سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(284) نکاح مفقود الخبر کاحکم

  • 14409
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1389

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض ہے کہ میرے خاوند کو عرصہ 8سال سے غائب ہے وہ نشہ کرتا تھا اس کو کوئی پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے اس کےوارثوں سے بھی پتہ کروایا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس کا کوئی پتہ نہیں ۔میرے 3 چھوٹے بچے ہیں ۔بچوں کی پرورش کا مسئلہ ہے اس لئے میں نکاح کرنا چاہتی ہوں ۔لہذا مجھے شرعی فتوی چاہیے ۔(سائلہ :شمیم اختر دختر بشیر احمد بٹ بھٹوکالونی گلی نمبر 8کوارٹراے جوئیا نوالہ موڑ ضلع شیخوپورہ بذریعہ محمد الیاس بشیر احمد مذکور )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں واضح ہو کہ عورت نہ تو خود اپنا نکاح کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے۔جبکہ صحت کے لئے ولی مرشد کی اجازت از بس ضروری ہے۔صحیح بخاری میں باب ہے :

بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا}  وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} .ج 2ص769)

کہ اس بات کا بیان کہ جو شخص نکاح کی صحت کےولی کی اجازت کو ضروری سمجھتا ہے وہ قرآن مجید کی اس آیت سے دلیل لیتا ہے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ عدت پوری کرلیں تو ان کو نکاح سے نہ روکو۔ یعنی اگر ولی کو کوئی اختیار ہی نہیں تو پھر اللہ تعالی ٰ نے ولیوں کو یہ حکم کیوں دیا ہے ،لہذا ماننا پڑتا ہے کہ ولی کو حق ولایت حاصل ہے ،عورت خواہ شوہر دیدہ ہو یا کنواری ہو ۔اور اسی طرح آیت َلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ اور   وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى           میں بھی عورتوں کے لیے ولیوں کو حکم خطاب کیا گیا ہے ۔لہذا ان تینوں نصوص سے واضح نکاح کے لئے ولی مرشد کی اجازت نا گزیر ہے ۔ورنہ ان تینوں آیات میں ولیوں کو خطاب کا کوئی معنی نہیں اور کلام الہی عبث قرار پاتی ہے حاشا وکلا

حضرت ابو موسیٰ اشعری ﷜ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا ۔یہ حدیث صحیح ہے ۔اور جمہور علماء امت کے نزدیک صحت نکاح کے لئے ولی کا اجازت ضروری ہے ورنہ نکاح صحیح نہیں ہوگا۔

3۔ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ كَانَ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا۔)اخرجه الاربعة الا النسائی وصححه ابو عونه ابن حبان والحاکم قال ابن کثیر ہ وصححه یحی بن معین وغیرہ متی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلےتو اس کا نکاح باطل رہے اور دخول پروہ عورت اپنے اس شوہر سے مہر حاصل کرے گی۔

4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، رواہ ابن ماجة والدار قطنی ورجاله ثقات ۔سیل السلام ج3ص120

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ کوئی عورت کسی عورت کانکاح نہ کرے اور نہ ازخود اپنا نکاح کرے ۔یعنی عورت ولی نکاح نہیں بن سکتی ۔

امام محمد بن اسماعیل الامیر الایمانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔

فیه دلیل علی ان لمراة لیس لھا ولایة فی الانکاح لنفسھا ولا لغیر ھا فلا عبارة لھا فی النکاح ایجابا ولا قبولا ولا تزوج نفسھا باذن الولی ولاغیرہ ولا غیرھا بولایة (سبل السلام ج3ص120.)

کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہےکہ عورت کو حق ولایت حاصل نہیں ۔لہذا نہ وہ اپنا ولی بن سکتی ہے اور نہ کسی اور عورت کا ولی نکاح بن سکتی ہے ۔یعنی نہ اپنا از خود نکاح کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا ولی بن کر نکاح کر اسکتی ہے ۔لہذا ای کی ولایت میں کیا گیا نکاح ناقابل اعتبار ہے۔لہذا بشرط صحت سوال مسمات نذیراں بی بی دختر غلام قادر ساکن 14 آڑ کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔کہ باپ ولی اقرب کی اجازت نہیں تھی ۔اور نہ باپ کا اس کو علم ہی تھا ،پھر نذیراں کی پھوپھی کا یہ اقدام سراسر خلاف شریعت ہے ،مفتی کی قانونی سقم کی ذمہ دار ہوگا۔عدالت محاز سے توثیق ضروری  -

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص754

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ