سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(318) يكجائی تین طلاقوں کے اثبات میں دعوی اجماع کی حقیقت

  • 14418
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2326

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن وحدیث کے بعد یکجائی تین طلاقوں کے وقوع کے اثبات میں اجماع امت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے ۔اور بڑے دھڑلے سے لکھا اور کہا جاتا ہےکہ یکجائی تین طلاق کے طلاق مغلظہ بائنہ ہونے پر اجماع قائم ہو چکا ہے ،اس لئے اس کے خلاف فتوی دینا اور یکجائی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق ٹھہرانا غلط اورباطل ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یکجائی تین طلاقوں کےتینوں واقع ہوکر مغلظ ہو جانے پر اجماع کا یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ اجماع کا کوئی ثبوت فی الواقع موجود نہیں بلکہ واقع یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کاتین شمار کئے جانے پر امت کا اجماع کبھی بھی نہیں ہوا۔ہاں طلاق دینے والوں کےحالات کو سامنے رکھ کر کبھی صحابہ نےایک طہر کی تین طلاقوں کو لازم کردیا اور کبھی اسے ایک قرار دیا ہے ۔بلکہ اسکے  برخلاف عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ،عہد صدیقی ﷜ اور حضرت عمر ﷜ کے خلافت کے ابتدائی دو تین برسوں تک تو اجماع اسی پر رہا کیا کہ یکجائی تین طلاقیں ایک شمار ہوگی ۔اورحضرت عمر﷜ کے اس تعزیری حکم کے بعد صحابہ کرام طلاق دہندہ کے حالات کے بیش نگاہ رکھ کرکبھی تین کو تین شمار کرتےاور کبھی ایک قرار دیتے ،جیساکہ عبداللہ بن عمر ﷜ سےدونوں قسم کا فتوی ٰ منقول ہے۔حضرت علی ، عبد اللہ بن مسعود ،زبیر بن عوا م ، عبد الرحمٰن بن عوف ،ابو موسیٰ اشعری ﷢ یکبار گی تین طلاقوں کوایک رجعی ہی شمار کرتے تھے ۔

امام ابو حنیفہ کےدو قول

خود امام بو حنیفہ سے س مسئلہ میں دو قول ہیں ایک یہ ہے کہ یک رجعی طلاق پڑتی ہے ،جیساکہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے شاگرد امام محمد بن مقاتل رازی حنفی نے امام ابو حنیفہ سے روایت کی ہے۔

حکاه محمد بن مقاتل الرازی من اصحاب ابی حنیفه وھو احد القولین فی مذھب ابی حنیفه

امام مالک کے بھی دوقول ہیں ۔مولانا عبد الحی نے طلاق ثلاثہ کےبارے میں چار قول نقل کئے ہیں فرماتے ہیں :والقول الثانی انه اذا طلق ثلاثا تقع واحدة رجعیة وھذا ھوالمنقول عن بعض الصحابة وبه قال داؤد الظاہری واتباعه وھو احد القولین لمالک واصحاب احمد انتصر لھذا لمذھب ابن تیمیة الحنبلی فی تصانیفه وتلمیذه فی کتا به زادالمعاد واغاثة اللھفان وغیر ھما من تبعھما. (1)اعاثة اللفھان لابن القیم ص157 طبع مصر التعلیق علی الدار قطنی ج4 ص48.

لیجئے جناب دعویٰ اجماع میں تو خود حضرت امام ابو حنیفہ اور امام مالک نے خود دراڑیں پیدا کر دی ہیں ۔

3۔امیر المومنین فی الحدیث سید الفقہاء امام محمد بن اسماعیل بخاری اس زیر بحث مسئلہ کو مختلف فیہ قرار دیتے ہوئے اپنی الجامع الصحیح میں یوں تبویب قائم فرماتے ہیں ۔با ب من جوز الطلاق الثلاث .صحیح بخاری ج2ص۔جس نے تین طلاق کو جائز قرار دیا۔ حافظ این حجر اس  کی  تشریح کرتے ہوئے  فرماتے ہیں :وفی الترجمة اشارۃ الی ان من السلف من لم یجز وقوع الطلاق الثلاث ۔فتح الباری ج9ص362۔اس تر جمہ میں اس بات کی طرف اشارہ  ہے کہ علماء سلف میں ایسے علماء بھی ہیں جو یکجائی تین طلاقوں کے قائل نہیں ۔

پھر اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے آگے ارقام فرماتے ہیں :

الرابع أنه مذھب شاذ فلا یعمل به وأجیب بأنه نقل عن  علی وابن مسعود وعبدالرحمٰن بن عوف والزبیر مثله نقل ذالک ابن مغیث (فی کتاب الوثائق له )وعزاہ لمحمد بن وضاع ونقل الفتوی بذالک عن جماعة من مشائخ قر طبة کمحمد بن تقی بن مخلد ومحمد بن عبد السلام الخشنی وغیر ھما ونقله ابن المنذر عن اصحاب ابن عباس وکعب وطاوس وعمر بن دینار وبتعجب من ابن التین حیث جزم بان لزوم الثلا ث لا اختلاف کما تر یٰ۔(2)عمدة الرعایة ج2ص81

من قال  إذا طلق ثلاثا مجموعة وقعت  واحدة وھوقول محمد بن إسحاق صاحب المغازی . .(3)فتح الباری ج 9 ص263 طبع قدیمی ج 9ص454.

امام طحاوی حنفی شرح معانی الآثار میں تصریح فرماتے ہیں :

فذھب قوم إلی أن الرجل إذا طلق إمراته ثلاثا معا فقد وقعت علیھا واحدۃ إذا کان فی وقت السنة وذلک أن تکون طاھرۃ فی غیر جماع واحتجوا فی ذلک بھذا الحدیث ج2 ص31

یہ بھی مخفی نہ رہے کہ امام طحاوی امام بخار ی کےمعاصر اور امام ابن تیمیہ سے پہلے کے محدث ہیں ۔یعنی امام طحاوی کے عخد تک بھی اس مسلک کے قائل اتنے تھے کہ انہیں قوم (یعنی گروہ )سے تعبیر کیا جاتا تھا۔

نامور مفسر علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں ایک مستقل فصل کے عنوان سے اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے ۔فرماتے ہیں :  وذَكَرَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُغِيثٍ الطُّلَيْطِلِيُّ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ فِي وَثَائِقِهِ فَقَالَ ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ بَعْدَ إِجْمَاعِهِمْ عَلَى أَنَّهُ مُطَلِّقٌ، لمْ يَلْزَمُهُ الطَّلَاقِ، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ مَسْعُودٍ: يَلْزَمُهُ طَلْقَةٌ وَاحِدَةٌ، وَقَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ،. وقال الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ. وَرُوِّينَا ذَلِكَ كُلَّهُ عَنِ ابْنِ وَضَّاحٍ، وَبِهِ قَالَ مِنْ شُيُوخِ قُرْطُبَةَ ابْنُ زِنْبَاعٍ شَيْخُ هَدْيٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ تَقِيِّ بْنِ مَخْلَدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ الْحَسَنِيُّ فَرِيدُ وَقْتِهِ وَفَقِيهُ عَصْرِهِ وَأَصْبَغُ بْنُ الْحُبَابِ وَجَمَاعَةٌ سِوَاهُمْ.(تفسیر قرطبی پارہ2)

امام رازی شافعی اپنی تفسیر کبیر الطلاق مرتان کی تفسیر میں ارقام فرماتے ہیں :

ثُمَّ الْقَائِلُونَ بِهَذَا الْقَوْلِ اخْتَلَفُوا عَلَى قَوْلَيْنِ الْأَوَّلُ:

وَهُوَ اخْتِيَارُ كَثِيرٍ مِنْ عُلَمَاءِ الدِّينِ، أَنَّهُ لَوْ طَلَّقَهَا اثْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا لَا يَقَعُ إِلَّا الْوَاحِدَةُ، وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ الْأَقْيَسُ، لِأَنَّ النَّهْيَ يَدُلُّ عَلَى اشْتِمَالِ الْمَنْهِيِّ عَنْهُ عَلَى مَفْسَدَةٍ رَاجِحَةٍ، وَالْقَوْلُ بِالْوُقُوعِ سَعْيٌ فِي إِدْخَالِ تِلْكَ الْمَفْسَدَةِ فِي الْوُجُودِ وَأَنَّهُ غَيْرُ جَائِزٍ، فَوَجَبَ أَنْ يُحْكَمَ بِعَدَمِ الْوُقُوعِ.

امام رازی کی اس وضاحت سے دوباتیں کھل کر سامنے آگئی ہیں ۔ایک یہ مسلک زیادہ قرین قیاس ہے ،دوسری یہ شاذ مسلک نہیں بہت سے علمائے دین کا ہے ۔

علامہ بد رالدین عینی حنفی اس مسلک کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

َذهب طَاوُوس وَمُحَمّد بن إِسْحَاق وَالْحجاج بن أَرْطَأَة وَالنَّخَعِيّ وَابْن مقَاتل والظاهرية إِلَى أَن الرجل إِذا طلق امْرَأَته ثَلَاثًا مَعًا فقد وَقعت عَلَيْهَا وَاحِدَة، وَاحْتَجُّوا ب‎‎‎‎‎حَدِيث أَبیَ الصَّهْبَاء (1)عمد ة لقاری شرح صحیح البخاری.

امام محمد بن علی الشوکانی اس مسلک کے قائلین کے نام پیش کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں :

ذھب طائفة من أھل العلم إلی  أن الطلاق لا یتبع الطلاق بل یقع واحدۃ فقظ وقد حکا ذلک صاحب البحر عن أبی موسیٰ رواية عن علی وابن عباس الخ

کہ اہل علم کا ایک طائفہ اس  طرف گیا ہے کہ طلاق پر طلاق ،یعنی تابڑا تو ڑ طلاق واقع نہیں ہوتی ۔صاحب بحر زخار حضرت ابو موسیٰ اشعری ،حضرت علی ،ابن عباس ،طاؤس ،عطاء، جابر بن زید ،ہادی ،قاسم ،باقر ،ناصر احمد بن عیسیٰ ،عبد اللہ بن موسیٰ بن عبداللہ ،زید بن علی ،متاخرین میں سے ابن تیمیہ ،این قیم اور محققین کی ایک جماعت کا یہی مسلک نقل فرمایا ہے ۔ابن مغیث نے اپنی کتاب الوثائق میں محمد بن وضاح کا یہی مسلک نقل کیا ہے اور مشائح قر طبہ محمد بن بقی،محمد بن عبد السلام وغیرھما کا یہی فتویٰ نقل کیا ہےاور ابن منذر نے ابن عباس کے اصحاب عطاء طاؤس اور عمر بن دینار کا بھی یہی مسلک ذکر  کیاہے ۔نیل الاوطار ج6ص231

لیجئے جناب یہ ہے اصلیت اس اجماع کی جس پرہمارے کرم فرما اپنے مسلک  حی بنیاد پر مخالفین کت مسلک کو باطل اور خارق اجماع بتلاتے چلے جارہے ہیں ۔مزید تفصیل کے لئے شیخ الاسلام ابن القیم کی کتاب اعلام الموقعین ،اغاثۃ اللفھان اور احمدآباد انڈیا کے سیمنار کی روئید اور علمائے احناف اور علمائے حدیث کی متفقہ آراء کی طرف مراجعت فرمائیں۔اب رہے صحابہ کے مختلف اقوال تو ان کا اصولی جواب یہ ہے کہ فلما احتلف الصحابۃ فوجب الرجوع الی المرفوع۔(1)باب الجمعۃ فی القری ۔فتح الباری شرح صحیح البخاری ج 2ص303

ایک طلاق رجعی ہونےکی احادیث

اوپر کی تفصیلی گفتگو سے یہ بات صاف ہو چکی کہ یکبار گی تین طلاق دینے سے طلاق مغلظہ بائنہ واقع ہو جاتی ہے ۔یہ بات نہ کتاب اللہ سے ثابت ہےاور نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ اس پر کبھی امت کا  اجماع ہوا ہے۔ اس کے بعد مزید کسی بحث کی فی الواقع ضرورت باقی نہیں رہتی ،تاہم ایجابی طور پردو حدیثیں ایسی صحیح اور صریح ہیں ،جنہوں نے اس متنازعہ فیہ مسئلہ کا فیصلہ کرکے رکھ دیا ہے ۔

1۔ عَن بن عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ(2)صحیح مسلم کتاب الطلاق ج1 ص 477۔مسند احمد بن حنبل ج 4 ص 314ورواہ الحاکم ج 2 ص191ونیل الاوطار ج6 ص 232

یہ روایت  مختلف اسناد سے  صحیح مسلم اور دوسری کتب احادیث میں باختلاف یسیر مروی ہے ۔روایتا اس حدیث ک صحیح  ہونے میں کلام کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ حدیث اپنے اس مفہو م میں بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیث ﷜ کے عہد او رخلافت فاروقی ﷜ کے دو برسوں تک (بعض روایتوں میں تین برسوں تک )یکجائی تین طلاقیں ایکرجعی طلاق شمار ہوتی تھی۔ جب فاروق اعظم ﷜ نے دیکھا کہ لوگ بجائے اس کے کہ اللہ تعالی ٰ کی بخشی ہوئی مہلت اور سہولت کا فائدہ اٹھاتے اور مجلس واحد میں ایک طلاق پر اکتفا کرتے ۔انہوں نے اکٹھی تین طلاقیں دینے کو معمول بنالیا  اور طلاق کے غیر شرعی طریقہ پر اصرار کر رہے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ لوگوں پر تین طلاقیں نافذ کر دی جائیں۔پھر انہوں نے بحیثت خلیفہ ہونے کے یہ حکم جاری کردیا ۔حدیث کا ظاہر ی مفہوم یہی ہےاس مفہوم کے مطابق عہد نبوی ،عہد صدیقی اور خلافت فاروقی کے ابتدائی دو بر سوں کا تعامل سامنے آتا ہے کہ یکیارگی تین طلاقوں کوایک رجعی طلاق باور کیا جاتا تھا۔

قائلین طلاق ثلاثہ نےاس صحیح حدیث کے متعد د جوابات دیئے ہیں ۔

(جواب)اول :یہ حکم غیر مدخول کے ساتھ خاص ہے کہ جیسا کہ ابو داؤد نے ایوب سختیانی سے روایت کی ہے ،کیونکہ وہاں تصریح ہے یہ حکم غیر مد خول کا تھا اب یہ حکم جو خاص ہےاس کو عام بتایا کسی طرح درست نہیں ۔

أما ھذہ الروایة التی لابی داؤد فضعیفة رواھا ایوب عن قوم مجھولین عن طاؤس عن عباس فلا یحتج بھا واللہ أعلم . (1)نووی شرح مسلم ص448ج1

(جواب )ثانی : یہ حدیث منسوخ ہے۔جواب الجواب !

علامہ ماذری کہتے ہیں کہ جن لوگوں کو حقائق کی خبر نہیں ان اکا خیال ہے کہ یہ حکم پہلے تھا ،پھر منسوخ ہوگیا۔ماذری نے کہا یہ مؤقف واضح طور پر غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت عمر منسوخ نہیں کی سکتے اور اگر وہ حاشا وکلا منسوخ کرتے تو صحابہ فورا  انکار کرتے اور اگر قائل کا منشایہ ہے کہ یہ حکم رسول اللہ کے دور میں منسوخ ہوگیا تھا تو یہ بات غیر ممکن نہیں ،لیکن یہ بات ظاہر حدیث کے خلاف جاتی ہے کیونکہ  اگر ایسا ہوتا توروای کے لئے جائز نہ ہوتا کہ وہ خلافت ابو بکر وخلافت عمر کے ابتدائی دور میں اس حکم کے باقی اور نافذ رہنے کی خبر دیتا .(2) شرح نوو ی ج1ص478(سبل السلام ج3 ص172

مزید برآں حضرت عمر کے فیصلے کے الفاظ اس جو اب کو قبول نہیں کرتے ۔آپ نے فرمایا:ان  الناس قد استعجلوا فی آمر کانت لھم فیہ اناہ۔

(جواب(ثالث : ایسا اہم حکم ہو اور صرف ابن عباس  اس کے راوی ہوں بہ بڑے تعجب کیا بات ہے ۔ جواب الجواب ۔امام محمد بن اسماعیل الامیر الکحلانی اس کے رد میں لکھتے ہیں :

ھذامجرد إستبعاد فأنه کم من سنۃ وحادثة إنفرد ھا راو ولا یضر سیما ابن عباس بحر الأمة(3)

جواب الجواب 2۔ حدیث کےالفاظ اس جواب کو قبول نہیں کرتے ۔

أَتَعْلَمُ أَنَّمَا «كَانَتِ الثَّلَاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً قَالَ نَعَمْ.(صحیح مسلم ج1 ص478)

’’ کیا آپ کو علم نہیں کہ تین طلاق کوایک طلاق بنادیا جاتا ہے تو ابن عباس نے فرمایا :ہاں ۔،،اگر تین طلاق کا سرے سے رواج ہی نہ تھا توایک کیوں بنا یا جاتا تھا ۔

اس لئے صاحب روح المعانی علامہ محمود آلوسی کو یہ کہنا پڑا  فھو تاویل بعید لا جواب حسن فضلا عن کونه احسن ۔روح المعانی ص137

(جواب ) خامس : اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس بات کا علم تھا۔ دلیل توتب ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم  ہوتا۔ اور آپ اس سے منع نہ فرماتے۔

جواب الجواب ۔ حافظ ابن حجر اسکے  در میں لکھتے ہیں:بان قول الصحابی کنا نفعل کذا فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیکہ وسلم فی حکم الرفع علی الراجع حملا علی انه اطلع علی ذلک فاقره لتو فر دواعیھم علی السوال عن جلیل الاحکام وحقیر ھا. (1)فتح الباری ج9 ص365

(جواب)سادس :اجماع ۔ حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں یکبار گی تین طلاق تین ہی مانی جائےگی  جواب الجواب ۔اجماع کی حقیقت امام الو حنیفہ ،امام مالک ،امام بخاری ،امام بن حجر ،امام رازی ،حافظ عینی حنفی ،امام شوکانی اور اما م طحاوی حنفی ،مولانا  عبد الحی لکھنوی کے حوالہ جات اور تصریحات کے ساتھ اس اجماع کی حقیقت طشت ازبام ہوچکی ہے ۔

(جواب ) سابع : صحابہ کرام کا عمل اس حدیث کےخلاف ہے ۔

جواب الجواب ۔حضرت ابو موسیٰ اشعری ،حضرت علی ،حضرت زبیر بن عوام ،ابن مسعود ،ابن عباس ،حضرت عبدالرحمان بن عوف اور دوسرے ایک ہزار سے زائد صحابہ ﷢ اسےکے قائل ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوتی تھی ۔ حافظ ابن قیم فرماتے ہیں:

وھذا حال کل صحابة من عھد الصدیق الیٰ ثلاث سنین من خلافة عمر بن الخطاب طلاق الثلاث واحدة وھم یزیدون علی الالف قطعا. (2) اغاثة اللفھان ۔ج 1ص 157اور التعلیق المغنی   ج4ص47اور 48

دوسرا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلہ میں کس امتی کا قول حجت نہیں۔لا حجۃ احد دون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ اللہ البالغہ ۔اور یہ ہے حقیقت ہے اس حدیث صحیح کےفرضی اور تار عنکبوت سے کمزور تر جوابات کی -والحمد للہ علی ذلک

حدیث ثانی ۔حدثناسعد بن ابراھیم حدثنا ابی محمد عن   محمد بن إسحاق، حدثنی داود بن الحصين عن عكرمة مولى ابن عباس، عن ابن عباس، قال: طلق ركانة بن عبد يزيد - امرأته ثلاثاً في مجلس واحد، فحزن حزناً شديداً، قال: فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كيف طلقتها؟ " قال: طلقتها ثلاثاً، فقال: "في مجلس واحد؟ " قال: نعم، قال: "فإنما تلك واحدة، فأرجعها إن شئت"، قال: فراجعها،

’’حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رکانہ ﷜ نےاپنی بیوی کو یکجائی تین طلاقیں دے  دیں بعد میں سخت غمگین ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ نے اپنی بیوی کیسے طلاق دی ؟ توانہوں نے عرض کیا ’’طلقتھا ثلاثا،، کہ میں نےاسے تین طلاقیں دی ہیں ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’فی مجلس واحد   کہ ایک ہی مجلس میں ؟ عرض کیا !ہاں ،فرمایا انما تلک واحدۃ فارجعھا ان شئت ۔یہ ایک ہی طلاق ہے آپ چاہیں تو رجوع کر سکتے ہو۔،، توانہوں نے اپنی یکجائی مطلقہ ثلاثہ بیوی سے رجوع کر لیا۔

قال احمد شاکر اسنادہ صحیح ورواہ ایضا فی المختار کما نقله ابن القیم فی اغاثة الفھان ص158 ورواہ ابو یعلی والبیھقی ۔مسند احمد مع تعلیق احمد شاکر ج4 ص132 وقال الشیخ الاسلام الحافظ بن حجر اخرجه احمد وابو یعلی وصححه من طریق محمد بن اسحاق وھذا الحدیث نص فی المسئلة لا یقبل التاویل الذی فی غیر ہ من الروایات الاتی ذکرھا فتح الباری ج9ص 312 وطبع جدید ص 362 وقال لامام المحقق المدقق الشوکانی اخر جه احمد وابو یعلی وصححه والحدیث نص فی محل النزاع (نيل الأوطارج6ص1233)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص780

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ