سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(270) لڑکی کی اجازت کے بغیر نکاح پڑھنا

  • 14370
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1181

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان دین شرع متین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں  کہ مسمی نور محمد ولد محمد خاں قوم مسلم شیخ سکنہ مکھن پورہ  نزد سوئے وانیکسول لاہور شہر خدا کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ نور محمد قوم مسلم شیخ ساکن واہلہ تحصیل و ضلع شیخوپورہ نے آج سے چار ماہ قبل مجھ سے چوری میری حقیقی دختر مسماۃ ریحانہ کا نکاح اپنے لڑکے محمد الیاس کے ساتھ کر دیا تھا یعنی میری اور میری لڑکی کی اجازت کے بغیر  پڑھا گیا نکاح ازروئے شریعت جائز ہے کہ نہیں ؟فرمان رسول کے مطابق جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں کذب بیانی ہوگی تو سائل خود ذماہ دار ہوگا (سائل نور محمد )

تصدیق :ہم سوال کی حرف بہ حرف حلفاً    تصدیق کرتے ہیں کہ سوال صداقت پر مبنی ہے اگر کسی وقت غلط ثابت ہوجائے تو اس کے ذمہ دار ہوں گے ۔لہٰذا  شرعی فتویٰ جاری فرمایا جائے ۔

۱: غوث ولد عبداللہ قوم شیخ ساکن مکھن پورہ لاہور ۔

۲ : محمد ولد احمد دین قومسلم شیخ مکھن پورہ لاہور۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال و بشرط صحت و صدق گواہان مذکورہ مسمی غوث ولد عبداللہ مسلم  شیخ و محمد ولد احمد دین مسلم شیخ صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوا کیونکہ صحت نکاح کے لئے شرعی  ولی (باپ وغیرہ ) کی اجازت از بس ضروری ہے ، ورنہ نکاح صحیح نہیں ہوتا ۔چنانچہ صحیح بخاری میں  ہے ۔:

(بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32])(صحیح البخاری:ج2ص769)

”اس بات کا بیان کہ جو شخص نکاح کےلئے شرعی ولی کی اجازت کو ضروری خیال کرتا ہے ، وہ قرآن  مجید  کی ان آیات سے استدلال کرتاہے “جب تم عورتوں کو طلاق دے بیٹھو اور عدت پوری کرلیں تو ان کو نکاح سے نہ روکو “

معلوم ہوا کہ شرعاً ولی کی اجازت ضروری ہے ، اگر ولی کو اختیار نہ تھا تو پھر اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو یہ حکم کیوں  دیا لہٰذا ماننا پڑے گا کہ ولی کو حق ولایت بہرحال حاصل ہے عورت ، خواہ شوہر دیدہ ہو یا کنواری ہو ۔اب احادیث ملاحظہ فرمائیے :

(عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ»رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْمَدِينِيِّ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ. وَأُعِلَّ بِالْإِرْسَالِ - وَرَوَى الْإِمَامُ أَحْمَدُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ مَرْفُوعًا «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ » . (سبل السلام : ج۳ ص۱۱۷)

”حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  شرعی ولی کی اجازت کے بغیر شرعاًنکاح صحیح قرار نہیں پاتا“

اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ اس کو امام احمد ،ابوداؤد ، ترمذی نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔امام علی بن مدینی، امام ترمذی ، امام بیہقی  اور دیگر متعدد حفاظ حدیث نے اس کو صحیح قرار دیاہےحافظ ابن  حجر نے اس کو مرسل قرار دیا ہے ۔اور امام حاکم کے مطابق  ازدواج مطہرات  سمیت تیس صحابہ سے یہ حدیث منقول ہے اور ان احادیث کی وجہ سے جمہور علمائے امت کے نزدیک نکاح کی صحت کے لئے شرعی ولی  کی اجازت ناگزیر ہے ،ورنہ نکاح  صحیح نہیں ہوگا۔

 وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا،)أَخْرَجَهُ الْأَرْبَعَةُ إلَّا النَّسَائِيّ، وَصَحَّحَهُ أَبُو عَوَانَةَ،، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ قَالَ ابْنُ كَثِيرٍ، وَصَحَّحَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَغَيْرُهُ مِنْ الْحُفَّاظِ  (سبل السلا م :ج۳ ص ۱۱۸ )

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت اپنےولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا یہ نکاح باطل ہوگا اور دخول کی صورت میں وہ عورت اپنے  غیر شرعی شوہر سے مہر وصول کرے گی “

(عن أ  َبِي هُرَيْرَةَ «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا»  )(رواہ ابن ماجة  والدارقطنی ورجله ثفات۔(سبل السلام :ج۳ ص۱۲۰)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی عورت کسی دوسری عورت کی ولی بن کر نکاح نہ کرے اور نہ اپنا نکاح خود کرے ۔“یعنی اپنے نکاح کی بھی ولی نہیں بن سکتی ۔امام محمد بن اسماعیل الامیر ارقام فرماتے ہیں:

(فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَ لَهَا وِلَايَةٌ فِي الْإِنْكَاحِ لِنَفْسِهَا، وَلَا لِغَيْرِهَا فَلَا عِبْرَةَ لَهَا فِي النِّكَاحِ إيجَابًا، وَلَا قَبُولًا فَلَا  تُزَوِّجُ نَفْسَهَا بِإِذْنِ الْوَلِيِّ، وَلَا غَيْرِهِ... وَلَا تَقْبَلُ النِّكَاحَ بِوِلَايَةٍ) ۔(سبل السلام :ج۳ ص۱۲۰)

۵: امام ابن رشد قرطبی لکھتے  ہیں:

(اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ هَلِ الْوِلَايَةُ شَرْطٌ مِنْ شُرُوطِ صِحَّةِ النِّكَاحِ؟ أَمْ لَيْسَتْ بِشَرْطٍ؟ فَذَهَبَ مَالِكٌ إِلَى أَنَّهُ لَا يَكُونُ النِّكَاحُ إِلَّا بِوَلِيٍّ، وَأَنَّهَا شَرْطٌ فِي الصِّحَّةِ فِي رِوَايَةِ أَشْهَبَ عَنْهُ، وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ.) (۲: بدیةالمجتہد :ج۴ ص ۶،۷)

ان دونوں عبارتوں کا مطلب یہ ہے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتااور کوئی عورت اپنے ولی  کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کرسکتی اور کسی دوسری عورت کی ولی اور وکیل نہیں بن سکتی ۔امام مالک رحمتہ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک صحت نکاح  کے لئے ولی کی اجازت شرط ہے اور شرط نہ ہونے کی صورت میں مشروط بھی نہیں ہوتا ۔اِذا فَاتَ الشرطُ فَاتَ  المَشرُوطُ۔ چونکہ یہ  نکاح خط کشیدہ تصریح  کے مطابق باپ کی اجازت کے بغیر پڑھا گیا ہے ۔ لہٰذا یہ نکاح شرعاً باطل ہے ۔

فیصلہ:چونکہ صورت مسئولہ  میں بشرط صحت سوال و  بشرط صحت واقعہ مسماۃ ریحانہ دختر نور محمد کا نکاح اس کے والد کی اجازت کے بغیر پڑھا گیا ہے ، لہٰذا یہ نکاح شرعاً باطل ہے ۔ دلائل اوپر ذکر ہو چکے ، لہٰذا اسے کالعدم سمجھا جائے ، تاہم عدالت مجاز واقعہ کی باضابطہ کاروائی کے بعد اسے کالعدم قرار دے۔ یا علی الاقل ، پنچائت وہ یعنی گاؤں  والوں کے ساتھ چھان بین کر کے  اس نکاح کو ختم کردے ۔ مفتی کسی قانونی سقم اور عدالتی کھکھیڑ کا ہر گز ذمہ دار نہ ہوگا۔ یہ صرف بشرط صحت سوال شرعی فتویٰ ہے 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص688

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ