سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نماز کے فرائض و ارکان سے مراد کیا ہے ؟

  • 14242
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4304

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کے فرائض و ارکان سے مراد کیا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز کے فرائض وارکان سے مراد نمازی کے وہ اعمال اور ہیئات مراد ہیں جن کی ترکیب اور مجموعہ سے نماز کی ہیئت کذائی بنتی ہے اگر ان میں کوئی ایک عمل اور ہیئت ترکیبی رہ جائے تو نماز نماز ہی نہیں رہتی اور نہ شرعاًمعتبر، اور وہ یہ ہیں:

۱۔ النیۃ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ...٥﴾...البينة

’’انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں۔‘‘

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

( إِنَّمَا الْاعْمَالُ بِالنِّیّاتِ) (صحیح البخاری: باب کیف کان بدء الوحی ج۱ص۲)

’’اعمال کا دارو مدارنیتوں پر ہے۔‘‘

یعنی اعمال کا قبول وعدم قبول نیتوں پر موقوف ہے، مگر اس نیت کا معنی قصد اورعزم ہے جس کا محل دل ہے زبان نہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ اور کسی صحابی سے زبان سے بول کر نیت کرنا ہرگز ثابت نہیں۔ لہٰذا نیت مروجہ کے الفاظ نری بدعت ہیں۔

۲۔ تکبیر تحریمہ:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

أن النبیﷺ قال«مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ» (رواہ الشافعی واحمد وابو داؤد وابن ماجه والترمذی وقال ھذا اصح شیئی فی ھذا الباب۔)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: نماز کی چابی وضو ہے اور اس کا آغاز اللہ اکبر سے اور نماز سے فراغت السلام علیکم ہی سے ہے اور تکبیر سے مراد اللہ اکبر ہی ہے کوئی دوسرا کلمہ اللہ اعظم یا اللہ الاکبر یا اللہ الکبیر ہرگز ثابت نہیں اور نہ یہ کلمات اس کا بدل ہیں۔

۳۔ قیام:

فرض نماز میں قیام بھی نماز کا رکن ہے اگرچہ قیام کی رکنیت کتاب وسنت کی نصوص صریحہ متواترہ سے ثابت ہے۔ تاہم مزید برآن اس کی رکنیت پر امت کا اجماع بھی ہوچکا ہے مثلاً: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴿٢٣٨﴾...البقرة اور اللہ تعالیٰ کے لیے باادب کھڑےرہا کرو‘‘۔ یہ آیت قیام کی رکنیت پرنص صریح ہے:

عن عمران بن حصین قال کانت بی بواسیر فسألت النبیﷺ عن الصلوة فقال صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا۔ الحدیث۔ (الجامع الصحیح البخاری: باب اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب جلد ۱، ص۱۵)

’’جناب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بواسیر کا عارضہ لاحق تھا، میں نے نماز کے متعلق رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیسے پڑھوں؟ تو آپ نے فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر کھڑے نہ ہو سکو تو بیٹھ کر پڑھ لیا کرو، اگر بیٹھ نہ سکو تو کروٹ کے بل پڑھ لو۔

۴۔ قراءت فاتحہ:

ہر فرض ونفل نماز کی ہر رکعت میں مقتدی اور امام اور منفرد پر سورۃ فاتحہ کا پڑھنا بھی رکن ہے نماز سری ہو یا جہری ہو۔ جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

أن النبیﷺ قال لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ۔ الجامع الصحیح بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِى الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِى الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ (جلد۱ص۱۰۴)

کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا۔ اس مضمون کی اور بھی بیش از بیش احادیث مروی ہیں جو فاتحہ کی رکنیت پر بالصراحت دلالت کرتی ہیں۔ فلا مجال للخلاف ولا موضع له

۵۔ رکوع:

اللہ تعالیٰ کا فرمان واجب اذہان ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا... ٧٧﴾...الحج

’’اے ایمان والو! رکوع اورسجدے کرتے رہو۔‘‘

حدیث رفاعہ بن رافع (مسیئی الصلوۃ) کی حدیث میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ثَمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعاً۔ (سنن أبی داؤد باب صلوة من لا یقیم صليه فی الرکوع والسجود ج۱ص۱۳۱ وعون المعبود ج۱ص۳۲۱)

’’پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘

۶۔ رکوع کے بعد والا قیام:

حضرت عائشہ فرماتی ہیں:

وَکَانَ إِذَا رَفَعَ رَاسَهُ مِنَ الرُّکُوعِ لَم یَسْجُدْ حَتَّی یَسْتَوِية قَائما۔ (صحیح مسلم: باب ما یحمع صفة الصلوة الخ ج۱ص۱۹۴)

’’جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو جب تک آپ پوری طرح کھڑے نہ ہو جاتے سجدہ نہ کرتے۔‘‘

۲۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

کَانَ إِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّکُوْعِ إِنْتَصَبَ قَائِماً۔ (صحیح مسلم: ج۱ص۱۸۹)

’’آپ رکوع کے بعد اچھی طرح سیدھے کھڑے ہوتے۔‘‘

۳۔ قَالَ أبو حمید رفع النبیﷺ وَاسْتَوٰی حتّٰی یَعُودَ کُلُّ فَقَار مَکَانه۔ (الجامع الصحیح: باب الطمانية حین یرفع راسه من الرکوع۔ ج۱ص۱۱۰)

’’کہ رسول اللہﷺ رکوع سے اٹھتے تو اس طرح سیدھے ہو کر کھڑے ہوتے کہ کمر کی تمام ہڈیاں اپنی اپنی جگہ لوٹ کر ٹھہر جاتیں۔‘‘

۷۔ سجدہ:

اس کی دلیل قرآن عزیز کی وہی نص صریح ہے جو رکوع کی رکنیت کے اثبات نمبر ۵ میں تحریر ہوچکی اور رفاعہ بن رافع کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کو فرمایاتھا:

((ثُمَّ اسجُدَ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِداً)) (سنن أبی داأد: باب صلوة من لا یقیم صلبه فی الرکوع والسجود ج۱ص۱۳۱)

’’پھر پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کر۔‘‘

بہرحال فرض اور نفل نماز کی ہر ایک رکعت میں مع الاطمینان دو سجدے فرض اور رکن ہیں اور اعضائے سجدہ سات ہیں۔ ناک سمیت چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیاں۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ عَلَى الجَبْهَةِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى أَنْفِهِ وَاليَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ القَدَمَيْنِ۔ (الجامع الصحیح: باب السجدة علی الانف ج۱ص۱۱۲، الدار قطنی مع المغنی، ج۱ص۳۴۸)

’’ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا مجھے سات پنڈلیوں پر سجدہ کرنے کا حکم ملا ہے وہ یہ ہیں: پیشانی، ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیاں۔‘‘

۸۔ آخری قعدہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اس کی رکنیت اور فرضیت کی تصریح فرماتے ہیں:

قَالَ: كُنَّا نَقُولُ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ التَّشَهُّدُ: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُولُوا ھذا ولکن قولو التحیات للہ وذکره۔ (رواه الدار قطنی وقال اسناده صحیح۔ الحدیث باب فی ان التشھد فی الصلوة فرض ج۲ص۲۸۲، اخرجه الدار قطنی ج۱ص۳۵۰، والبیھقی صححاہ رھو مشعر بفرضية التشھد۔ نیل الاوطار ج۲ص۲۸۰)

یہ نماز کی آخری رکعت میں سجدہں کے بعد قعدہ میں تشہد پڑھنا فرض ہے۔

السید محمد سابق مصریؒ تصریح فرماتے ہیں:

الثابت المعروف من ھدی النبیﷺ أنه کان یقعد القعود الأخیر ویقرأ فيه التشھد۔ قال ابن قدامة وھذا یدل علی أنه فرض بعد إن لم یکن مفروضا۔ (ففه السنة)

’’رسول اللہﷺ کے طرز عمل اور معمولی مبارک سے یہ بات بہرحال ثابت اور معروف ہے کہ آپ آخری قعدہ بیٹھ کر تشہد پڑھا کرتے تھے۔ ابن قدامہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی مذکورہ بالا حدیث ولکن قولواالتحیات للہ ارقام فرمانے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ روایت قدہ اخیر کی رکنیت کی دلیل ہے۔‘‘

۹۔ سلام:

اس کی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جو تکبیر تحریمہ کی رکنیت کی بحث میں مرقوم ہے:

عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ، وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ» (رواه احمد والشافعی وابو داؤد وابن ماجة والترمذی وقال ھذا اصح شیئ فی الباب واحسن)

’’نماز کی چابی وضو، اس کا آغاز اللہ اکبر اور فراغت کا واحد ذریعہ دو طرفہ سلام ہے۔‘‘

۲۔ وعن عامر بن سعد عن ابيه قال کنت أری النبیﷺ یسلم عن یمینه وعن یساره حتی یری بیاض خده۔ (روااه احمد ومسلم والنسائی وابن ماجه)
۳۔ وعن وائل بن حجر قال صلیت مع رسول اللہﷺ فکان یسلم عن یمینه السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔ قال الحافظ ابن حجر فی بلوغ المرام رواه ابو داؤد باسناد صحیح۔ (ففه السنة: ج۱ص۱۱۹)

’’وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی اقتدا میں نماز اداکی۔ پھر آپ نے دائیں جانب چہرہ پھیرکی السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاته کے الفاظ فرمائے۔‘‘

لیجئے جناب! یہ ہیں وہ ارکان الصلوة وفرائضها جو کتاب اللہ العزیز اور احادیث صحیحہ حسنہ مرفوعہ، متصلہ غیر معللہ ولا شاذہ سے ثابت اور محقق ہیں۔ میں نے بتو فیق اللہ وحسن عونه کوئی ایسا عمل اور رکن نہیں چھوڑا جو نماز کی ہیئت کذائی میں شامل ہو اور رسول اللہﷺ سے مروی اور منقول صفة الصلوة کا جزو اور حصہ ہو۔ لہٰذا معترض حضرات ان ارکان کے تناظر میں بنظر امعان حضرت مولانا عبدالغفور حفظہ اللہ کی نماز کی ادائیگی کا جائزہ لے کر خود انصاف کریں کہ ان کا مؤقف کہاں تک درست ہے؟ جہاں تک اس ناچیز راقم السطور نے مولانا ممدوح کی نماز کی ہیئت کذائی کا معائنہ کیا ہے تو میں علی وجہ لبصیرت کہتا ہوں کہ مولانا کمزور تر ہے۔

آخر میں ایک اصولی بات یاد رکھیں کہ جس کی اپنی نماز ہو جاتی ہے اس کی اقتدا بی بالاتفاق جائز ہے۔کیا کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی مرض موت میں بیٹھ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کو جو نماز پڑھائی تھی وہ صحیح ادا نہیں ہوئی حالانکہ آپ نے قیام نہیں کیا تھا جو کہ نماز کا اعظم ترین رکن ہے۔

 

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص438

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ