سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(282) صحت نکاح کےلئے لڑکی کی رضا مندی شرعاً ضروری ہے

  • 14382
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1319

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا صحت نکاح کےلئے  لڑکی کی رضا مندی شرعاً ضروری ہے ؟(سائل :امتہ العزیز بنت محمد حسین بلوچ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس لڑکی کا نکاح کرنا ہو اس کی اجازت اور رضا مندی ضروری ہے  ۔بلا اجازت اور رضا مندی کے  اگر نکاح کر دیا تو نکاح نہیں ہوگا

(أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، حَدَّثَهُمْ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ» (۱: بخاری ج۲ص ۷۷۱باب لا ینکح الا ب وغیرہ البکر والثیب الابرضا ھا۔)

بے خاوند والی عورت کا نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے صاف صاف دریافت کر لیا جائےاور کنواری کا نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے اجازت لی جائےلوگوں نے کہا وہ شرم سے بات نہیں کرے گی اس کی اجازت کیسے معلوم ہوگی آپ نے فرمایا اس کا چپ رہنا ہی اجازت ہے۔

(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اليَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِهَا، فَإِنْ صَمَتَتْ فَهُوَ إِذْنُهَا، وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْهَا»، يَعْنِي: إِذَا أَدْرَكَتْ فَرَدَّتْ. وَفِي البَاب عَنْ أَبِي مُوسَى، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ.: -[410]- «حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ»،)(۲: اخرجه الخمسة الاابن ماجة و اخرجه ایضا ابن حبان و الحاکم)

2 : باب مَا جاء فی اکراہ الیتیمة عَلی التزویج۔(۳: تحفة الاحوذی ج۲ ص۱۸۱ )

کنواری لڑکی سے اس کے نکاح کے بارے میں دریافت کر لینا چاہیے ۔اگر وہ خاموش رہے تو یہی اس کی اجازت ہے۔ اگر انکار کردے تو زبردستی نکاح جائز نہیں۔

(عَنْ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِذَامٍ الأَنْصَارِيَّةِ: أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ «فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِكَاحَهَا» (۴: صحیح  بخاری باب اذا زوج ابنته و ھی کارھة فنکاحھامردود ج۲ص ۷۷۱ )

۴: عبداللہ بن عباس سے رویت ہے کہ :

(أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ «أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».) (۱: ابو داؤد باب فی البکر یذوجھا ابو ھا ولا یستأ مرھا ج۱ص۲۸۵)

ان احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ لڑکی کی اجازت شرعاً ضروری ہے ورنہ یک طرفہ نکاح صحیح نہ ہوگا

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص715

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ