سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(268) زبر دستی نکاح شرعا جائز نہیں

  • 14368
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1403

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کی مسمی محمد یوسف ولد محمد دین قوم کمبوہ چک نمبر ۲/۲۸ تحصیل و ضلع اوکاڑہ سے  عرصہ تقریباً ایک ماہ تین یوم قبل ہوا ہے جبکہ مسمات مذکورہ دس یوم آباد رہی ۔ دوران آبادگی مسمی یٰسین مسمات مذکورہ پر نہایت ہی ظلم   وستم کرتا رہا ۔یاد رہے کہ مسماۃ  مذکورہ کے باپ کو اس نکاح کا علم نہ ہے مسمات مذکورہ  کو چچی کے بھائی نے ورغلا پھسلا کر زبردستی نکاح کردیا اور مسمات مذکورہ کے باپ اور رشتہ داروں کو پتہ چلا تو وہ  مسمات مذکورہ کو ڈھونڈکر لائے ۔ مسمات بہت پریشان ہے  اور اب اپنے باپ کے ہاہ رہ رہی ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا زبر دستی نکاح شرعاً جائز ہے کہ نہیں ؟ برائے مہربانی مذکورہ بالا مسئلہ حل فرما کر ثواب دارین حاصل کریں قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب دیں ۔ سوال صداقت پر مبنی ہے نیز  مسمات نکاح جدید کی حق دار ہے کہ نہیں نیز کذب بیانی ہوگی تو سائل خود ذمہ دار ہوگا ، لہٰذا ہمیں شرعی فتویٰ دیا جانا مناسب ہے ۔ (سائل محمد یوسف )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال و بشرط صدق گواہان صورت مسئولہ میں شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوا ۔ کیونکہ صحت نکاح کے ولی مرشد کی اجازت شرعاً ضروری اور لازمی ہے ۔چنانچہ قرآن مجید میں ہے :

﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ... ٢٣٢﴾...البقرۃ

”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو تم ان کو ان کے (پہلے ) شوہروں سے دوبارہ نکاح کرنے سے منع نہ کرو جب وہ آپس میں دستورکے موافق راضی ہو جائیں ۔اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ مطلقہ رجعیہ بھی بعد از عدت اپنے سابقہ خاوند سے ولی کی  اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتی ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے اپنی صحیح بخاری میں یہ باب باندھتے ہیں : من قال لا نکاح الا بولی ۔ یعنی اس شحص کی دلیل کا بیان جو صحت نکاح کے لئے  ولی کی اجازت ضروری اور لازمی  کہتا ہے ۔ پھر امام صاحب نے اس آیت کو بطور دلیل کے درج فرمایا :

فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32])(صحیح بخاری : ج 2ص 768 )

اور ان تمام آیات میں  نکاح کا مختار ولی کو بتلایا گیا ہے ۔ اب احادیث رسول اللہ ﷺ ملاحظہ فرمائیں ۔

((وَعَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْمَدِينِيِّ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ وَأَعَلَّهُ بِإِرْسَالِهِ. (سبل السلام : ج۳ ص۱۱۷ ))

" حضرت ابو موسیٰ  اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا"

اس حدیث کو امام علی بن مدینی ، ترمذی اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے ۔ اگرچہ اس حدیث پر مرسل ہونے کا طعن ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں :

(الحديث عِنْدِي أَصَحُّ هَكَذَا صَحَّحَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ فِيمَا حَكَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى عَنْهُ، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ حَدِيثُ إسْرَائِيلَ فِي النِّكَاحِ صَحِيحٌ )

ابن کثیر  اور علی بن مدینی اور عبدالرحمٰن بن مھدی کے مطابق یہ حدیث صحیح اور مرفوع ہے ۔

(وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ..الخ) (سبل السلام : ج۳ ص۱۱۷ ))

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورت اپنے شرعی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو اس کا نکاح باطل ہے ،باطل ہے ، باطل ہے ۔“

 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا»(رواہ ابن ماجة  والدار قطني, نيل الاوطار,حواله مذكوره)

”حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کوئی عورت کسی دوسری کا ولی بن کر نکاح کرے اور خود  اپنا ولی بن کر نکاح کرے ، وہ عورت زانیہ ہے جو خود اپنا نکاح کرے“

عن عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: «جَمَعَتِ الطَّرِيقُ رُفْقَةً فِيهِمُ امْرَأَةٌ ثَيِّبٌ، فَوَلَّتْ رَجُلًا مِنْهُمْ أَمْرَهَا فَزَوَّجَهَا رَجُلًا، فَجَلَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ النَّاكِحَ وَالْمُنْكِحَ، وَرَدَّ نِكَاحَهَا»(رواه الشافعي والدارقطني ج3 ص225,محلى  ابن حزم ج9 ص452)

”عکرمہ بن خالد تابعی کہتے ہیں راہ چلتے ایک قافلہ میں ایک رانڈ عورت نے کسی غیر آدمی کو اپنا ولی بنالیا اور اس فرضی ولی نے اس کا کسی سے نکاح کردیا ۔ جب  حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ نے  اس فرضی نکاح پڑھوانے والے کو درے لگائے اور نکاح کالعدم قرار دے دیا“

امام ابن کثیر (فلا تعضلو ھنالخ) والی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں

وَفِيهَا دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا تَمْلِكُ أَنْ تُزَوِّجَ نَفْسَهَا، وَأَنَّهُ لَا بُدَّ فِي تَزْوِيجِهَا (4) مِنْ وَلِيٍّ، كَمَا قَالَهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ جَرِيرٍ عِنْدَ هَذِهِ الْآيَةِ،(ابن کثیر :ج ۱ ص ۲۸۲ )

”یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ عورت اپنے نکاح میں مختار نہیں ، بلکہ ولی کی اجازت صحت نکاح کے لئے شرط ہے “

امام محمد بن اسماعیل الامیر لکھتے ہیں :

(فَالْجُمْهُورُ عَلَى اشْتِرَاطِهِ، وَأَنَّهُ لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا) (سبل السلام ج ۳ص ۱۱۷ )

یعنی جمہور علماء ولی کی اجازت کو صحت نکاح کی شرط قرار دیتے ہیں۔

امام شوکانی رحمتہ اللہ علیہ ارقام فرماتے ہیں :

(وَقَدْ ذَهَبَ إلَى هَذَا عَلِيٌّ وَعُمَرُ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ وَابْنُ مَسْعُودٍ وَأَبُو هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةُ وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَابْنُ الْمُسَيِّبِ وَابْنُ شُبْرُمَةَ وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وَالْعِتْرَةُ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَالشَّافِعِيُّ وَجُمْهُورُ أَهْلِ الْعِلْمِ فَقَالُوا: لَا يَصِحُّ الْعَقْدُ بِدُونِ وَلِيٍّ

قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ: إنَّهُ لَا يُعْرَفُ عَنْ أَحَدٍ مِنْ الصَّحَابَةِ خِلَافُ ذَلِكَ) (نیل الاوطار : ج ۶ص ۱۲۶ )

"حضرت عمر  ابن عباس ، ابن عمر رضی اللہ عنہم ، تابعین امام احمد اسحاق شافعی وغیرہ فقہاء کا یہی مذہب ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح  صحیح نہیں ہوتا ۔ اور ابن المنذر کے  مطابق کوئی ایک صحابی بھی اس میں مخالف نہیں ۔

فیصلہ صورت مذکورہ میں آیات اور احادیث صحیحہ قویہ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور فقہائے  اسلام کے مطابق یہ نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوا کیونکہ اس میں ولی کی اجازت شامل نہیں ۔ بلکہ حسب تحریر لڑکی کو اغوا کر کے زبردستی اس کے ساتھ نکاح کاڈھونگ رچایا   گیا ہے ، لہٰذا اس طرح کا نکاح سراسر دھوکہ اور سینہ زوری کی وجہ سے شرعاً باطل ہے ۔ لہٰذا عدالتی  کاروائی کے بعد یہ لڑکی جدید نکاح کی شرعاً حقدار ہے ۔مفتی کسی قانونی سقم کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص678

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ