سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(146) نماز تراویح آٹھ ہیں کہ بیس؟

  • 14250
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1693

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بریلوی حنفیوں کی ایک کتاب جاء الحق میں بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں ۲۳ دلائل ہیں۔ دیکھئے صفحات۴۴۴ تا ۴۴۶۔ براہ کرم ان کی حقیقت بتائیے کیا ہے؟ (سائل محمد اسماعیل خان آپ راقم کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دلیل نمبر ۱۔ حضرت عمر رضی اللہ ااور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک رکعت میں جتنا قرآن پڑھتے تھے ان کا نام رکوع ہے۔ چونکہ یہ دونوں صحابی ۲۷ رمضان کو قرآن ختم کرتے تھے اور قرآن کے تمام رکوع ۵۵۷ ہیں۔ اگر تراویح بیس رکعت پڑھی جائیں اور ایک رکعت میں ایک رکوع پڑھا جائے اور آخری رات میں فی رکعت متعدد رکوع پڑھ لئے جائیں تو قرآن ۲۷ دنوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ غیر مقلدوں کی آٹھ رکعت کے لحاظ سے کل رکوع ۲۱۶ ہونے چاہییں۔ (جاء الحق: ص ۲۴۴)

جواب: حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس عمل کے لئے حوالہ کوئی معلوم نہیں یہ کہانی کہاں سے لی گئی ہے، اگر ہو بھی تو صحابی کا عمل دلیل نہیں ہوتا کیونکہ اصول فقہ میں دلائل کتاب و سنت اجماع اور قیاس شمار کئے گئے ہیں اور بس۔ پھر رکوعات قرآنی کی تعیین وتحدیدی قاریوں کی اختراع ہے اور اجماع وہ دلیل بنتا ہے، جو ثابت بھی ہو۔

دلیل نمبر۲۔ تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور جمع کم از کم تین پر بولی جاتی ہے اور آٹھ رکعت میں ۲ ترویحے ہوتے ہیں۔

جواب: کسی صحیح مرفوع حدیث میں تراویح کا لفظ نہیں ملتا۔ حدیث میں قیام رمضان ہے۔ چنانچہ محدثین قیام شھر رمضان کا باب باندھتے ہیں، خود مؤطا محمد میں قیام شھر رمضان کا عنوان ہے۔ صحیح بخاری کے ایک نسخے میں کتاب الصلوۃ التراویح کا عنوان ملتا ہے۔ باقی نسخوں میں وہ بھی نہیں۔ شاید شہرت کی وجہ سے کسی ناسخ نے لکھ دیا ہو گا۔

اس کے علاوہ دو بھی جمع ہیں۔ امام بخاری نے ایک باب باندھا ہے ’’اَثْنَانَ فَمَا فَوْقَھُمَاجَمَاعَة‘‘ اور مالک بن حویرث کی حدیث وَلْیَؤٌ مَّکُمَا اَکْبَرُکُمَا سے استدلال کیا ہے اور دو دفعہ چار چار پڑھنا تراویح ہو جاتے ہیں۔ پس صحیح بخاری کے باب اور حدیث کے مطابق دو کا جمع ہونا صحیح ہو گیا۔

دلیل نمبر۳: ہر روز بیس رکعات نماز یعنی ۱۷ فرض اور تین وتر ضروری ہیں اور رمضان میں اس بیس کی تکمیل کے لئے بیس رکعت نماز تراویح اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیں۔

جواب: نمازیں فرض پانچ ہیں۔ وتر فرض نہیں وتر سنت ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى اليَمَنِ، فَقَالَ: «ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ(بخاری: باب وجوب الزکوة ص ۱۸۷ج۱۔)

’’رسول اللہﷺ نے جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر روانہ کیا تو فرمایا کہ آپ پہلے ان کو توحید ورسالت کی شہادت کی دعوت دیں۔ اگر وہ تیری بات مان لیں تو پھر ان کو کہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات دن پانچ نمازیں فرض ہیں۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازیں پانچ ہیں چھہ نہیں، تو پھر وتر سنت ہوئے نہ کہ فرض۔

امام شوکانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

ھذا من احسن ما یستدل به لأن بعث معاذ بن جبل کان قبل وفات رسول اللہ علیه وسلم  بیسیر۔(نیل: ص۳۶ج۳)

’’یہ حدیث وتر کے فرض نہ ہونے کی بہترین دلیل ہے کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے یمن جانے کی تھوڑی مدت بعد آنحضرتﷺ وفات پا گئے تھے۔‘‘

اس لئے جمہور علما کا مذہب بھی یہ ہے کہ وترسنت ہے:

وَقَدْ ذَھَبَ الْجَمْھُوْرُ اِلیٰ اَنَّ الْوِتْر غَیْرُ وَاجِبٍ بَلْ سُنَّة۔(نیل: ص۳۵ ج۳ باب الوتر علی الدایة۔)

بخاری شریف (ص۱۳۲) میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ وتر اور نفل سواری پر پڑھ لیتے تھے، لیکن فرض سواری پر نہیں پڑھتے تھے، بلکہ وتر میں جہت قبلہ بھی ضروری نہ ہوتی تھی۔

جواب: وتر صرف تین ہی نہیں بلکہ ۵،۷،۹ اور ایک بھی ہیں۔ چنانچہ بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى [ص:25] مَثْنَى، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ، فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ الاخ۔(صحیح بخاری: ص۱۳۵ ج۱ باب الوتر)

’’رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ جب تم نماز سے فارغ ہونا چاہو تو ایک رکعت پڑھ لو۔ کیونکہ ایک رکعت تمہاری نماز کو وتر بنا دے گی۔‘‘

امام ترمذی نے تو باب ہی یوں باندھا ہے بَابُ مَا جَاءَ فِیْ الْوِترِ بِرَکْعَة اور یہ حدیث لکھی ہے:

کَانَ رَسُوْلُ اللہﷺ یُصَلِّی مِنَ اللّیلِ مَثنیٰ مثنیٰ وَیُوْتِرُ بِرَکعَة:

’’آپﷺ رات کو دو دو رکعت پڑھتے تھے اور پھر ایک وتر پڑھتے۔‘‘ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ وتر فرض نہیں۔

دلیل نمبر۴۔ چونکہ آنحضرت ﷺ نے نہ تو آٹھ رکعت کا حکم دیا اور نہ اس پر پابندی فرمائی بلکہ حق یہ ہے کہ آپﷺ کا آٹھ رکعت تراویح پڑھنا صراحتاً ثابت نہیں ہے۔ (جاء الحق: ص۴۴۵)

جواب: یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ احادیث صحیحہ سے آٹھ رکعت صراحتاً ثابت ہیں اور آپﷺ ہمیشہ آٹھ ہی پڑھتے تھے۔

احادیث صحیحہ:

أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»(بخاری: باب قیام النبیﷺ ص۱۰۴ج۱ کتاب الصوم ص۲۶۹ ج۱۔ مسلم: باب الصلوة اللیل وعدد الرکعات س۶۴۵ج۱۔)

’’حضرت ابو سلمہ کے ایک سوال کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ قیام نہیں فرماتے تھے۔ نہایت عمدگی سے لمبی ۴ رکعت ادا فرماتے، اسی طرح کی چار رکعت اور پڑھتے، ازاں بعد تین وتر پڑھتے۔‘‘

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ وَأَوْتَرَ، فَلَمَّا كَانَتِ الْقَابِلَةُ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِيهِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، ثُمَّ دَخَلْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ تُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «إِنِّي خَشِيتُ أَوْ كَرِهْتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ»

(رواہ الطبرانی فی الصغیر(ص۱۰۸) ومحمد بن نصرالمروزی (ص۹۰) وابن خزیمة وابن حبان فی صحیحیھا قال الحافظ الذھبی بعد ذکر ھذا الحدیث اسنادہ وسط(میزان الاعتدال: ص۳۱۱ج۲) وذکر الحافظ الذھبی بعد ذکر ھذالحدیث فی بیان عدد الرعات(فتح الباری ص۹۷،ج۱)۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے رمضان میں ایک رات میں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے۔ ہم نے دوسری رات بھی آپﷺ کا انتظار کیا مگر صبح کو آپﷺ نے فرمایا: اس خدشہ سے میں نے ناغہ کیا کہ قیام رمضان تم پر ضروری نہ ہو جائے۔‘‘

(اعتراض) اس کی سند میں عیسیٰ بن جاریہ راوی متکلم فیہ ہے۔

جواب: اس حدیث کی سند کو وسط (یعنی حسن) کہنے والے حافظ ذہبی بڑے پایہ کے محدث ہیں۔ چنانچہ شرح نخبہ میں لکھتے ہیں:

الذھبی من أھل الاستقراء التام فی نقد الرجال۔

’’رجال کی جانچ پرکھ اور نقدوجرح میں حافظ ذہبی کو یدطولیٰ حاصل ہے۔‘‘

علاوہ ازیں حافظ ابن خزیمہ اور حافظ ابن حبان کا اس حدیث کو اپنی اپنی صحیح میں درج کرنا حافظ ذہبی کی بھرپور تائید ہے۔مزید برآں یہ حدیث دراصل بخاری میں ابو سلمہ کی مروی حدیث کی تفصیل ہے۔

کما أشار ألیه الحافظ والعینی فافھم ولا تکن من القاصرین۔

۲۔جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟» ، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا۔

(رواہ ابو یعلی والطبرانی فی الاوط وقال الھبشی فی محمع الزوائد (ص۷۴،ج۲) إسنادہ حسن واخرجه ایضا محمد بن نصر المروزی فی قیام اللیل(ص:۹۰))

’’جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! آج کی رات مجھ سے ایک کام ہو گیا ہے۔ فرمایا وہ کیا؟ کہا کہ عورتیں میرے گھر میں جمع ہو گئیں اور میں نے ان کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھا دیے۔ آپﷺ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر کوئی ااعتراض نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپﷺ نے اس عمل کو پسند فرمایا۔‘‘

وضاحت:

ابو سلمہ والی حدیث (صحیح بخاری) کو خود امام محمدؒ نے اپنی کتاب مؤطا میں درج فرمایا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مجتہد حنفیہ امام محمدؒ کے نزدیک بھی یہ حدیث قیام رمضان کے بیان میں ہے نہ کہ تہجد کے بیان میں، جیسا کہ بعض حنفی فقہاء اور اکابر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث نہ ماننے کے لئے یہ بہانہ تراشتے ہیں۔

بہر حال ان تینوں صحیح اور صریح احادیث میں آٹھ رکعت قیام رمضان یعنی تراویح کا صراحتاً موجود ہے اور آٹھ رکعات تراویح ہی دراصل سنت نبویہ ہیں۔

پورے اعتماد کے ساتھ ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے اور آپ کے زمانہ میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے آٹھ رکعت اور وتر سے زیادہ قیام رمضان نہیں کیا۔ چنانچہ امام مالک کا فرمان ہے:

الذی جمع علیه الناس عمر بن الخطاب احب الی وھی احدیٰ عشرة رکعة وھی صلوٰة رسول اللہﷺ۔۔۔۔۔۔ ولا أدری من ابن حدیث ھذا الرکوع الکثیر۔(المصابیح فی صلوة التراویح المسبوطیؒ)

’’گیارہ رکعت رسول اللہﷺ کی نماز ہے اور یہی مجھے پسند ہیں۔ گیارہ اور تیرہ کے علاوہ کثرت رکعات کا مجھے علم نہیں کہ وہ کہاں سے پیدا ہو گئیں۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ امام مالک کے نزدیک بھی بیس تراویح سنت نبوی نہیں۔ ومن یدعی فعلیہ البیان بالبرھان۔

دلیل نمبر۵: لہٰذا صحابہ کرام کا بیس پر اتفاق کرنا سنت کی مخالفت نہیں ہے۔ ہمیں حکم ہے علیکم بستی وسنۃ الخلفاء الراشدین۔

جواب: اولاً پیش کردہ حدیث میں پہلا لفظ سنتی کا ہے۔ سنت خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم دوسرے نمبر پر ہے۔ چونکہ دلیل نمبر ۴ کے جواب میں مذکورہ حدیثوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ سنت نبویﷺ صرف آٹھ اور تین وتر ہیں۔ لہٰذا آپ کی سنت کے ہوتے ہوئے خلفاء کے عمل کی ضرورت نہیں رہتی۔

جواب: سنت خلفائے راشدین سے ان کا طریقہ نظام حکومت مراد ہے۔ علامہ امیر یمانی فرماتے ہیں:

فَإِنَّهُ لَيْسَ الْمُرَادُ بِسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ إلَّا طَرِيقَتَهُمْ الْمُوَافِقَةَ لِطَرِيقَتِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ جِهَادِ الْأَعْدَاءِ وَتَقْوِيَةِ شَعَائِرِ الدِّينِ وَنَحْوِهَا(سبل السلام: ص۱۱ج۲ باب صلوة الشطرع)

’’خلفاء کی سنت سے ان کا وہ سیاسی طریق کا ر مراد ہے جو آنحضرتﷺ کے طریقے کے موافق ہو اور پھر اس طریق کار کا اعدائے اسلام کے خلاف جہاد اور دوسرے دینی شعائر کی سر بلندی اور تقویت سے تعلق ہو۔‘‘

دلیل نمبر ۶۔ حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے:

قَالَ: «كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً۔ رواہ البیھقی فی المعرفة باسناد صحیح۔(جاء الحق: ص۴۴۵)

دلیل نمبر۶’’سائب بن یزید سے روایت ہے کہ ہم عہد عمر میں بیس رکعت پڑھتے تھے۔‘‘

جواب: یہ اثر قابل اعتماد نہیں۔ اولاً اس لئے کہ اس کی سند میں ایک راوی ابوعثمان ہے جس کے متعلق خود مولانا شوق نیموی حنفی فرماتے ہیں۔ لَمْ اَقِف عَلیٰ مَنْ تَرْجَمَه۔(تعلیق آثار السنن:ص۵۷) سو جب تک اس کے ثقہ ہونے کا پتہ نہ چلے اس وقت تک اس روایت سے استدلال درست نہ ہوگا۔ ثانیاً: اس جگہ سائب کے شاگرد یزید بن خصیفہ ہیں جن کو ثقہ کہا گیا ہے لیکن امام احمد نے اس کو منکر حدیث کہا ہے۔ دوسرا راوی محمد بن یوسف ہے جو اس سے اوثق ہے وہ اپنے دادا سائب بن یزید سے گیارہ رکعت روایت کرتا ہے۔

یَقُولُ کُنَّا نَقُومُ فیْ زَمَان عُمر بن الخطاب بِاَحدیٰ عَشَرَة رَکعة۔

رواہ سعید بِنْ مَنصُور فِی سننه وَقَالَ الحَافظُ السُّوطی فی رِسَالَتِه المَصَابِیحِ أِسْسادُہُ فِی غَایة الصِّحَة۔(تھفة الاحوذی: ص۷۵ج۲باب قیام شھر رمضان۔فتح الباری: ص۲۰۴ج۴)

’’ہم عمررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ۱۱ رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘

لہٰذا اس کی روایت کو ترجیح ہے، اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابن خصیفہ کی روایتوں میں اضطراب ہے۔ علاوہ ازیں پوتے کو دادا کو بات کا زیادہ علم ہو سکتا ہے۔

جواب: نمبر۲: تمیم داری رضی اللہ عنہ اور ابی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ۱۱ رکعت با جماعت پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ؛ أَنَّهُ قَالَ: [ص:159] أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيماً الدَّيْرِيَّ (1) أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً (موطا امام مالك: ص۹۸ باب قیام شھر رمضان۔)

اعتراض: اس حکم کو نقل کرنے میں امام مالکؒ متفرد ہیں۔

جواب: یہ غلط ہے کیونکہ یحییٰ بن سعید قطان اور سعید بن منصور نے امام مالکؒ کی متابعت کی ہے، یعنی وہ دونوں بھی امام مالک کی طرح محمد بن یوسف سے ۱۱ رکعت کا حکم نقل کرتے ہیں۔ اور اسے متابعت تامہ کہتے ہیں۔

اعتراض: امام عبدالرزاق نے اپنی تصنیف میں محمد بن یوسف سے ۲۱ رکعات نقل کی ہیں۔

جواب: امام عبدالرزاق ۲۱ رکعات کے نقل میں متفرد ہونے کے ساتھ ساتھ آخری عمر میں حافظہ اور بینائی کھو بیٹھے تھے۔

ثَقة حَافظ مُصنف شَھِیر فِی آخِرِ عُمُرِہِ وَتغیَّر وَکَانَ یَتشیع۔ (تقریب: ص۲۱۳)

لیکن برخلاف اس کے امام یحییٰ بن سعید قطان ثقہ اور متقن ہیں۔

یَحیی بن سَعِید ثِقة متقن حافظ قدوة من کبار۔

جواب نمبر۲: یہ اثر اوپر کی تین حدیثوں کے خلاف ہے۔

جواب نمبر۳: حنفیہ ۲۳ رکعتوں کے قائل ہیں نہ کہ ۲۱ رکعتوں کے، لہٰذا حنفیہ کو یہ اثر مفید نہیں ہے۔ ورنہ ایک وتر اور بیس یا پھر ۳ وتر اور ۱۸ تراویح ماننی پڑے گی۔ اور یہ دونوں باتیں حنفیہ کے خلاف ہیں۔

دلیل نمبر۷: ابن منیع نے حضرت ابی بن کعب سے روایت کی ہے نُصَلِّی بِھِم عِشْرِیْنَ رَکْعَة (ابی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس تراویح پڑھائیں) (جاءالحق: ص۴۴۵)

جواب: اس اثر کا مصنف جاء الحق نے کوئی حوالہ نہیں دیا اور نہ اس کی سند ذکر کی ہے۔ لہٰذا یہ معرض استدلال میں پیش نہیں ہو سکتا۔علاوہ ازیں دلیل نمبر۴ کے جواب کے سلسلے کی تیسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو ۱۱ رکعات پڑھائی تھیں۔ اور آنحضرتﷺ نے حضرت ابی کی ان گیارہ رکعات کو پسند بھی فرمایا۔ پھر دلیل نمبر ۶ میں گزر چکا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ اور تمیم داری کو ۱۱ پڑھانے کا حکم دیاتھا۔

جواب نمبر ۲: بشرط صحت ممکن ہے کہ حضرت ابی ۸ رکعات کو سنت سمجھتے ہوں اور باقی بطور نفل پڑھتے ہوں۔

دلیل نمبر۸:

عَنْ اَبِی الْحَسَنَاتِ اَنَّ عَلِیّٰ بْنَ اَبِیْ طَالِبِ اَمَرَ رَجُلا یُّصلِّی بَالنَّاسِ خَمْسَ تَروِیحاتٍ عِشْرِینَ رَکْعَة۔ (جاء الحق: ص۴۴۵ بحواله بیھقی)

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ بیس رکعتیں پڑھائے۔‘‘

جواب: یہ راوی ابو حسنات نہیں بلکہ ابوالحسناء ہے جو مجہول راوی ہے۔ لہٰذا یہ اثر ضعیف ہے۔ شوق کہتے ہیں:

مدار ھذا الاثر علی أبی الحسناء وھو لا یعرف وقال الذھبی لا یعرف۔ (تحفة الاحوذی: ص۷۴ج۲)

ابوالحسناء(مفتی احمد یار بدایونی بریلوی کی بددیانتی ملاحظہ ہو کہ سنن البیھقی سے روایت تو نقل کر دی مگر امام بیھقی رحمہ اللہ کی جرح گیارویں کی کھیر سمجھ کر چاٹ گئے جرح کے الفاظ یہ ہیں وَفِی ھٰذَا الْاِسنَاد ضُعفُ واللہ اعلم۔ سنن البیھقی ج۲ص۴۹۷)  مجہول ہے قَالَ الْحَافِظُ مَجھُوْلٌ۔(تقریب: ص۴۰۱)

دلیل نمبر۹:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ (بیھقی طبرانی، ابن ابی شیبه وغیرہ۔)

حضورﷺ وتروں کے سوا بیس تراویح پڑھتے تھے۔‘‘

جواب: یہ روایت نہایت درجہ کی کمزور ہے۔ امام احمد، امام داؤد، امام نسائی، یحییٰ بن معینِ ابن عدی، دولابی اور حاجظ مزی جیسے کبار محدیثیؒن کے علاوہ اکابر حنفیہ، مثلاً: حافظ بدرالدین عینی(عمدۃ القاری ص ۱۲۸ض۱۱) علامہ زیلعی (نصب الرأیہ ص ۱۵۳ج۲) ابن ہمام(فتح القدیرص ۱۹۸ج۱) اور ملا علی قاری اور شوق نیموی کے علاوہ حافظ ابن حجر نے (فتح الباری ص۲۰۵ ج۴۔تقریب ص۲۲) اور خود امام بیہقی(ص۴۹۶ج۲) اور مالکیہ میں سے امام زرقانی مالکی نے شرح مؤطا میں اس حدیث کے راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کو ضعیف اور متروک قرار دیا ہے۔ یعنی یہ حدیث محدثین حنفیہ، شافعیہ اور مالکیہ سب کے نزدیک ضعیف ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں۔

تفردبه ابو شیة ابراھیم بن عثمان الکوفی وھو ضعیف۔ بیہقی ج۲ص۴۹۶فاعتبروا یااولی الابصار۔

دلیل نمبر۱۰:

عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ " أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّهُمْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً،(جاء الحق: ص۴۴۵)

’’حضرت علی کے تلمیذ شیّر بن شکل رمضان میں لوگوں کو پانچ ترویحے بیس رکعات پڑھاتے تھے۔‘‘

جواب: یہ اثر بھی مرفوع حدیثوں کے خلاف ہے جیسا کہ دوسری مختلف تعداد کے آثار خلاف مرفوع ہیں۔ کیونکہ صحیح حدیثوں میں صرف آٹھ رکعات تراویح ثابت ہیں۔ جیسا کہ دلیل نمبر۴ کے جواب میں تین مرفوع حدیثیں لکھی جا چکی ہیں۔ حافظ ابن حجر باب جمعۃ فی القریٰ(پارہ۴ص۴۸۶ انصاری) میں فرماتے ہیں فَلَمَّا اخْتَلَف الصَّحَابَة وَجَبَ الرُّجُوْعُ اِلَی الْمَرفُوْعِ۔ جب صحابہ کسی مسئلہ میں مختلف ہوں تو مرفوع حدیث کی طرف رجوع واجب ہوتا ہے۔

دلیل نمبر۱۱:

عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: " دَعَا الْقُرَّاءَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَ مِنْهُمْ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً " قَالَ: وَكَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُوتِرُ بِهِمْ۔ (بیھقی(جاء الحق: ص۴۴۵)

’’حضرت علی نے رمضان میں قاریوں کو بلایا اور ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے اور وتر خود حضرت علی پڑھاتے۔‘‘

جواب: اَمَرَ رَجُلاً نہیں بلکہ اَمَرَ مِنْھُم رَجُلاً ہے۔ بہر کیف یہ اثر بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی حماد بن شعیب ہے۔ جو ضعیف ہے:

قال النیموی بعد ذکر ھذا الأثر حماد بن شعیب ضعیف قال الذھنی فی المیزان ضعفہ ا ن معین وغیرہ وقال یحیی بن معین لا یکتب حدیثه وقال البخاری فیه نظر وقال النسائی ضعیف وقال ابن عدی أکثر أحادیثه مما لایتابع علیه۔ (تحفة الاخوذی: ص۷۵ج۲)

’’امام بخاری، یحییٰ، ذہبی، نسائی، ابن عدی نے حماد بن شعیب کی وجہ سے اس اثر کو ضعیف کہا ہے۔‘‘ یہ ضعیف راوی ہے۔

دلیل نمبر۱۲:

عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، باسناد صحیح۔ (جاء الحق: ص۴۴۵)

’’لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ۲۰ رکعت پڑھتے تھے۔‘‘

جواب: یہ بھی یزید بن خصیفہ کی روایت ہے جو دوسری سند سے ہے اور ابھی گزر چکا ہے کہ سائب بن یزید سے محمد بن یوسف کی روایت کو بوجوہ، یزید بن خصیفہ کی روایت پر ترجیح حاصل ہے۔

دلیل نمبر۱۳: ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ ۲۰ تراویح پڑھتے تھے۔

جواب: ان سب ک ی حقیقت پر تحقیقی ابھی ابھی گزر چکی ہے۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ کوئی روایت صحیح نہیں۔ تاہم اگر روایت ثابت بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو گا کہ فلاں صحابی یا تابعی ۲۰ پڑھتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کسی کا پڑھنا یا اس کا عمل حضورﷺ کی سنت نہیں کہلا سکتا۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ آپﷺ بیس پڑھا کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ پر بہتان قرارپائے گا حدیث میں ہے: مَنْ کَذَبَ عَلَیّٰ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّءُمِنَ النَّارِ۔(العیاذباللہ) ہاں، صحیح حدیث سے ۸ تراویح ثابت ہو چکی ہیں۔ خدا حدیثوں پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین

دلیل نمبر۱۴: عہد فاروقی میں ۲۰ پر عمل جاری ہو گیا تھا۔(جاءالحق:ص۴۴۵)

جواب: یہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ محمد بن یوسف اپنے دادا سائب بن یزید سے مرفوع اور صحیح سند کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی کعب اور تمیم داری کو ۱۱ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ اب قارئین اور آپ خود فیصلہ کر لیں کہ ترجیح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کو ہے یا لوگوں کے پڑھنے کو۔(اگر وہ ثابت بھی ہو)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص481

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ