سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(216) سفرمیں روزہ کتنی مسافت پر معاف ہے

  • 14320
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1595

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سفر میں روزہ معاف ہے لیکن کتنی مسافت پر معاف ہے؟َ بینواوتوجروابالدلائل الصحیحة والثواب عنداللہ تعالیٰ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی  ﷺسے اس بارے میں کوئی روایت نہیں آئی جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ آپ کوئی حد مقرر کی ہو۔ اذا لیس فلیس وَلَمْ یکُنْ مِنْ ھَدْیِهﷺ تَقْدِیرُ المُسَافَۃِ الَّتِی یُفطِرُ فِیھا الصائم بحَدٍّ والاصحَّ عَنه فِی ذلک شئی۔ (زاد المعاد فی ھدی خیر العباد للامام ابن القیم ج۱ طبع مصر قدیم ص۱۶۲، طبع جدید)

’’آپ علیہ السلام سے اس کی مسافت کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں آئی جس سے اس کی حد ثابت ہوتی ہے۔‘‘

نیز اس کے علاوہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وَقَد أَفْطَرَ دِحبَة بن خلیفة الکلبی فی فسر ثلاثة أمبالٍ وقال لِمن صام قَدْ رَغِبَ عَن ھدی محمدﷺ۔

’’وحیہ بن خلیفہ الکلمی نے تین میل سفرکے بعد افطار کیا اور کہا جو روزہ رکھے تحقیق اس نے محمدﷺ کے طریقے سے اعراض کیا۔‘‘

پھر لکھتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سفر کرتے تو روزہ افطار کر دیتے ابھی آبادی سے تجاوز بھی نہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سنت ہے اور طریقہ نبیﷺ کا۔

عِبَرَتُه ھٰکَذَا وَکَانَ الصَّحَابَة حِینَ ینشؤن السفر یفطرون من غیر اعتبار مجاوزة البیوت ویخبرون أن ذلک سنته وھدیهﷺ۔

پھر لکھتے ہیں:

قال عب ید بن جبیر ركبت مَعَ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفِينَةٍ مِنَ الْفُسْطَاطِ فِي رَمَضَانَ فَلَمْ يُجَاوِزِ الْبُيُوتَ حَتَّى دَعَا بِالسُّفْرَةِ، قَالَ: اقْتَرِبْ قُلْتُ: أَلَسْتَ تَرَى الْبُيُوتَ، قَالَ أَبُو بَصْرَةَ «أَتَرْغَبُ عَنْ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اور امام احمد کی روایت میں ہے:

رَكِبْتُ مَعَ أَبِي بَصْرَةَ مِنَ الْفُسْطَاطِ إِلَى الْإِسْكَنْدَرِيَّةِ فِي سَفِينَةٍ، فَلَمَّا دَفَعْنَا مِنْ مَرْسَانَا أَمَرَ بِسُفْرَتِهِ فَقُرِّبَتْ، ثُمَّ دَعَانِي إِلَى الْغَدَاءِ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا بَصْرَةَ، وَاللهِ مَا تَغَيَّبَتْ عَنَّا مَنَازِلُنَا بَعْدُ؟ فَقَالَ: " أَتَرْغَبُ عَنْ سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ " قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَكُلْ فَلَمْ نَزَلْ مُفْطِرِينَ حَتَّى بَلَغْنَا۔

نیز لکھتے ہیں:

وقال مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَتَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فِي رَمَضَانَ وَهُوَ يُرِيدُ السَّفَرَ أَوْ قَدْ رُحِّلَتْ لَهُ رَاحِلَتُهُ وَقدلَبِسَ ثِيَابَ السَّفَرِ فَدَعَا بِطَعَامٍ فَأَكَلَ فَقُلْتُ لَهُ سُنَّةٌ فَقَالَ سُنَّةٌ ثُمَّ رَكِبَ۔ قال الترمذی حدیث حسن وقال الدار قطنی فیه فاکل وقد تقارب غروب الشمس۔

پھر لکھتے ہیں:

وھذا الاثار صریحة فی انشاء السفر فی اثناء یوم من رمضان فلہ الفطرۃ سنة۔ انتھٰی کلام ابن القیم۔ (کذا فی زاد العمادج۱ص۱۶۲)

اس سب عبارت کا حاصل کلام یہ ہے کہ عبید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابی بسرہ غفاری صحابی کے ساتھ شریک سفرہوا۔ کشتی میں فسطاط سے رمضان کے مہینہ میں پس ابھی ہم نے گھروں سے تجاوز نہیں کیا تھا کہ آپ نے کھانا منگوایا اور کہا کہ قریب آؤ میں نے کہا کیا آپ ابی گھروں کو نہیں دیکھ رہے؟ ابوبسرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا تو نبیﷺ کے طریقہ سے منہ پھیرتا ہے (اس کو ابو داؤد نے اور احمد نے روایت کیا)؎احمد کی روایت میں ہے۔ عبیدین جبیر کہتے ہیں کہ میں ابی بسرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہم سفر ہوا۔ فسطاط سے اسکندریہ تک کشتی میں۔ جب ہم کشتی کے قریب ٹھہرنے کی جگہ پر پہنچے تو کھانے کا آپ نے حکم دیا۔ پس آپ کھانے کے قریب ہوئے۔ پھر مجھ کو بلایا کھانا کھانے کے لئے اور یہ قصہ رمضان کا ہے۔ میں نے ابی بسرہ رضی اللہ عنہ سے کہا اللہ کی قسم ابھی تو ہماری رہائش گاہ بھی دور نہیں ہوئی تو آپ نے فرمایا کیا تو سنت رسولﷺ سے اعراض کرتا ہے میں نے کہا نہیں۔ آپ نے کہا پس کھا، پس ہم برابر کھاتے رہے حتی کہ ہم اپنی منزل کو پہنچے۔

محمد بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رمضان میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ سفر کا ارادہ رکھتے تھے اور سواری تیاری کی ہوئی تھی اور سفری لباس پہنا اور کھانا منگوایا اور کھایا۔ میں نے کہا کیا یہ سنت ہے؟ کہا کہ سنت ہے، پھر سوار ہوئے کہا ترمذی نے یہ حدیث حسن ہے۔

اور دارقطنی میں ہے کہ سورج غروب کے قریب تھا۔

اور یہ تمام آثار اس پر دلیل صریحہ ہیں کہ جو سفر کرے رمضان کے مہینہ میں پس وہ افطار کر سکتا ہے۔ (انتہیٰ کلام ابن قیم) نیز سنن اربعہ میں بھی روایات آئی ہیں۔

اس کے علاوہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نےنیل الاوطار میں کہا ہے کہ جس مسافت میں قصر ہے اسی مسافت میں روزہ معاف ہے۔ نیز بعض احادیث میں ہے کہ جو طاقت رکھے روزہ رکھنے کی سفر میں وہ روزہ رکھ لے کوئی حرج نہیں۔ بہر حال مسافت کے متعلق نبیﷺ سے تو کوئی روایت ثابت نہیں۔ اس کے متعلق مکتلف آثار آئے ہیں۔ بعض مسافت ۴۸ میل بتاتے ہیں اور بعض تحقیق علامہ شوکانی رحمہ اللہ کے کذا فی کتب الشروح۔ والحق عندی ما قال المحققون من علماء اھل حدیث فی مسافة الفطر۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص578

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ