سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(269) باپ،والدہ اور بھائی کے بغیر لڑکی کا نکاح پڑھوانا

  • 14369
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2101

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمی بابل ولد بہاول قوم انصاری چک نمبر ۸۱موضع چوہے جھاڑ تحصیل و ضلع شیخو پورہ کا رہائشی ہوں مجھے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا مقصود ہے جو  ذیل عرض ہے۔

یہ کہ میری حقیقی   دختر مسمات آمنہ بی بی کا نکاح باپ،والدہ اور بھائی کے بغیر ہوا  جبکہ مسمات آمنہ بی بی پھوپھی کو ملنے گئی تو مسمات مذکورہ کو ورغلا کر نکاح کردیا اس نکاح کو 4 ماہ کا عرصہ ہو چکاہے اور نکاح کے بعد مسمات مذکورہ اپنے خاوند محمد علی ولد شما قوم انصاری موضع تابیلے والی تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ کے ہاں آباد نہیں ہوئی ہے صر ف شرعاً نکاح ہی کیا ہے اور نہ مسمات مذکورہ کے والدین کو اس نکاح کاعلم تھا اب مسمات مذکورہ اپنے خاوند کے ہاں نہ ہی آباد ہونے کو تیار ہے اب مسمات  آمنہ بی بی کے والدین سخت پریشان ہیں  ، ان حالات میں اب سوال ہے کہ بغیر والدین کی رضا مندی کے نکاح ہو سکتا ہے یا کہ نہیں اور مسمات مذکورہ اب نکاح جدید کی حق دار ہے کہ نہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں ۔کذب بیانی کا سائل خود ذمہ دار ہوگا۔  ہم  تصدیق کنندگان اس کے ذمہ دار ہوں گے ۔ لہٰذا ہمیں شرعی فتویٰ دیا  جانامناسب ہے ۔

۱: محمد اصغر ولد امیر چک نمبر ۸۱موضع چوہے جھاڑ تحصیل و ضلع شیخو پورہ ۔

۲: قابے خاں ولد شاہ محمد قوم چک نمبر ۸۱موضع چوہے جھاڑ تحصیل و ضلع شیخو پورہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال و بشرط صحت تحریر ھٰذا صورت مسئولہ میں شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوا کہ شرعاً   کوئی نہ اپنا نکاح خود کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کی شرعاً ولی بن سکتی ہے جبکہ صحت نکاح کے لئے ولی مرشد کی اجازت از بس ضروری ہے ۔چنانچہ صحیح بخاری میں ہے :

(بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32] (صحیح بخاری :ج۲: ص ۸۶۹ )

اس  بات کا بیان کہ جو شخص نکاح کی صحت کےلئے شرعی ولی کی اجازت کو ضروری خیال کرتا ہے وہ قرآن مجید کی اس آیت سے دلیل لیتا ہے کہ تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ عدت پوری کر لیں تو ان کو  نکاح سے نہ روکو ۔ یعنی اگر ولی کو کوئی اختیار ہی نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو یہ حکم کیوں دیا ہے  لہٰذا  مانناپڑتا ہے کہ ولی کو  حق ولایت بہرحال حاصل ہے ۔ عورت خواہ شوہر دیدہ ہو یا کنواری ہو اور اسی طرح آیت  لَا تَنکِحوُالمُشرِکینَ اور اَنکِحُوا الَایَامیٰ میں بھی عورتوں کے لئے ولیوں کو خطاب کیا گیا ہے ، لہٰذا ان تینوں نصوص سے ثابت ہوا کہ صحت نکاح کے لیے ولی مرشد کی اجازت ناگزیر ہے ۔ ورنہ ان تینوں آیات میں ولیوں کو خطاب کا کوئی معنی باقی نہیں رہ جاتا  اور یوں کلام الہٰی عبث قرار پاتی ہے ۔ حاشا وکلا۔اب احادیث ملاحظہ فرمائیے :

(عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ»رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْمَدِينِيِّ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ. وَأُعِلَّ بِالْإِرْسَالِ - وَرَوَى الْإِمَامُ أَحْمَدُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ مَرْفُوعًا «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ » . (سبل السلام : ج۳ ص۱۱۷)

”حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شرعی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح قرار نہیں پاتا “اور یہ حدیث صحیح ہے۔ اس کو امام احمد ، ابوداؤد ، ترمذی نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ امام علی بن مدینی اور ترمذی اور بیہقی اور متعدد حفاظ حدیث نے صحیح قرار دیا ہے تاہم حافظ ابن حجر نے اس کو  مرسل حدیث قرار دیا ہے اورامام حاکم کے مطابق امہات المومنین ،حضرت عائشہ ام سلمہ اور سلمہ اور زینب بنت حجش رضی اللہ عنہما سے بھی اس بارے میں صحیح احادیث مروی ہیں اور  اسی طرح اس مسئلہ میں حضرت علی ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ تیس صحابہ  سے بھی احادیث منقول ہیں  اور ان احادیث کی وجہ  سے جمہور علمائے امت کے نزدیک صحت نکاح کے لئے ولی کی اجازت ضروری ہے ، ورنہ نکاح صحیح نہیں ہوتا۔

(وَعَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ» أَخْرَجَهُ الْأَرْبَعَةُ إلَّا النَّسَائِيّ وَصَحَّحَهُ أَبُو عَوَانَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ) قَالَ ابْنُ كَثِيرٍ، وَصَحَّحَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَغَيْرُهُ مِنْ الْحُفَّاظِ) (سبل السلام:ج۳ ص ۱۱۸ )

”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا کہ جو عورت اپنےولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کانکاح باطل ہے اور دخول کی صورت میں وہ عورت اپنے اسی غیر شرعی شوہر سے مہر حاصل کرے گی “

(وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا»)( رواہ ابن ماجه والدار قطنی و رجاله ثقات ءسبل السلام : ج ۳ص ۱۲)

”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی عورت کسی دوسری عورت  کا نکاح نہ کرے اور نہ از خود اپنے نکاح  کی ولی بنے ۔ یعنی عورت ولی نکاح نہیں ہو سکتی ۔

امام محمد بن اسماعیل الامیر اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں :

(فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَ لَهَا وِلَايَةٌ فِي الْإِنْكَاحِ لِنَفْسِهَا، وَلَا لِغَيْرِهَا فَلَا عِبْرَةَ لَهَا فِي النِّكَاحِ إيجَابًا، وَلَا قَبُولًا فَلَاتُزَوِّجُ نَفْسَهَا بِإِذْنِ الْوَلِيِّ، وَلَا غَيْرِهِ، وَلَا تُزَوِّجُ غَيْرَهَا بِوِلَايَةٍ وَلَا بِوَكَالَةٍ، وَلَا تَقْبَلُ النِّكَاحَ بِوِلَايَةٍ وَلَا وَكَالَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ الْجُمْهُورِ ) (سبل السلام ج۳ ص ۱۲۰ )

یعنی یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو حق ولایت حاصل نہیں ، لہٰذا وہ نہ اپنی ذات کے لئے ولی بن سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کے نکاح کی ولی بن سکتی ہے ،یعنی از خود نہ اپنا نکاح کر سکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے اس لئے اس کی زیرولایت کیا گیا نکاح نا قابل اعتبار ہے ۔

چونکہ صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال  مسمات آمنہ بی بی بنت بہاول انصاری کا نکاح باپ کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی غیر موجودگی میں پڑھا گیا ہے ۔ لہٰذا مذکورہ بالا آیات مقدسہ اور احادیث  صحیحہ کے مطابق یہ نکاح شرعاًً باطل ہے ، کیونکہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا کہ شرعی ولی ، یعنی باپ کی اجازت کے بغیر پڑھا گیا ہے اور جب یہ نکاح  با طل ہے تو پھر وہ آزاد ہے اور اپنے شرعی ولی کی اجازت کے ساتھ اور اس کے زیر اہتمام جہاں چاہے نکاح کر لینے کی حقدارہے مگر استبراء رحم ضروری ہے تاکہ پتہ چلے کہ حاملہ نہیں ۔ اگر حاملہ ہو تو پھر وضع حمل سے قبل نکاح صحیح نہیں  ہاں اگر یہ نکاح رجسٹرڈ ہو چکا ہے تو پھت اپنے فیصلے کی تکمیل میں علاقہ کے چیئر مین کو اعتماد میں  لینا ضروری ہے تاکہ قانونی سقم پیدا نہ ہو ۔ مفتی کسی قانونی سقم کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا۔ھذاماعندی واللہ تعالیٰ  اعلم بالصواب و الیہ المر جع والمآب فی یوم الحساب۔

لَا نِکاحََ اِلَا بِوَلِی :

اس جگہ تنظیم اہل حدیث مضمون لگے گا قسط نمبر ۱۔ درجہ ذیل قسط ۳ہے

(عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ،)(رواہ الخمسة   الالنسائی ، نیل الاوطار باب لا نکاح الا بولی ج۶ص۱۱۸ )

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا ، وہ نکاح باطل ہے ، وہ  نکاح باطل ہے ۔اگر میاں بیوی ازدواجی عمل کر چکے ہوں تو اس صورت میں عورت کو حق مہر ملے گا ۔ اگر اولیائے نکاح کا آپس میں اختلاف ہو تو پھر سلطان وقت (علاقے کا مجاز افسر ) اس کا ولی ہوگا جس کا کوئی ولی نہ ہو ۔

(وَقَدْ صَحَّ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَنْكَحَتْ رَجُلًا مِنْ بَنِي أَخِيهَا فَضَرَبَتْ بَيْنَهُمْ بِسِتْرٍ ثُمَّ تَكَلَّمَتْ حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ إِلَّا الْعَقْدُ أَمَرَتْ رَجُلًا فَأَنْكَحَ ثُمَّ قَالَتْ لَيْسَ إِلَى النِّسَاءِ نِكَاحٌ) (اخرجہ ، عبدالرزاق  فتح الباری ج ۹ص ۱۵۲ )

”حضرت عائشہ سے صحیح طور ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے ایک بھتیجے کے نکاح کاپروگرام بنایا او رپردے میں بیٹھ کر بات چیت طے کی اور جب عقدپڑھنے کا موقع آیا تو ایک آدمی کو نکاح  کر ادینے کا حکم دیا تو اس نے نکاح کردیا ، بعد ازاں فرمایا کہ عورتوں کو نکاح کرنے کا کوئی حق ، اختیار حاصل نہیں۔

(عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا»)( رواہ ابن ماجة  والدارقطنی ورجاله ثقات، سبل السلام ج۳ ص۱۱۹ ،۱۲۰ وقال الشیخ ناصر البانی صحیح اخرجه ابن ماجة،والدارقطنی والبیہقی ،ارواءالخلیل ج۶ص ۲۴۸)

”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے اورنہ خود اپنا نکاح  کرے۔

(وَقَدْ صَحَّتْ الرِّوَايَةُ فِيهِ عَنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، ثُمَّ سَرَدَ تَمَامَ ثَلَاثِينَ صَحَابِيًّا والحديث دلّ على أنه لا يصح  النكاح الا بولي ألاصل فى النفى نفى الصحة) (سبل السلام :ج۳ص ۱۱۷ ،ونیل الاوطار:ج۶ص ۱۱۹ )

اس باب میں  ازدواج مطہرات عائشہ ، ام سلمہ ، زینب بنت  حجش ، علی ، ابن عباس رضی اللہ عنہم  سے روایت  سے بھی احادیث مروی ہیں ۔ پھت امام حاکم نے ایسے تیس صحابہ گنوائے ہیں جن سے حدیث  لانکاح مروی ہے اور لا نکاح الا بولی میں لا نفی صحت ہے ، لانفی کمال نہیں کیونکہ نفی سے مراد در اصل صحت کی نفی ہوتی ہے ، یعنی کلی طور پر نکاح کی نفی مراد ہے۔

(عن ابن المنذر أنه لا يعرف عن أحد من الصحابة  خلاف ذلك و عليه دلت الأحاديث) (: فتح الباری :ج۹ ص۱۰۴، و سبل السلا م: ج۳ص۱۱۷)

یعنی امام ابن منذر تصریح فرماتے ہیں کہ کوئی ایسا صحابی نہیں جو نکاح میں ولی کی اجازت کو لازمی شرط نہ سمجھتا ہو ۔یعنی بدون اذلی ولی نکاح کا قائل ہو ۔ باالفاظ دیگر صحابہ کرام میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں اور مذکورہ بالا احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ اسی پر دلالت کرتی ہیں ۔

امام شوکانی رحمتہ اللہ علیہ تصریح فرماتے ہیں :

(وقد ذهب إلى هذا علي وعمر ---وجمهور اهل العلم فقالوا  لا يصح  العقد بدون ولي) (۴:نیل الاوطار :ج۶:ص۱۱۹ )

حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ عنہ ،ابن عمر رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، عائشہ رضی اللہ عنہا، حسن بصری ،سعید بن مسیب ،ابن شبرمہ ، ابن ابی لیلیٰ ، عترت ، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، شافعی اور جمہور اہل علم رحمتہ اللہ علیہم  اسی طرف گئے ہیں اور کہا ہے کہ ولی کی رضا مندی اور اجازت کے بغیر نکاح  ہی نہیں ہوتا۔

محقق سید محمد سابق کے مطابق امام مالک ، قاضی شریح، ابراہیم نخعی ،عمر بن عبدالعزیز ، سفیان ثوری ، اوزاعی ، عبداللہ بن مبارک ،ابن حزم  طبری اور ابو ثور کا بھی یہی مذہب اور فتویٰ ہے ۔(۵: فقہ السنۃ:ج۲ ص۱۱۳ )

حضرت شاہ ولی اللہ رائے سامی :

آپ اسلام کے نامور فلاسفر احکام شریعت کے اسرار و رموز کے بڑے شنادر  اور غواض  فرماتےہیں  کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :( لا نکاح الا بولی ) جان لو کہ خصو صاً نکاح میں عورتوں کو حکم (با اختیار اتھارٹی ٰ) سمجھ لینا روا نہیں کیونکہ عورتیں ناقصات العقل ہوتی ہیں اور ان کی فکر ناقص ہوتی ہے اس لئے بسا اوقات مصلحت کی طرف ان کی رہبری نہ ہو سکےگی  دوسرے غالباً وہ حسب کی حفاظت نہ کریں گی اور بسا اوقات غیر کفو کی طرف ان کی طرف ان کی رغبت ہوسکتی ہے اور اس میں ان کی قوم کی عار ہے ۔پس ضروری ہوا کہ ولی کو اس باب میں دخل دیا جائے تاکہ یہ مفسدہ بند ہو نیز ضرورت جبلی کے اعتبار سے لوگوں میں عام طریقہ یہ ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہوتے ہیں اور تمام بندوبست انہی  سے متعلق ہوتا ہے جیسا کہ (الرجال قوامون )تو امرن علی النساء میں یہ وضاحت موجود ہے ۔نیز نکاح کے اندر ولی کی شرط لگانے میں اولیا کی عزت ہے اور عورتوں کو اپنا نکاح خود بخود کرنے میں ان کی بے عزتی ہے جس کا دارومدار بے حیائی پر ہے اور اولیاء کی  مخالفت اور ان کی بےقدری ہے ۔نیز یہ بات بھی واجبات سے ہے کہ نکاح اور زنا میں شہرت کے ساتھ امتیاز ہو اور شہرت کی بہتر صورت یہ ہے کہ عورت کے اولیا نکاح میں موجود ہوں ۔(حجۃاللہ عربی :ج۲ص۱۲۷ اور مترجم اردو نکاح کا بیان ص ۵۱۵)

خلاصہ کلام یہ کہ قرآن  مجید ، احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سلف صالحین ، یعنی جملہ صحابہ کرام ،فقہاء تابعین ، حضرت امام بخاری و دیگر فقہاء و محدثین ، ائمہ  مذاہب اور جمہور علمائے  اسلام کی تصریحات کے مطابق ہمارے ان فاضل ججوں کا یہ فیصلہ اسلام کے عائلی نظام کے سراسر منافی ہے اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی توہین پر مشتمل ہے اس فیصلہ کو بحال رکھنا اسلامی معاشرہ کی بنیادوں کو ڈھا دینے کے مترادف ہے ۔لہٰذا ایسے قانون کی اصلاح  نہایت ضروری ہے جس کی کوکھ سے اس قسم کے غیر اسلامی غیر اخلاقی اور غیر عقلی فیصلے جنم لیتے ہیں ورنہ

غیرت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے  ۔۔ والی بات ہے ۔

ولی کے اوصاف:

اب رہا یہ سوال کہ بالغہ عاقلہ باکرہ ہو یا ثیبہ اپنے ازدواجی مستقبل کے بارے میں مجبور محض اور بے بس ہے اور شریعت نے  اس کی پسند عدم پسند اور اس کے جذبات کو کوئی اہمیت نہیں دی تو اس سوال کا جواب ہے کہ جہاں شریعت نے نکاح کے شرعی انعقاد کے لئے ولی کی اجازت شرط بنیادی قرار دی ہے وہاں یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ ولی نکاح لڑکی کے حق میں مخلص ، مشفق ، خیر خواہ اور خیر سگالی کے جذبہ سے سر شار ہو یعنی لڑکی کی رضا مندی ،مفاد اور اس نیک اور معقول جذبات کودرخور اعتناء رکھنے والا ہو ۔ لڑکی پر ظلم وجبرکرنے والا نہ ہو اور اس کے معقول مشورہ کو اپنی جھوٹی انا کی بھینٹ چڑھانے والا نہ ہو غرض کہ ہر طرح کی خود غرضی مفاد پرستی اوربے جادھونس سے کام لینے والا نہ ہو اگرچہ ولی نکاح ان کے اوصاف سے عاری ہوگا تو شریعت میں ایسے ولی کو ولی عاذل (غیر مشفق ) کہا جاتا ہے اوریہ حق ولایت سے محروم قرار پاتاہے ۔ہماری  اس رائے کی بنیاد حسب ذیل صحیح اور حسن احادیث ہیں:

 (عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، حَدَّثَهُمْ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ»

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا اس وقت تک نکاح نہ پڑھا جائے جب تک اس سے مشورہ نہ کیا  جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح تب نہ تک نہ کیا جائے جب تک اس سے اجازت نہ لی جائے۔صحابہ نے پوچھا کہ اذن کی کیاصورت ہے ؟ فرمایا اس کا خاموش رہنا ہی اذن ہے“

(عن ابن عباس قال لا نكاح إلا بولي مرشد ز شاهدى عدل)

(رواہ البیہقی واشافعی ، نیل الاوطار :باب الشھادۃ فی النکاح ج۶ ص۱۲۶ )

”کہ ہدایت یافتہ اور دو عادل گواہوں کی گواہی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا“

(عن ابن عباس قال لا نكاح إلا بولي مرشد ز شاهدى عدل)(رواہ الطبرانی فی الاوسط عن سفیان لا نکاح  إلا بولى مرشد أو سلطان )

”دو عادل گواہوں اور خیر خواہ  ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اور سفیان کی روایت کے مطابق خیرخواہ ولی یا پھر سلطان کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

خلاصہ :

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس طرح شرعی نکاح کے انعقاد کے لئے ولی کی اجازت بنیادی شرط ہے اسی طرح لڑکی کے بلا جبررضا مندی بھی لازمی شرط ہے ۔ یعنی فریقین (لڑکی اور اس کا ولی ) دونوں شرعاً پابند ہیں کہ باہمی افہام و تفہیم اور اتفاق رائےسے چلیں اور ایک دوسرے کے جائز مفادات اور جذبات کا پاس رکھ کر پیش رفت کریں ۔ ورنہ کسی ایک فریق کی یک طرفہ دھونس  اور ہٹ دھرمی کے ساتھ پڑھا گیا نکاح شرعی  نکاح ہرگز نہ ہوگا ۔

فقہائے مذاہب کی تصریحات:

امام ابن قدامہ حنبلی رقمطراز ہیں :

(أَحَقُّ النَّاسِ بِنِكَاحِ الْمَرْأَةِ الْحُرَّةِ أَبُوهَا) وَلَا وِلَايَةَ لَأَحَدٍ مَعَهُ. وَبِهَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ. وَهُوَ الْمَشْهُورُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ؛)

والد کے ہوتے ہوئے کسی بھی شخص کو کسی آزاد عورت کا نکاح کا ولی بننے کا حق نہیں  امام  شافعی اور ایک مشہور قول کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب اور فتویٰ ہے تاہم امام مالک اور ایک دوسرے قول  کے مطابق امام  کے نزدیک والد کےمقابلہ میں بیٹا ولی اقرب ہے

صاحب المقنع لکھتے ہیں :

(أَحَقُّ النَّاسِ بِنِكَاحِ الْمَرْأَةِ الْحُرَّةِ أَبُوهَاثم ابوه  وإن علا ثم ابنها وإن نزل) (: کتاب المقنع ج ۲ص ۱۹ )

”آزاد عورت کے نکاح کی ولایت کا تمام لوگوں سے زیادہ حق دار والد ہے پھر اس کا دادا ،پردادا ور پھر بیٹا اور پوتا وغیرہ“

الشیخ محمد الشربنیی شافعی تصریح فرماتے ہیں :

(أحق الأولياءأب ثم جدتم  أبوه  ثم الأخ لأبوين أو لأب ثم إبنها  وإن سفل) (: مغنی المحتاج : ج۳ ص۱۵۱ )

”تمام ولیوں کے مقابلہ میں عورت کا والد سب سے زیادہ  حق دار ہے ،پھر اس کا دادا، پردادا پھر عورت کا حقیقی بھائی اور عورت کا علاتی بھائی اگر وہ نہ ہو تو عورت کا بیٹا پوتا وغیرہ“

حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمتہ اللہ علیہ تصریح فرماتے ہیں :

”بہر صورت عورت کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے  اول نمبر والد ہے بعض اول نمبر بیٹے کو کہتے ہیں ۔اگر یہ ظلم کریں تو بھائی ، اس کے بعد چچا ، پھر چچا زاد بھائی ، پھر دادا اور اس طرح اوپر تک جہاں تک اپنے نسب کا علم ہو“(جلد 2 ص۴۱۷)پس ان تصریحات کے مطابق والد کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا شخص ، خواہ وہ سلطان وقت ہو ، کسی عورت کا ولی نہیں بن سکتا مگر جب ولی اقرب یا ولی بعد موجود نہ ہو یا ولیوں میں اختلاف ہو تو  اس صورت میں سلطان (قاضی یا مجاز افسر  ولی ہوتا ہے)۔ لہٰذا شرعی ولیوں کی اجازت کے بغیر مغویہ  عورتوں کے عدالتوں  میں پڑھے  جانے والے نکاح شرعاً باطل ہیں ۔

اس لئے گزارش ہے کہ پاکستانی عدالتیں زنا کاری کے فروغ کے سر ٹیفکیٹ جاری کرنے سے باز آجائیں ۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب طلبی سے بچ نہیں سکیں گےہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع   نہیں آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں ۔

وما ارید الاالاصلاح ، ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

اگر برا نہ منائیں 

اہل صحافت اگر برا نہ منائیں تو ان کی خدمت میں درد مندانہ اپیل ہے کہ ایسے عاقبت اندیش اور باریک بین دانشوروں سے زیادہ اور کون اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کا  حامی ٹولہ پاکستان کے مسلم معاشرہ میں فواحش،بے حیائی اور انارگی کا زہر گھولنے اور اسلام کے خاندانی نظام کی  بنیاد وں کو ڈھاہ دینے کے لئے اپنے تمام فکری ،قلمی مواصلاتی  ذرائع ابلاغ اور مالی وسائل کو بے تحاشا میدان عمل میں جھونک چکا ہے اور اسلامی قوانین کی تطبیق کے بارے میں ہماری قومی سرد مہری ، بے راہ روی اور مجرمانہ غفلتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے اس ناپاک مشن میں خاصی کامیابی بھی حاصل کر چکا ہے اور ھلم جرا کی راہ پر رواں دواں ہے

غور کریں اور مسلمان دانشور کی حیثیت سے بتلائیں کہ ایسے تکلیف دہ ظروف و احوال اور ایسے خوفناک تناظر میں اس قسم کے سراسر غیر شرعی ، غیر اخلاقی اور غیر منطقی فیصلوں کو یوں پھل سکیب صفحات پر چوب قلم کے ساتھ جلی حروف میں مکررسہ کر رمتنوع عنادین سے روزانہ بے دریغ شائع کرتے چلے جانا ملک و ملت کی کون سی خدمت کے زمرے میں آتا ہے ؟

ہماری ناقص رائے میں ہمارا یہ طرز عمل اور اسلوب نگارش نہ صرف پاکستان میں پائی جانےوالی اسلام دشمن لابیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے اسلام دشمن رویہ کی داد دینے کے مترادف ہے بلکہ اسلام کے ساتھ سنگین ، مذاق ، پاکستان کی نظریاتی حدود کی پامالی ، مسلم معاشرے کے حلقوم پر تیغ آزمائی بھی ہے علاوہ ازیں ایسی فریب خوردہ بد اندیش اور انجام سے بے خبر لڑکیوں کے ہاتھو ں بے بس شریف والدین کی پگڑی اچھالنے اور ان کے زخم  پر نمک پاشی سے زیادہ کچھ نہیں شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص680

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ