سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(315) طلاق کی اقسام

  • 14415
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 12495

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

طلاق کی اقسام کو وضاحت سے بیان کردیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں طلاق کی تین قسمیں ہیں :

1۔رجعیہ:

جس میں عدت گزرنےسے پہلے طلاق دہندہ اپنے قول یا عمل سے طلاق واپس لے سکتاہے اور عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح کرکے اپنا گھر آباد رکھ سکتاہے اس میں حلالہ کی ہرگز ضرورت نہیں۔

2۔بائنہ :

جس میں مطلق (طلاق دینےوالا )عدت ختم ہونے کی بعد تجدید نکاح کر سکتاہے ۔

3۔مغلظہ :

اس میں مطلق حلالہ کے بغیر تجدید نکاح نہیں کرسکتا ۔

آج اس مجلس میں مو ضوع بحث یہی تیسری طلاق ہے ،اس لئے ہم اس پر ہی گفتگوکر یں۔واضح رہے کہ اسلام سے پہلے عورت کا وجود مظلومیت کا مجسمہ تھا۔یہ ذمہ داریوں کے باگراں کے نیچے دی چلی آرہی تھی ۔لیکن جہاں تک اس کے حقوق کاتعلق تھا کسی کوان کی پروا تک نہ تھی ۔طلاق کے بارے میں اسلام نے جو عادلانہ اصلاح اور قانون پیش کیا اور اس عادلانہ قانوں کی تطبیق جو دور رس اور خوشگوار نتائج بر آمد ہوئے ۔اگر انہی فرمودہ دین ہے ۔اس وقت بر صغیر ہندوستان کی اقوام کے نزدیک ایک دفعہ شادی ہوجانے کےبعد یہ رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا تھا۔اسی طرح مسیحت میں جو سارے مغرب پر چھائی ہوئی تھی ۔یہ تعلق اتنا مقدس تھا اس کو ختم کردینا گنا ہ عظیم تھا ۔چنانچہ متی ٰ کی انجیل میں ہے :’’جسے خدا نے جوڑ اسے آدمی جدا نہ کرے -،، (متی ٰ 2:19)اس کے برعکس عرب میں یہ دستور تھا کہ شوہر اپنی بیوی کو ان گنت طلاق دے سکتاتھا۔

امام المفسرین محمد بن جریر طبر ی ،ابن کثیر اور بہیقی ،سید احمد حسن وغیرہ مفسرین یہ تصریح فرماتے ہیں کہ شوہر جتنی دفعہ چاہتا اپنی بیوی کو طلاق دیتا ،کو ئی پابندی نہ تھی ۔اور ہر دفعہ  عدت گزرنے سے پہلے وہ رجوع کر سکتا تھا۔ایک دفعہ ایک انصاری صحابی نےاپنی بیوی کو دھکمی دی :لا اقربک ولا تجلس منی.کہ نہ تو میں تجھ سے مقاربت کروں گا اور نہ ہی تو نکاح کے بندھن سے آزاد ہو سکے گی ۔اس کی بیوی نے اس سے پوچھا یہ کیسے ؟ تو انصاری نے کہا :اطلقک حتی ٰ اذای دنی اجلک راجعتک ثم اطلقک فاذا دنا اجلک راجعتک .میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو میں رجوع کر لوں گا ،پھر طلاق دوں گا، پھر رجوع کرلوں گا ۔ھلم جرا۔وہ بے چاری اپنے تاریک مستقبل کاتصور کرکے کانپ گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی مظلومیت اور بے بسی کی فریاد کی تو اللہ تعالی  جو پڑا ہی رحیم وحکیم ہے نے آیت  (الطلاق مرتان )نازل فرمادی ۔جس نے عورت کے پیشتر مصائب کاخاتمہ کر دیا اور عائلی قوانین میں وہ تاریخی انقلابی مگر عادلانہ اصلاح فرمائی جس نےبڑےبڑے دانشمندوں ک ورطئہ حیرت میں ڈال دیا ۔شریعت اسلامیہ میں رشتہ ازدواج ایک مقد س رشتہ ہے ۔یہی وہ خشت اول ہے جس پر تمدن وعمران کاقصر تعمیر کیا جاتا ہے اور یہی وہ بنیادی اکائی ہے جس سے قومیں جنم لیتی ہیں ۔اس کا جتنا احترام کیا جائےکم ہے لیکن بسااوقات حالات  اتنے سنگین اور نا گفتہ بہ ہوجاتے ہیں کہ خاوند بیوی کاایک دوسرے کے ساتھ وابستہ رہنا شقاوت اور ہر دو خاندانوں میں بگاڑ اور خرابی کاباعث بن جاتاہے ۔مزاجوں میں اتنی دوری اور باہمی نفرت پیدا ہوجاتی ہے کہ ان نکاح کے بندھن میں جکڑے رکھنا دونوں کے لئے وبال جان اور سوہاں روح بن جاتاہے ۔ایسے حالات میں ان کے درمیان تفریق کر ادینا ہی فریقین اور ان کے دونوں خاندانوں کے لئے خیر وبرکت کاباعث اور رحمت کا موجب ہوتاہے ۔اس لئے اسلام نے ان ناگزیر حالات میں طلاق کی اجازت دی مگر ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کر دی کہ ((ان ابغض الحلال عند اللہ الطلاق ))(طلاق حلال توہے لیکن اس کا بلاوجہ استعمال اللہ تعالی ٰ کے نزدیک بہت ہی برا ہے )اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ طلاق دینے کا یہ  حکیمانہ طریقہ بھی سکھایا جس کے مطابق عمل کرنےسےاصلاح حال کا کوئی امکانی موقع ضائع نہیں جاتا ۔اس تمہید کے بعد اب وہ طر یقہ

﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٢٩﴾فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ...٢٣٠﴾...البقرۃ

’’طلاق دوبا رہے ،پھر معروف طریقہ پر روک لینا ہے یا پھر شائستگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں حلال نہیں کہ تم نے انہیں جودے  دیا ہے اس میں سے کچھ بھی لو۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ دونوں کواللہ کی حد میں قائم نہ رکھ سکنے کاڈر ہو۔اس لئے اگر تمہیں  خوف ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حد یں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے اس میں دونوں پر گناہ نہیں ۔یہ اللہ کی حدود ہیں ۔خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جولوگ اللہ کی حدوں سے تجاور کرےجائیں وہ ظالم ہیں ،پھر اگر اس کو طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوابسنے کے لئے کسی دوسر سے نکا ح نہ کرے پھر اگر وہ بھی بغیر کسی پیشگی معاہدہ کے طلاق دے دے توان دونوں کو میل جول کرلنیے میں کوئی گنا ہ نہیں ۔بشرطیکہ یہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے۔یہ اللہ تعالی کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والے کے بیان فرمارہا ہے۔،،ان آیات مقدسہ کو بغور پڑھیے اور منصفانہ جائزہ کیجیے ۔ان میں ایک بار یکبار گی تین طلاقوں کاحکم موجود نہیں ۔تین بار میں تین طلاق  دینے کاحکم ہے۔ جن میں سے پہلی دوبار کی طلاقیں قابل رجعت ہوں۔تین بار کی ان طلاقوں کے متعلق قرآن مجید میں یہ حکم ہے کہ ایسی مطلقہ عورتیں طلاق دینے والے کے لئے حرام ہیں الا یہ کہ اس کا نکاح کسی اور مرد سے ہوجائے ،پھر وہ بھی کسی پیشگی شرط کے بغیر اپنے طور پر کسی وجہ سے اسے طلاق دےدے۔اس صورت میں وہ دونوں پھر سےنکاح کرکے آباد ہوسکتےہیں ۔

یکجائی تین طلاق کے قائلین کہہ سکتے ہیں کہ آیت الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ میں نہ ایک مجلس کاذکر ہے ،نہ تین مجلسوں کا ،نہ ایک طہر کاذکر ہےاور نہ تین طہروں کا ۔ بس تین طلاق دینے کا تذکرہ ہے ۔آیات عام ہیں ۔تین طلاق جب بھی اور جس طرح بھی دی جائیں گی طلاق مغلظہ بائنہ پڑ جائے گی ۔جوابا گزارش ہے کہ قرآن مجید میں تین بار طلاق دینے کا ذکر ہے۔جن میں سے دوبار کی طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہےنہ کہ ایک بار میں طلاق دینے کا حکم ۔کم ازکم قرآن مجید کے ظاہر الفاظ کا اقتضاء تو یہی ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص766

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ