سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(150) تہجد کی نماز کا زیادہ ثواب ہے یا نماز تراویح کا؟

  • 14254
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1827

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 تہجد کی نماز پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے یا نماز تراویح پڑھنے میں؟ (سائل عاشق محمد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تراویح اور تہجد ایک ہی نمازہے۔ اگر رات کےآخری حصے میں با جماعت تراویح کا اہتمام ہو سکتا ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ ورنہ اول وقت میں باجماعت پڑھنا انفرادی طورپر رات کےآخری حصے میں پڑھنے سے بہتر ہے۔ واللہ اعلم

صحیح احادیث کے مطابق قیام رمضان(تراویح) کی مسنون تعداد صرف آٹھ رکعت اور تین وتر ہیں۔ آنحضرتﷺ رمضان وغیر رمضان میں آٹھ رکعت سے زیادہ قیام نہیں فرماتے تھے۔ کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا کہ آپﷺ نے کسی رمضان میں کسی بھی رات میں جماعتاًً یا انفراداً آٹھ سے زائد رکعت قیام(تراویح) کیا ہو۔ آٹھ رکعت والی احادیث پیش خدمت ہیں۔

۱۔ عن عائشة رضی اللہ عنه قَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً۔ (صحیح بخاری: ج۱ص۱۵۴ باب قیام النبیﷺ۔ مؤطا امام محمد ۱۴۲ باب قیام شھر رمضان۔ مطبوعه رحیمی۔ صحیح مسلم: ص۲۰۴ ج۱ باب صلوة اللیل وعدد الرکعات)

’’حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات مع وتر سے زیادہ قیام(تراویح) نہیں فرماتے تھے۔

۲۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، وَأَوْتَرَ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الْقَابِلَةُ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ، وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ فَيُصَلِّيَ بِنَا، فَأَقَمْنَا فِيهِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ فَتُصَلِّيَ بِنَا، قَالَ: «إِنِّي كَرِهْتُ - أَوْ خَشِيتُ - أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ۔ (رواہ الطبرانی فی الصغیر ص۱۰۸ ومحمد بن نصر المروزی (ص۹۰) وابن حبان وابن خزیمة فی صحیح ھنا قال الحافظ الذھبی بعا ذکر ھذا الحدیث اسناد وسط میزان الاعتدال: ص۲۱۱ج۲)

’’حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک رات ہمیں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے۔ ہم نے دوسری رات بھی آپﷺ کا انتظار کیا مگر آپﷺ تشریف نہ لائے۔ صبح کو آپﷺ نے فرمایا کہ اس خدشہ سے میں نے ناغہ کیا کہ قیام رمضان تم پر فرض نہ ہو جائے۔‘‘

۳۔ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟» ، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا۔ ( رواہ ابو یعلی والطبرانی فی الاوسط وقال الھیشمی فی مجمع الزوائد (ص۷۴،ج۲) إسنادہ حسن واخرجه ایضا محمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل: ص۹۰)

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابی بن کعب آنحضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! آج کی رات مجھ سے ایک کام ہو گیا ہے، فرمایا وہ کیا؟ کہا: کچھ عورتیں میرے گھر میں جمع ہو گئیں اور قرآن نہ پڑھ سکتے کا عذر کیا تو میں نے ان کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھا دیے۔ آپﷺ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر کوئی اعتراض نہ کیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپﷺ نے اس عمل کو پسند فرمایا۔‘‘

وضاحت:

حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ (بخاری) کو خود امام محمد تلمیذ امام ابو حنیفہ ؒ اپنی کتاب مؤطا محمد باب قیام شھر رمضان (ص۱۴۲) میں لائے ہیں۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ مجتہد حنفیہ امام محمد ؒ کے نزدیک بھی یہ حدیث قیام رمضان (تراویح) کے بیان میں ہے، نہ کہ تہجد کے بیان میں جیسے یکہ علمائے حنفیہ اور اکابر مقلدین حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نہ ماننے کے لئے یہ بہانہ تراشتےہیں۔ بہر حال ہمارے نزدیک یہ تینوں احادیث اس مسئلے میں نص قطعی ہیں کہ آنحضرتﷺ نے اپنی پوری عمر شریف میں وتر سمیت گیارہ رکعت قیام تراویح فرماتے رہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص490

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ