیر محمد انصار نے علی رؤس الاشہاد بھری مجلس میں طلاق دی ہے ۔ اور یہ طلاق چونکہ قبل مساس واقع ہوئی ،لہذا یہ طلاق بائن  صغریٰ ہے اور طلاق بائن صغریٰ میں عدت بھی نہیں نکاح اسی وقت ٹوٹ گیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے :

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ﴿٤٩﴾...الأحزاب

اے ایمان والو ! جب تم ایماند ار عورتوں سے نکاح کرو اور پھر تم جماع سے پہلے ان کو طلاق دے دو تو تمہارے حق میں ان پر کوئی عدت نہیں جو تم اس کو شمار کرو۔ اس صورت میں ان کو کچھ دے دلا کر فارغ کردو۔ ہاں ،اگر مہر حق  ہو تو اس صورت میں قبل جماع طلاق دینے پر اسے مطلقہ بی بی کو طے شدہ مہر کانصف مہر بھی ملےگا۔،،

جیساکہ سورہ بقرۃ میں ہے :

﴿وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ ...٢٣٧﴾...البقرة

’’اگر تم ان کو قبل ازوطی طلاق دو اور مہر طے ہوتو آدھا مہر ان کوملے گا الا یہ کہ وہ معاف کریں ۔ یا شوہر اپنا حصہ معاف کردے۔،،

سید محمد سابق لکھتےہیں :

یقع الطلاق بکل ما یدل علی إنھاءالعلاقة الزوجیة سواء کان ذلک باللفظ أم بالکتابة إلی الزوجة او بالإشارة  اخرس او بإرسال الر سول والفظ قد یکون صریحا وقد یکون کنایة فالصریح ھو الذی یفھم  من معنی الکلام عنه التلفظ به مثل انت طالق ومطلقة وکل مااشتق من لفظ الطلاق    وقال الشافعی الفاظ الطلاق الصریحة ثلاثة الطلاق والفراق والسراح وھی المذکورة فی القرآن العطیم وقال بعض اھل الظاھر لا یقع الطلاق  الا بھذہ الثلاث . (1)فقه السنة :ج 2 ص 216، 217.

کہ طلاق ہر اس چیز کےساتھ واقع ہوجاتی ہے جو علاقہ زوجیت کو ختم کرنے والی ہو ، خواہ وہ لفظ ہو یا تحریر یا اشارہ یا قاصد جیسے یوں کہنا تجھے طلاق یا تو مطلقہ ہے۔ چونکہ طلاق دہندہ نےیہی الفاظ استعمال کئے ہیں ، لہذا طلاق ہو چکی اور نکاح ٹوٹ چکا ہے اور اس طلاق میں عدت بھی نہیں کہ طلاق قبل از جماع ہوئی ہے ۔ یہ جواب بشرط صحت سوال لکھا ہے۔ جو صرف شرعی مسئلہ کا اظہار ہے ۔ مفتی کسی قانونی سقم کا ہر گز ذمہ دار نہ ہوگا ۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص805

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ