سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(235) قربانی کا جانور خرید کر خریدار کا اس میں اپنا حصہ رکھنا

  • 14339
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1114

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص، مثلاً: بیس روپیہ سے قربانی کے لئے جانور خرید لایا۔ اس میں ایک حصہ اپنا رکھ لیااور باقی چھ حصہ قیمت تین روپے فی حصہ باقی چھ حصہ داران کے پاس فروخت کر دیے۔ اپنی قربانی بھی کر لی اور فائدہ دنیاوی بھی اٹھا لیا۔ یہ جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی نام ہے اللہ تعالیٰ کے لئے خون بہانے اور جان دینے کا اور یہ شے واحد ہے، اس کے حصے نہیں ہو سکتے، اس لئے علماء نے لکھا ہے کہ ایک شخص کی نیت گوشت کی ہو ار چھو شخصوں کی نیت قربانی کی ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی، کیونکہ خون بہانے اور جان دینے کی تقسیم ن ہیں ہو سکتی، محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خلاف قیاس ایک شے کو سات کے قائم مقام کردیا اور جو بات خلاف قیاس ہوتی ہے وہ اپنے محل پر بند رہتی ہے، اب جو شخص قربانی کا جانور خریدتا ہے۔ اگر خریدنے کے وقت اس کی نیت اس میں حصہ رکھنے کی نہ تھی، بلکہ خیال یہ تھا کہ جانور سارے کا سارا فروخت کر دوں گا، پھر اس کی قیمت بڑھ گئی مثلاً: بیس روپے کا خریدا تھا، تیس روپیہ قیمت پر، چھو یا سات حصے پورے ہوگئے۔ ابھی مجلس سے جدا نہیں ہوئے کہ اس کا خیال ہوا کہ ایک حصہ میں رکھ لوں یہ تو ایسا ہی ہے جیسے سات شخص ایک جانور خرید کر قربانی کریں۔ یا ایک شخص کے گھرجانور تھا اس میں ایک حصہ اپنا رکھ لیا، اور اگر خریدنے کے وقت یا خریدنے کے بعد سودا ہونے سے پہلے نیت اس جانور میں حصہ رکھنے کی ہوگئی تو اس کے ھصہ پر منافع نہ ہوا اور چھو حصوں پر منافع تو یہ تقسیم کی صورت پیداہوگئی، اس لئے یہ درست نہیں، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ خالص عمل کو قبول کرتا ہے، اس شخص کی نیت میں خلوص نہیں، کیونکہ پہلے سے اس کو خیال ہوتا کہ میرے حصے کے پیسے مجھ پر نہ پریں، دوسروں سے وصول کروں، گویا کہ باقی حصوں پر منافع لگاتا ہے اور در حقیقت اپنا حصہ فروخت کرتا ہے، ایسے شخص کے عمل میں خلل آگیا، اس لئے ناجائز ہے۔ (فتاوی اھل حدیث: ص۴۶۸ج۲)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص595

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ