سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(131) قرض دار کا امامت کروانا

  • 14234
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1477

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ شخص جو حقوق العباد کا قاتل یا تارک ہو اور اس کا بال بال قرض میں پھنسا ہو تو کیا وہ امامت کے قابل ہے۔ جبکہ قرض بھی دنیاوی رنگ رلیوں کے لیے لیا گیا ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال وبشرط صحت کاتب واضح ہو کہ حقوق العباد کی ادائیگی میں  غفلت اور تساہل ایسا کبیرہ گناہ ہے جو کہ شہید فی سبیل اللہ کو بھی معاف نہیں ہوتا جبکہ شریعت کی نگاہ میں امامت ایک مقدس اور واجب الاحترام عہدہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿...وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤﴾...الفرقان  کہ اے میرے پروردگار ہمیں نیک لوگوں کا امام بنا، اور حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے:

إِجْعَلُوْا أَئِمَّتَکُمْ خِیَارَکُمْ فَإِنَّھُمْ وَفْدُکُم بَیْنَکُمُ وَبَیْنَ رَبِّکُم۔ (اخرجه الدار قطنی ص۹۷، والبیھقی ص۹۰ج۲۔ قال البیھقی اسناد ضعیف۔ مرعاة شرح المشکوةص۱۱۰ج۲)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے میں اچھے لوگوں کو اپنا امام بنایا کرو کیونکہ وہ رب تعالی کے حضور تمہاری نمائندگی کرتے ہیں۔‘‘

وَقَدْ أَخْرَجَ الْحَاكِمُ فِي تَرْجَمَةِ مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ عَنْهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «إنْ سَرَّكُمْ أَنْ تُقْبَلُ صَلَاتُكُمْ فَلْيَؤُمَّكُمْ خِيَارُكُمْ، فَإِنَّهُمْ وَفْدُكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ» (ویوید ذلک حدیث ابن عباس المزکور فی الباب نیل الاوطار بحواله فتاویٰ نذیريه ص۳۹۴ج۱طبع دھلی۔)

’’یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنی نمازوں کو مقبول دیکھنا پسند کرتے ہو تو تمہارے امام تمہارے نیک لوگ ہونے چاہییں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہ تمہارے نمائندے ہیں، لہٰذا معلوم ہوا کہ حقوق العبادکے تارک امام کی اقتدا اچھی نہیں۔‘‘

اور جہاں تک امام کے مقروض ہونے کا سوال ہے تو واضح رہے کہ  مقروض آدمی تین حال سے خالی نہ ہوگا۔ اول یہ کہ مقروض نے یہ قرضہ ادائیگی کی نیت سے جائز ضرورت کے تحت لیا ہوگا۔

دوسرے یہ کہ ضرورت تو جائز ہو مگر بوقت وعدہ یا بوقت استطاعت واپس کرنے کی نیت نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ نہ ضرورت ہی جائز ہو اور نہ واپس کرنے کی نیت ہو اور تینوں کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر مقروض امام پہلی حالت میں ہو تو اس صورت میں نہ صرف قرضہ لینا جائز ہے بلکہ اس کی اقتدا میں نماز بھی بلا شبہ جائز ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ...٢٨٢﴾...البقرة

’’مسلمانو! جب تم ایک مدت مقرر تک قرضہ کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔‘‘

اس آیت کریمہ سے جہاں قرض کا معاملہ جائز ٹھہرا وہاں اس معاملہ کو ضبط تحریرمیں لانے کا حکم بھی معلوم ہوا۔ مگر یہ حکم امر ارشاد ہے۔ امروجوب نہیں۔

چنانچہ تفسیر جمل میں ہے:

أمرارشادای تعلیم ترجع فائدته إلی منافع الخلق دنیاھم فلا یثاب عليه المکلف إلا أن قصدا الأمثال۔ حاشيه جلالین۔ (نمبر۱۳ص۳۳سورہ بقرہ)

اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود امام الاولین والآخرینﷺ بسا اوقات مقروض ہو جاتے تھے۔ جب کہ امام بھی آپ ہی ہوتے تھے۔ سنن ابی داؤد میں ہے:

عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «كَانَ لِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي» (سنن ابی داؤد؛ ص۴۷۵ج۳ باب فی حسن انقضاء)

’’جناب  محارب بن وثار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابرؓ سے سنا وہ کہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے کچھ قرض واپس لینا تھا تو میرے مطالبہ پر آپ نے نہ صرف میرا قرض واپس کیا بلکہ مزید بھی عطا فرمایا۔‘‘

لہٰذا ان دلائل سے معلوم ہوا کہ ہنگامی طور پر جائز ضرورت کے تحت امام قرض لے سکتا ہے اور ایسے پیش امام کی اقتدا میں نماز تو جائز ہے۔ بشرطیکہ اس پیش امام  میں مقروض ہونے کے علاوہ کوئی اور شرعی مانع موجود نہ ہو۔

اور اگر مقروض پیش امام دوسری حالت میں ہو تو قرض واپس کرنے میں ایچ پیچ اور ٹال مٹول کرنے کی وجہ سے ظلم جیسے کبیرہ گناہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے امامت جیسے واجب الاحترام میں عہدہ کے قطعاً قابل نہیں، جیسا کہ صحیحین، سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

أَنَّ رَسُول اللہﷺ قَالَ مَطَلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ۔ (سنن ابی داؤد؛ ص۴۷۵ج۲، جامع ترمذی: ص۱۷۶ج۱)

’’جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا: قرض کی ادائیگی میں بلا وجہ ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔‘‘

علی ہذا القیاس تیسری حالت کا مقروض پیش امام امامت کے قطعاً قابل نہیں۔ بالخصوص اس صورت میں جب کہ قرض نمود وریا اور نمائش کے لیے اٹھایا ہو۔ ایسے مسرف اور فضول خرچ شخص کو امام مقرر کرنا، شریعت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔اور آیت

﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴿٢٦﴾ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا﴿٢٧﴾...الإسراء

’’اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار (کی  نعمتوں) کا کفران کرنے والا یعنی ناشکرا ہے۔‘‘

کے مطابق تو ایسی بری عادت ایک عام مسلمان کو زیب نہیں دیتی چہ جائیکہ کہ پیش امام ایسی خلاف شرع حرکت کا  مرتکب ہو۔ اعاذنااللہ منہ، ایسا شخص اگر امامت کروا رہا ہو تو اگر جماعتی انتشار کا خطرہ نہ ہو اور بس بھی چلتاہو تو اسے امامت سے فوراً سبکدوش کر دینا چاہیے۔ ہاں اگر اتفاقا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے تو نماز ادا ہوجائے گی۔ امام بنانا بہرحال ناجائز ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص427

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ