سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(212) رمضان کے فضائل پر خطبہ مسنونہ

  • 14316
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1926

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان کے فضائل پر رسول اللہﷺ کا خطبہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتب احادیث میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ کا ایک خطبہ مروی ہے جو آپﷺ نے شعبان کے آخری دن صحابہ رضی اللہ عنہ کے مجمع میں ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ بہت مشہور ہے اور اس کے الفاظ ومعانی یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ یہ پورا خطبہ حدیث کی مختلف کتابوں میں اس طرح ہے:

عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، جَعَلَ اللَّهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدَّى فِيهِ فَرِيضَةً كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يَزْدَادُ فِيهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ، مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ۔

لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ، فَقَالَ: " يُعْطِي اللَّهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ، أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ۔ (البیھقی فی شعب الایمان واسنادہ ضعیف (تنقیح الرواۃ) ۲ص۳۰)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكٌ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ وَتُغَلُّ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ لِلَّهِ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ۔ (الترغیب والترھیب ج۲ص۹۸)

وفی روایة ابن خزیمة عن سلمان وَاسْتَكْثِرُوا فِيهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَيْنِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، وَخَصْلَتَيْنِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهُمَا، فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُونَ بِهِمَا رَبَّكُمْ: فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَتَسْتَغْفِرُونَهُ، وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنًى بِكُمْ عَنْهمَا: فَتُسْأَلُونَ اللَّهَ الْجَنَّةَ وتعوذون به من النار۔ (صحیح ابن خزیمة ج۳ص۱۹۱، ۱۹۲ج۳)

وفي رواية لأبي الشيخ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من فطر صائما في شهر رمضان من كسب حلال صلت عليه الملائكة ليالي رمضان كلها وصافحه جبرائيل عليه السلام ليلة القدر ومن صافحه جبرائيل عليه السلام يرق قلبه وتكثر دموعه۔ (الترغیب والترھیب)

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کے آخری روز رسول اللہﷺ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:

’’لوگو عظمت اور برکت والا مہینہ تم پر سایہ فگن ہوا ہے، اس میں ایک ایسی رات (لیلۃ القدر) بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بھی زیادہ بہتر ہے (کم وبیش اسی برس کی شب بیداری کا ثواب مل جاتا ہے۔) اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے روزے فرض کئے اور اس کی رات کی نماز کو نفلی ٹھہرایا۔ اس مہینہ میں جو شخص اچھی عادت یا نفلی عبادت اور نیکی کے ذریعے سے اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اس نے گویا کہ ایک فرض ادا کیا اور جس نے اس میں ایک فریضہ ادا کیا اس نے یوں سمجھئے کہ ستر فریضے ادا کئے۔ یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور محبت کرنے کا مہینہ ہے اس میں مومن کی روزی بڑھا دی جاتی ہے۔ جس نے روزے دار کو روزہ افطار کرایا وہ اس کے گناہوں کی معافی اور دوزخ سے نجات پانے کا ذریعہ ہوگا اور وہ روزہ دار کے اجر میں کمی کئے بغیر اس کے برابر افطار کرانے والے کو اجر ملے گا۔‘‘

ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک تو اس حیثیت میں نہیں ہوتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عنایت کرے گا جس نے ایک گھونٹ دودھ یا ایک خشک کھجور ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ افطار کرایا اور جس نے کسی کو پیٹ بھر کے پلایا تو اس کو اللہ تعالیٰ میرےحوض کوثر سے اس طرح پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک پھر کبھی اس کو پیاس نہ لگے گی۔

یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس کا پہلا حصہ رحمت کا ہے، درمیانہ مغفرت کا اور آخری حصہ دوزخ سے نجات حاصل کرنے کا ہے اور جس شخص نے اس مہینہ میں اپنے غلام وملازم وغیرہ کے کاموں میں کمی کر دے اس وک بھی اللہ تعالیٰ بخش دے گا اور دوزخ سے آزاد کر دے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ آئے ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ تمہارے پاس چل کر آیا ہے اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کئے ہیں۔ اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، سرکش شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس کی خیروبرکت سے محروم رہا وہی دراصل محروم اور بدنصیب ٹھہرا۔

اور ابن خزیمہ کی روایت میں اس طرح ہے:

’’اس مہینہ میں چار کام کثرت سے کرتے رہا کرو۔ دو کام تو ایسے ہیں کہ ان کے زریعہ سے تم اپنے اللہ کو راضی کر سکو گے اور دو ایسے ہیں کہ تم اس کے خود محتاج ہو۔ پہلے دو کام لا الہ الااللہ کی صدق قلب سے گواہی دینا اور استغفار کرنا ہے۔ اور دوسرے دو کام یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے جنت طلب کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔ اور جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پلائے گا، پھر اس کو جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی مجھے یقین کامل ہے۔

ابو الشیخ کی روایت میں جو الفاظ مروی ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے۔ جو شخص ماہ رمضان میں اپنی حلال کمائی سے کسی روزہ دار کا روزہ کھلواتا ہے، ماہ رمضان کی تمام راتوں میں ملائکہ اس کے لئے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔ اور شب قدر میں جبرئیل امین اس سے مصافحہ کرتے ہیں اور اس کے قلب میں رقت پیدا ہو جاتی ہے، مصافحہ کی اس کیفیت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

ہم روزہ کیوں رکھیں؟

افادات محترم رشید احمد ایم اے۔

ہمارے ایک نامور مفکر اور متجر عالم ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے جو اس وقت پیرس میں مقیم ہیں۔ انگریزی میں ایک رسالہ اسی عنوان سے رقم کیا ہے۔ یہ رسالہ مختصر ہونے کے باوجود اس سوال کے تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ مؤتمر عالم اسلام کراچی نے اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ فاضل مصنف نے انداز تحریر ایسا رکھا ہے کہ اس سے ذہن کو جلا حاصل ہوتی ہے۔ دماغ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور دل عمل کے لئے بے تابی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔ میں نے اس رسالے کی افادیت کے پیش نظر اس کے مندرجات سے اکتساب فیض کر کے انہیں باتوں کو اردو قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ اسی سلسلے میں ہفتہ وار سچ لکھنو کے بعض عالمانہ مضامین سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

مجھے یقین کامل ہے کہ جو منکرین روزہ اس رسالے کا مطالعہ خالی الذہن ہو کر کریں گے وہ روزے جیسی بے مثل عبادت کے فوائد وبرکات سے اپنے آپ کو محروم رکھنا ہرگز ہرگز گوارا نہ کریں گے۔ اور روزہ دار مومن اس کے مندرجات کو پڑھ کر اپنے ایمان کی اندر تازگی اور اپنے بدن کے اندر ایک نئی قوت پائیں گے۔(ان شاء اللہ)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص571

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ