سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(137) سلام پھیر کر امام کا مقتدیوں کی طرف منہ کرنا سنت ہے ؟

  • 14240
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4122

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین کہ نماز سے سلام پھیر کر امام کا اپنے مقتدیوں کی طرف منہ پھیر کر بیٹھنا سنت ہے؟ (سائل: حاجی محمد اسماعیل بذریعہ مولانا محمد حیات مہتمم مدرسہ تعلیم القرآن اہل حدیث وڈالہ روڈ، ڈسکہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے مطابق سلام پھیر کر امام کا اپنے مقتدیوں کی طرف منہ پھیر کر بیٹھنا بلاشبہ سنت ہے۔ صحیح البخاری باب یستقبل الامام الناس إذا سلم میں ہے:

۱۔ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلاَةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ۔ (ص۱۱۷ج۱)

’’حضرت نبی کریمﷺ جب نماز ادا فرما کر سلام پھیرتے تو اپنا چہرۂ انور ہماری طرف کر لیتے تھے۔‘‘

۲۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ۔۔۔۔الحدیث (صحیح البخاری: ج۱ص۱۱۷)

’’رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر ہم کو صبح کی نماز پڑھائی اور اس رات بارش ہوچکی تھی آپ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا کیا تم جانتے ہو تمہارا رب کیا فرماتاہے۔‘‘

۳۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاَةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَلَمَّا صَلَّى أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: «إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَرَقَدُوا، وَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِى صَلاَةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلاَةَ» (صحیح البخاری: ج۱ص۱۱۷)

’’ایک رات رسول اللہﷺ نے (عشاء) کی نماز میں آدھی رات تک دیر کر دی: پھر (حجرہ شریف سے) باہرتشریف لائے۔ جب نماز پڑھ چکے تو ہماری طرف چہرہ مبارک پھیرا اور فرمایا اور لوگ تو نماز پڑھ کر سو چکے اور تم لوگ تو جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے گویا نماز ہی میں رہے۔‘‘

۴۔ وَكَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: «يَنْفَتِلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ، وَيَعِيبُ عَلَى مَنْ يَتَوَخَّى - أَوْ مَنْ يَعْمِدُ - الِانْفِتَالَ عَنْ يَمِينِهِ» (صحیح البخاری: باب الانقثال والانصراف عن الیمین والشمال۔ ج۱ص۱۱۷)

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نماز سے سلام پھیر کر دونوں طرف سےپھر کر بیٹھتے تھے اور اس شخص پر اعتراض کرتے تھے جو خوامخواہ قصداً دائیں طرف سے پھرنےکو ضروری سمجھے۔‘‘

۵۔ قال عبداللہ لا یجعل احدکم للشیطان شیئا من صلوته یری حَقٌّ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ لقد رأیت النبیﷺ کثیرا ینصرف عن یسارہ۔ (صحیح البخاری: ص۱۱۸ج۱)

’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز سے شیطان کو حصہ نہ لگائے کہ خوامخواہ نماز پڑھ کر داہنی طرف سے ہی  منہ پھیرنے کو ضروری سمجھ بیٹھے۔ میں نے نبیﷺ کو دیکھا ہے کہ آپﷺ اکثر دفعہ بائیں طرف سے پھرتے تھے۔‘‘ یہ حدیث ابوداؤد (باب کیف الانصراف من الصلوٰۃ ص۱۵۹ ج۱) میں بھی ہے۔

۶۔ عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحْبَبْنَا أَنْ نَكُونَ عَنْ يَمِينِهِ، يُقْبِلُ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ۔ (سنن ابی داؤد مع عون المعبود ج۳۳۷ج۱۔ مشکوة ص۱۰۱۔ صحیح مسلم ونیل الاوطار باب الانحراف بعد السلام وقدر اللبس واستقبال المامومین ص۳۰۵ج۳)

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھتے تو ہم آپ کی دائیں جانب کھڑے ہوتے تاکہ آپ نماز پڑھا کر سلام پھیر کر ہماری طرف سے نمازیوں پر متوجہ ہوں۔‘‘

۷۔ وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: «حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَجَّةَ الْوَدَاعِ قَالَ: فَصَلَّى بِنَا صَلَاةَ الصُّبْحِ، ثُمَّ انْحَرَفَ جَالِسًا فَاسْتَقْبَلَ النَّاسَ بِوَجْهِهِ۔ الحدیث (نیل الاوطار: ج۲ص۳۰۷)

’’حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا یہ آپ کا آخری حج تھا۔ آپ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی: سلام پھیر کر آپ نے بیٹھے بیٹھے ہماری طرف اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا۔‘‘

۸۔ عن انس بن مالک قال نظرنا رسول اللہﷺ لیلة حتی کان قریبا من نصف اللیل ثم جاء فصلی ثم اقبل علینا بوجهه فکانماأَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ فِى يَدِهِ مِنْ فِضَّةٍ۔ (صحیح مسلم: باب وقت العشاء ص۲۲۹ج۱)

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک رات ہم عشاء کی نماز کے لیے نصف رات تک آپ کا انتظار میں بیٹھےرہے۔ پھر آپﷺ تشریف لائے اور ہم کو عشاء کی نماز پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر کر ہماری طرف اپنا چہرہ مبارک کیا۔ گویا میں آپ کے ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھی  کی چمک اب بھی دیکھ رہا ہوں۔‘‘

ان آٹھ احادیث صحیحہ مرفوعہ سے ثابت ہوا کہ رسول اللہﷺ نماز پڑھا کر سلام کے بعد اپنا چہرہ انور نمازیوں کی طرف کر لیا کرتے تھے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ امام کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ بھی سلام پھیر کر اللہ اکبر، استغفراللہ تین دفعہ اور اللھم انت السلام ومنک السلام پڑھ کر اپنا منہ نمازیوں کی طرف پھیر کر بیٹھے۔ اور رسول اللہﷺ ایسا کیوں کرتے تھے اس میں کیا حکمت ہے؟

حافظ ابن حضرت رحمہ اللہ ارقام فرماتےہیں:

قِيلَ الْحِكْمَةُ فِى اسْتِقْبَالِ الْمَأْمُومِينَ أَنْ يُعَلِّمَهُمْ مَا يَحْتَاجُونَ إِلَيْهِ وقیل الحکمة فيه تعریف الداخل بأن الصلوة قدانقضت إذ لو استمر الامام علی حاله لاوھم أنه فی التشھد  مثلا۔ (عون المعبود: ج۱ص۲۳۷)

’’کہ بعد از سلام رسول اللہﷺ اپنا چہرۂ مبارک نمازیوں کی طرف اس لیے کرتے تھے تاکہ ان کو اس مسئلہ کی تعلیم دیں جس کی ان کو ضرورت ہوچکی ہے کیونکہ اگر امام بعد از سلام قبلہ رخ ہی بیٹھا رہے تو بعد میں آنے والے کو یہ غلطی لگ سکتی ہے کہ ابھی تک امام تشہد بیٹھا ہے۔

رسول اللہﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ اگر دائیں جانب کے صحابہ سے کوئی بات کرنی ہوتی تو دائیں جانب سے صحابہ کی طرف متوجہ ہوتے اور اگر بائیں جانب مقتدیوں سے کوئی کام یا بات کرنی ہوتی تو بائیں طرف سے نمازیوں پر متوجہ ہوتے۔ بہرحال پیش امام بعد ازسلام دونوں جانب سے اپنے نمازیوں کی طرف منہ پھیر کر بیٹھ سکتا ہے اور یہی سنت ہے۔ قبلہ رخ بیٹھا رہنا اگرچہ جائز کہا جاسکتا ہے مگر یہ دائمہ سنت نہیں بلکہ دائمہ اور اکثری سنت نمازیوں کی طرف منہ پھیر کر بیٹھنا ہے۔ دائیں جانب سے پھرنا لازم قرار دینا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ سنت پر عمل درآمد کی توفیق عنایت فرمائے آمین!

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص435

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ