سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(118) رکوع میں ملنے والی رکعت کا حکم

  • 14221
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 6084

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر مسبوق کو  رکوع مل گیا، وہ سورہ فاتحہ کے اجر عظیم سے محروم ہوگیا، لیکن رکعت اس نے پالی۔ بحوالہ حدیث ابو ہریرہؓ جو مشکوۃ میں درج ہے، ایک نئے فیشن کے اہل حدیث کا کہنا ہے کہ لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب کے مدنظر یہ رکعت نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ مزید رکعت پڑھ لیتے ہیں۔ اس حساب سے صبح کے تین رکوع والی نماز ہوگی۔ مغرب کی چار رکوع والی ظہر وعصر وعشاء کی پانچ رکوع والی نماز ہوگی۔ براہ کرم مدلل جواب مع حوالہ جات از کتب احادیث سے سرفراز فرمائیں۔(سائل: میجر محمد اکرم تہکال بالا، پشاورشہر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں سلف کے دو قول ہیں۔ جمہور کے نزدیک رکوع میں ملنے والے کی رکعت پوری ہوجاتی ہے۔ مگر فقہاء محدثین کے نزدیک ایسے شخص کی رکعت پوری نہیں ہوتی۔ کیونکہ ایسے شخص کے دو فرض، یعنی قیام اور قراۃ ام القرآن فوت ہوچکے ہیں۔ ہم ان دونوں گروہوں کے دلائل مع تبصرہ رقم کرتے ہیں۔ تاکہ مسئلہ کے خط وخال پوری طرح نکھر کر سامنے آ جائیں۔ واللہ الھادی۔

جمہور کی دلیل اول:

عن ابی ھریرة انه کان یقول مَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ السَّجْدَةَ، وَمَنْ فَاتَهُ قِرَاءَةُ أُمِّ الْقُرْآنِ فَقَدْ فَاتَهُ خَيْرٌ كَثِيرٌ» (موطا ص۷ باب من ادرک الرکعة من الصلوة۔ ومرعاة المفاتیح مشکوۃ ص۱۳۴ ج۲ باب ما علی الماموم من المتابعة وحکم السبوق۔)

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس نے امام کے ساتھ رکوع پالیاتو اس کی یہ رکعت صحیح ہوگی اور جو شخص ام القرآن نہ پڑھ سکا تووہ خیر کثیر سے محروم ہوگیا۔

حضرت ابو ہریرہؓ کے اس اثر سے بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا یہی مذہب ہے کہ مدرک رکوع کی رکعت پوری ہو جاتی ہے۔

یہ اثر ضعیف ہے کیونکہ امام مالک کا یہ قول بلاغا ہے اور امام مالک کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے، اور کسی نے بھی اس اثر کو مسند بیان نہیں کیا۔

صحیح سندوں سے ثابت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مدرک رکوع کی رکعت کے قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ جزء القراۃ بخاری میں ہے۔

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَمَعْقِلُ بْنُ مَالِكٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «لَا يُجْزِئُكُ إِلَّا أَنْ تُدْرِكَ الْإِمَامَ قَائِمًا»(ص۴۵)

کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا قول ہے نماز تب ہوگی، جب امام کو قیام میں، یعنی رکوع کرنے سے پہلے پالے۔

۲۔ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقِ، قَالَ: قَالَ: أَخْبَرَنِي الْأَعْرَجُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: «لَا يُجْزِئُكَ إِلَّا أَنْ تُدْرِكَ الْإِمَامَ قَائِمًا قَبْلَ أَنْ يَرْكَعَ» (جزء القراة ص۴۵،۴۶)

یعنی نماز تب ہوگی جب امام کو رکوع میں جانے پہلے سے پالے (ورنہ نہیں) اور یہ دونوں سندیں امام مالک والی سند سے کہیں زیادہ قوی اور راجح ہیں۔چنانچہ حضرت الشیخ محمد عبیداللہ صاحب فرماتے ہیں۔

وھذا اقوی ارجح مما رواه مالک بلاغا فیقدم ذالک علی ھذا۔ (مرعاةشرح مشکوة ص۱۳۴ج۲)

اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ کسی لفظ کا مجازی معنی تب لیا جاتا ہے جب حقیقی معنی لینا متعذر ہو۔ لہٰذا اس جگہ رکعت سے مراد قیام، رکوع،سجود اور فاتحہ والی رکعت مراد ہے کیونکہ یہ رکعت کا حقیقی معنی ہے۔ لہٰذامجازی معنی مراد لینا صحیح نہیں ہے۔

ملحوظہ:

خیر کثیر فوت ہوگئی کے کے الفاظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ فاتحہ خلف الامام ایک غیر ضروری چیز ہے اور اس کے بغیر بھی رکعت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ لفظ خیر فرض واجب پر بھی بولا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے جو شخص پانی نہ پائے تو وہ تیمم سے نماز پڑھتا رہے، خواہ دس سال گزر جائیں۔ جب پانی پا لے تو غسل کر لے۔ فان ذالک خیر (مشکوۃ ص۵۴) کیونکہ یہ غسل اس کے لیے بہتر ہے۔

دیکھئے یہاں غسل جنابت کو خیر کہا ہے حالانکہ یہ فرض ہے۔ پس اسی طرح فاتحہ کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ علاوہ ازیں فاتحہ فوت ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مقتدی فاتحہ پڑھ نہیں سکا کیونکہ امام رکوع میں چلا گیا۔ بلکہ فاتحہ پانے کی صورت میں امام کے ساتھ آمین کہنے کا موقع ملتا ہے جس سے حدیث فمن وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ المَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبهِ وما تأخرکا مصداق ہو جاتا ہے۔ یعنی جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور فرشتوں کی آمین پر ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جزءالقراۃ بخاری باب سکتات ص۸۶ پر مروی ہے اور مشکوۃ ص۸۹ باب القراۃ وموطا ص۶۹ میں بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث موجود ہے جس میں اس کا ذکر ہے۔ پس امام کے ساتھ فاتحہ پانے سے اتنی بڑی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔ اور جس سے امام کی آمین فوت ہوگئی، اس سے خیر کثیر ہوگئی۔ اس لئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مروان بن حکم کے مؤذن تھے اور مروان سے یہ شرط منوا رکھی تھی کہ ولاالضالین کے ساتھ مجھ سے سبقت نہ کرنی ہوگی۔ (ملاحظہ ہو فتح الباری باب جھر الامام بالتامین ص ج۲ص۲۶۳، وحاشیہ بخاری نمبر۱۳ج۱ص۲۶۳)

بہرحال اس حدیث کو اس سلسلہ میں پیش کرنا غلطی ہے کیونکہ اس میں لفظ رکعت اپنے اصلی اور حقیقی معنی پر ہے۔ اور لفظ سجدہ میں دو احتمال ہیں (۱) یہ بھی اپنے معنی پر ہو (۲) یہ بمعنی نماز ہو۔ چنانچہ اس کی تفصیل امام ز رقانی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں

فقد فَاتَهُ خير كثير لموْضِع التَّأْمِين وَمَا يَتَرَتَّب عَلَيْهِ من غفران مَا تقدم من ذَنبه قال ابن وضاح وغیرہ۔ (زرقائی ج۱ص)

یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ جس سے فاتحہ فوت ہو گئی اس سے خیر کثیر فوت ہو گئی، اس کا مطلب آمین کا موقع پانا ہے اور اس کی فضیلت کا موقع پانا جو آمین (کا موقع) پانے سے حاصل ہوتی ہے، تمام سابقہ گناہوں کی معافی کا موجب ہے۔ اسی کے قریب قریب حافظ ابو عمروابن عبدالبراور قاضی ابوولید باجی المثقی شرح مؤطا میں فرماتے ہیں:

عن مالک بلغه ان ابا ھریرة کان یقول من ادرک الرکعة فقد ادرک السجدة مَعْنَى ذَلِكَ أَنَّ مَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الِاعْتِدَادَ بِالسَّجْدَةِ وَلَيْسَتْ فَضِيلَةُ مَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ دُونَ قِرَاءَةٍ كَفَضِيلَةِ مَنْ أَدْرَكَ الْقِرَاءَةَ مِنْ أَوَّلِهَا وَأَشَارَ مِنْ ذَلِكَ إلَى فَضِيلَةِ حُضُورِ قِرَاءَةِ أُمِّ الْقُرْآنِ لِأَنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ فَضِيلَةِ قِرَاءَةِ الرَّكْعَةِ. وَقَدْ قَالَ ابْنُ وَضَّاحٍ وَالدَّاوُدِيُّ إنَّ تِلْكَ الْفَضِيلَةَ قَوْلُ الْمَأْمُومِ آمِينَ عِنْدَ قَوْلِ الْإِمَامِ وَلَا الضَّالِّينَ لِمَا رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ لِلْإِمَامِ لَا تَسْبِقْنِي  فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّ لِإِدْرَاكِ هَذَا الْمَوْضِعِ مِنْ الْقِرَاءَةِ مَزِيَّةً عَلَى غَيْرِهِ إلَّا أَنَّ ظَاهِرَ قَوْلِهِ هَاهُنَا يَقْتَضِي أَنَّ الْفَضِيلَةَ الَّتِي أَدْرَكَ إنَّمَا هِيَ بِجَمِيعِ قِرَاءَةِ أُمِّ الْقُرْآنِ لِأَنَّ حُضُورَ قِرَاءَةِ جَمِيعِهَا فَضِيلَةٌ يَدْخُلُ فِيهَا فَضِيلَةُ إدْرَاكِ آمِينَ وَغَيْرِهَا وَفِي هَذَا الْأَثَرِ مَعْنًى آخَرُ وَهُوَ أَنَّ مَنْ جَاءَ فَوَجَدَ الْإِمَامَ رَاكِعًا كَبَّرَ وَرَكَعَ وَلَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَيَتْبَعُ الْإِمَامَ بَعْدَ رَفْعِ رَأْسِهِ مِنْ الرُّكُوعِ وَلِذَلِكَ وَصَفَهُ بِأَنَّهُ قَدْ فَاتَهُ قِرَاءَةُ أُمِّ الْقُرْآنِ وَلَوْ كَانَ مِنْ حُكْمِهِ أَنْ يَقْرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ قَبْلَ اتِّبَاعِ الْإِمَامِ لَمَا وُصِفَ بِفَوَاتِ ذَلِكَ كَمَا لَا يُوصَفُ بِفَوَاتِ تَكْبِيرَةِ الْإِمام۔ (کتاب المنتقی شرح للقاضی ابو الولید باجی فتاوی اھل حدیث ۵۲۲۔ ۵۲۱۔۵۲۰ج۱ج۱)

کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے یہ معنی ہیں جس نے رکعت پالی اس کا سجدہ بھی معتبر ہوگیا اور جس نے قراۃ القران کے بغیر رکعت پائی اس کی فضیلت ایسی نہیں جیسی شروع رکعت پانے کی ہے اور اس سے قراءت رکعت کی بڑی فضیلت یہی ہے کہی ام القرآن کو امام کے ساتھ پالے اور ابن وضاع اور داؤدی نے کہا ہے کہ یہ فضیلت مقتدی اور امام کی آمین میں موافقت کے لئے ہے کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہون نے مؤذن سے کہا، مجھ سے آمین کے ساتھ سبقت نہ کرنا، اس سے ثابت ہوا کہ امام کی قراءت کے اس حصہ کو پانا جس سے آمین میں موافقت ہوجائے، بہ نسبت دوسری قراءت کے زیادہ فضیلت ہے۔ لیکن ظاہر قول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ساری فاتحہ سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے ضمن میں آمین کی موافقت بھی آجاتی ہے، کیونکہ جو پوری فاتحہ امام کے ساتھ پائے وہ آمین کا موقع ولاالضالین بھی پا لے گا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کی ایک اور معنی بھی ہے، وہ یہ کہ جو امام کو رکوع میں پائے وہ امم کے ساتھ تکبیر کہہ کر شامل ہو جائے اور رکوع کرے۔ اور ام القرآن نہ پڑھے اور رکوع سے سر اٹھا کر سجدہ میں امام کی اتباع کرے، اس لئے اس کی بابت فاتحہ کے فوت ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اگر اس شخص کا یہ حکم ہوتا کہ امام سے پہلے فاتحہ پڑھ لے تو اس کی بابت فاتحہ کے فوت ہونے کا ذکر نہ ہوتا۔ جیسے تکبیر تحریمہ کے فوت ہونے کاذکر نہیں کیا۔

قاضی ابو ولید باجی نے اس عبارت میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے دو مطلب بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ امام کے ساتھ رکعت پائے تو سجدہ کا اعتبار بھی ہوسکتا ہے ورنہ نہیں۔ اور امام کے ساتھ فاتحہ سمیت رکعت کا پانا زیادہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ اس میں آمین میں بھی موافقت ہے۔ اگر امام کے ساتھ فاتحہ سمیت رکعت نہ پائی بلکہ امام کی فاتحہ سے فارغ ہونے کے بعد آ کر شامل ہوا تو پھر خواہ فاتحہ پڑھ ہی لی، لیکن امام کے ساتھ فاتحہ پانے کی جو فضیلت تھی وہ فوت ہوگئی۔

دوسرا مطلب قاضی ابوولید نے یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص امام کو رکوع کی حالت میں پائے تو رکوع سے سراٹھا کر امام کی تابعداری کرے اور فاتحہ اس سے فوت ہو گئی۔ یعنی اس کے پڑھنے کا موقع جاتا رہا۔ اس صورت میں بھی باوجودرکعت (بمعنی رکوع ہونے کے) رکوع میں رکعت ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس سے اس بات کا بیان کرنا مقصود ہے کہ امام کو جس حالت میں پائے اس کے ساتھ مل جائے۔ اس سے پہلے جو کچھ رہ گیا، رہ گیا اب اس کو امام کی اقتدا کے وقت (امام سے قبل) ادا نہیں کر سکتا، بعد میں ادا کرے۔ اگرچہ امام کے ساتھ ادائیگی کی فضیلت بہت تھی مگر وہ فوت ہو گئی۔ ہاں، تکبیر تحریمہ فوت نہیں ہوئی۔ اس کو امام سے الگ کہہ کر پھر امام کے ساتھ اس حال میں شامل ہو جائے جس حال میں امام ہو۔ غرض اس قسم کے کئی مطالب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کے ہو سکتے ہیں۔ اس سے رکوع میں لازم نہیں آتی۔ بالخصوص جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا صریح فتویٰ رکوع میں رکعت نہ ہونے کا صحیح سندوں کے ساتھ موجود ہے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، تو پھر مخالفت صورت کیوں اختیار کی جائے حتی الوسع موافقت چاہیے۔ یہ دونوں باتیں (یعنی حتی الوسع موافقت اور قوت اسناد) رکوع میں رکعت نہ ہونے کو چاہتی ہیں۔ (فتاوی اھل حدیث ج۱ص۵۶۰تا۵۲۲)

اعتراض:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان دونوں صحیح ثروں کے خلاف ایک اور اثر بھی مروی ہے جس میں رکوع میں رکعت ہونے کا جواز ہے۔ (جزء القراۃ بخاری ص۴۷۔)

اس اثر میں ایک راوی عبدالرحمٰن بن اسحاق ضعیف ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں:

ولیس ھذا ممن یعتد علی حفظہ قَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: سَأَلْتُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَلَمْ يَحْمَدْ مَعَ أَنَّهُ لَا يُعْرَفُ لَهُ بِالْمَدِينَةِ تِلْمِيذٌ إِلَّا أَنَّ مُوسَى الزَّمْعِيَّ رَوَى عَنْهُ أَشْيَاءَ فِي عِدَّةٍ مِنْهَا اضْطِرَابٌ۔ (جزء القراة امام بخاری ص۴۷)

کہ عبدالرحمٰن بن اسحاق قابل اعتمادراوی نہیں ہے اور مدینہ بھر میں اس کا ایی بھی شاگرد نہیں ہے۔ ہاں موسیٰ زمعی نے اس سے چند روایات بیان کی ہیں مگر ان میں اکثر مضطرب ہیں۔

جمہور کی دوسری دلیل:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا، وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا، وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ» (ابوداؤدمع عون ص۳۳۲ج۱ باب الرجل یدرک الامام)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جب تم ہم سے ملو اور ہم سجدے میں پہنچ چکے ہوں تو تم بھی سجدہ میں پڑ جاؤ اور اس سجدہ کا کچھ اعتبار نہ کرو، تاہم جس نے امام کےساتھ رکوع پالیا، اس نے رکعت پالی۔‘‘

یہ حدیث سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں یحیی بن ابی سلیمان راوی منکر الحدیث ہے۔ زبیر بن ابی عتاب اور ابن مقبری سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے، چنانچہ امیر المومنین فی الحدیث  امام بخاری فرماتے ہیں:

وَيَحْيَى مُنْكَرُ الْحَدِيثِ رَوَى عَنْهُ أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ الْبَصْرِيُّ مَنَاكِيرَ وَلَمْ يَتَبَيَّنْ سَمَاعُهُ مِنْ زَيْدٍ وَلَا مِنِ ابْنِ الْمَقْبُرِيِّ، وَلَا تَقُومُ بِهِ الْحُجَّةُ۔ (جزء القراة ص۷۴ قال البیھقی تغرد به یحیی بن سلیمان ھذا ولیس بالقوی۔ (جزء القراة بیھقی، عون المعبود ص۳۳۲ج۱)

میزان اور تہذیب میں ہے:

فقال ابو حاتم یکتب حَدِیْثَهُ وَلَیسَ بالقوی۔ (عون المعبد ص۳۳۳)

اگرچہ ابن حبان اور حاکم نے اس کی توثیق فرمائی ہے۔ مگر امام بخاری اور ابوحاتم جیسے ائمہ حدیث کی مقابلہ میں ان کی توثیق کا کچھ اعتبار نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ تقریب میں فرماتے ہیں:

یحییٰ بن ابی سلیمان المدنی ابو صالح لین الحدیث۔ (تقریب ص۳۷۶)

کہ یحیی بن ابی سلیمان کمزور راوی ہے۔

إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا، وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا ساری عبارت شاذ اور منکر ہے: کیونکہ بقول امام بخاری، اس حدیث کو ایک کثیر جماعت نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے مگر کسی نے یہ زیادتی بیان نہیں کی۔

مثلاً: امام مالک، عبداللہ بن عمر، یحیی بن سعید، ابن الہاد، یونس، معمر، سفیان بن عیینہ، شعیب، ابن جریج اور عراک بن مالک نے یحییٰ بن ابی سلیمان کے خلاف اس زیادتی کو بیان نہیں کیا۔ (ملاحظہ ہو جز القراة بخاری ص۶۷، عون المعبود ص۳۳۴ج۱)

اور علامہ شمس الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَتَفَرَّدَ بِهِ یحیی بن سلیمان ولیس بالقوی۔ (المغنی علی الدار قطنی ص۱۳۲ج۱)

اس حدیث کے اندر رکوع میں رکعت مکمل ہونے کاثبوت نہین ہے۔ بلکہ لفظ رکعت سے مراد رکعت ہی ہے رکوع نہیں۔ اور مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ جس نے رکعت پائی اس نے نماز پالی کیونکہ ادنیٰ درجہ جماعت ایک رکعت ہے۔ جیسے:

عن ابْنُ عَبَّاسٍ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَوْفِ بِهَؤُلَاءِ رَكْعَةً، وَبهَؤُلَاءِ رَكْعَةً، (عون المعبود ج۱ص۴۷۳)

کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی زبان پر نماز خوف ایک رکعت فرض فرمائی۔

اس سے معلوم ہوا کہ جس نے رکعت سے کم حصہ پایا، مثلاً: رکوع میں شریک ہوا اس نے نماز نہیں پائی، وہ یہ رکعت نئے سرے سے پڑھے۔ اور رکعت سے رکوع مراد لینا معتذر ہے کیونکہ یہ مجازی معنی ہے اور م جازی معنی وہاں کیا جاتا ہے جہاں حقیقت متعذر ہو اور یہاں حقیقت متعذر نہیں کیونکہ یہاں رکعت سے مراد رکعت ہی ہے اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ راوی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود رکوع میں ملنے والی رکعت کے قائل نہیں ہیں۔ عون المعبود میں ہے:

قِيلَ المراد به ها هنا الرُّكُوعُ فَيَكُونُ مُدْرِكُ الْإِمَامِ رَاكِعًا مُدْرِكًا لِتِلْكَ الرَّكْعَةِ وَفِيهِ نَظَرٌ لِأَنَّ الرَّكْعَةَ حَقِيقَةٌ لِجَمِيعِهَا وَإِطْلَاقُهَا عَلَى الرُّكُوعِ وَمَا بَعْدَهُ مَجَازٌ لَا يُصَارُ إِلَيْهِ إِلَّا لِقَرِينَةٍ كَمَا وَقَعَ عِنْدَ مُسْلِمٍ مِنْ حَدِيثِ الْبَرَاءِ بِلَفْظِ فَوَجَدْتُ قِيَامَهُ فَرَكْعَتَهُ فَاعْتِدَالَهُ فَسَجَدْتَهُ فَإِنَّ وُقُوعَ الرَّكْعَةِ فِي مُقَابَلَةِ الْقِيَامِ وَالِاعْتِدَالِ وَالسُّجُودِ قَرِينَةٌ تَدُلُّ عَلَى أن المراد بها الركوع وها هنا لَيْسَتْ قَرِينَةٌ تَصْرِفُ عَنْ حَقِيقَةِ الرَّكْعَةِ فَلَيْسَ فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ مُدْرِكَ الْإِمَامِ رَاكِعًا مُدْرِكٌ تِلْكَ الرَّكْعَةِ۔ (عون المعبود ص۳۳۲، باب الرجل یدرک الامام ساجد ۱ کیف یصنع)

یعنی کہا گیا کہ اس حدیث میں رکعت سے مراد رکوع ہے، لہٰذا جو شخص امام کو رکوع کی حالت میں پائے گا تو اس کی رکعت ہو جائے گی۔ مگر یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ رکعت کے حقیقی معنی پوری رکعت ہے اور رکوع پر رکعت کا اطلاق مجازی ہے جس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے جیسے مسلم کی براء کی حدیث میں رکعت سے مراد رکوع ہے، کیونکہ رکوع کا قیام اعتدال اور سجدہ کے مقابلہ میں واقع ہونا اس بات کا قرینہ ہے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں کوئی قرینہ نہیں۔ پس رکعت سے رکوع مراد لینا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ رکوع میں رکعت ہوتی ہے، صحیح نہیں ہے، ویسے بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے محقق مسلم کےخلاف ہے۔

جمہور کی تیسری دلیل:

عن ابی بکرة انه انتھی الی النبیﷺ وھورَاكِعٌ فَرَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى الصَّفِّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا فَلَا تَعُدْ» (باب اذا رکع دون الصف، صحیح بخاری ج۱ص۱۰۸)

’’حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے حضرت محمدﷺ تک پہنچا تو آپﷺ رکوع میں جا چکے تھے۔ میں نے صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا۔ جب آنحضرتﷺ کے پاس یہ فعل ذکر کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تیری حرص میں برکت کرے آئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘

اس حدیث میں یہ کہیں نہیں آتا کہ مدرک رکوع کی رکعت ہوجاتی ہے، بلکہ اس حدیث سے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رکعت کا اعتبار نہیں کیا گیا، چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:

فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَعُودَ لِمَا نَهَى النَّبِيُّ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ وَلَيْسَ فِي جَوَابِهِ أَنَّهُ اعْتَدَّ بِالرُّكُوعِ عَنِ الْقِيَامِ، وَالْقِيَامُ فَرْضٌ فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى ﴿...وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ﴿٢٣٨﴾...البقرة  وَقَالَ ﴿...إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ...٦﴾...المائدة وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا» (جزء القراة امام بخاری ص۴۷)

’’کہ ابوبکرہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ کے منع کرنے کے بعد کسی کو جائز نہیں کہ وہ صف سے باہر ہی رکوع کرنا ہوا امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوجائے۔ ابوبکرہ کی حدیث میں یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ عدم قیام (وقراءۃ) کے باوجود اس کو رکعت شمار کیا ہو۔ یہ معلوم رہے کہ کتاب وسنت میں قیام فرض ہے جیسے کہ قومو اللہ قانتین اور صل قائما کے جملوں سے معلوم ہوتا ہے علاوہ ازیں جزاء القراۃ میں یہ بھی ہے۔‘‘

عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَسَمِعَ نَفَسًا شَدِيدًا أَوْ بَهَرًا مِنْ خَلْفِهِ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِي بَكْرَةَ: «أَنْتَ صَاحِبُ هَذَا النَّفَسِ؟» قَالَ: نَعَمْ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ، خَشِيتُ أَنْ تَفُوتَنِي رَكْعَةٌ مَعَكَ فَأَسْرَعْتُ الْمَشْيَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ صَلِّ مَا أَدْرَكْتَ وَاقْضِ مَا سَبَقَ " (ص۶۳جزء القراه بخاری)

’’حضرت ابوبکرہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے صبح کی نماز میں سانس چڑھنے اور ہانپنے کی آواز سنی، نماز سے فارغ ہو کر ابوبکرہؓ سے فرمایا، کیا یہ تمہاری آواز تھی، میں نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! چونکہ میری ایک رکعت فوت ہو رہی تھی، اس لئے میں نے جلدی کی، توآنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تیرے شوق میں برکت کرے، آئندہ ایسا نہ کرنا۔ جتنی نماز امام کے ساتھ پڑھ سکو، پڑھ لو اور جوپہلے ہوچکی ہو اس کی قضا دے لو یعنی پوری کرو۔ اور طبرانی کے الفاظ یہ ہیں۔

وَاَقْضِ مَا سَبَقَکَ۔ (فتح الباری ج۲ص۲۶۸ باب اذا رکع دون الصف)

’’کہ تمہاری جتنی نماز رہ گئی ہے، اس کو پورا کرو۔‘‘

اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا سَمِعْتُمُ الإِقَامَةَ، فَامْشُوا إِلَى الصَّلاَةِ وَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالوَقَارِ، وَلاَ تُسْرِعُوا، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا» (صحیح بخاری باب لا یسعی فی الصلوة ص۸۸ج۱)

’’کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تکبیر سننے پر آرام اور وقار کے ساتھ نماز کی طرف آؤ جلدی جلدی مت آؤ،جتنی جماعت مل جائے، پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو۔‘‘

چنانچہ حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى أَنَّ مَنْ أَدْرَكَ الْإِمَامَ رَاكِعًا لَمْ تُحْسَبْ لَهُ تِلْكَ الرَّكْعَةُ لِلْأَمْرِ بِإِتْمَامِ مَا فَاتَهُ لِأَنَّهُ فَاتَهُ الْوُقُوفُ وَالْقِرَاءَةُ فِيهِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَجَمَاعَةٍ بَلْ حَكَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ عَنْ كُلِّ مَنْ ذَهَبَ إِلَى وُجُوبِ الْقِرَاءَة خلف الإِمَام وَاخْتَارَهُ بن خُزَيْمَةَ وَالضُّبَعِيُّ وَغَيْرُهُمَا مِنْ مُحَدِّثِي الشَّافِعِيَّةِ وَقَوَّاهُ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ السُّبْكِيُّ مِنَ الْمُتَأَخِّرِينَ۔ (فتح الباری ص۱۱۹ج۲ باب ما ادرکتم فصلوا وما فاتکم فاتموا۔)

کہ اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ مدرک رکوع کی رکعت گنی نہیں جائے گی کیونکہ آنحضرتﷺ نے فوت شدہ نماز کو پورا کرنے کا حکم دیاہے۔ کیونکہ اس کا قیام اور قراءۃ ام القران (دوفرض) رہ گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورعلماء کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ بلکہ امام بخاری نے کہا ہے کہ یہی مذہب ہر اس شخص کا جو فاتحہ خلف الامام کو فرض سمجھتا ہے۔

بہرحال ابوبکرہ کی یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ رکوع پالینے والے کی رکعت پوری ہوجاتی ہے۔

جمہور کی چوتھی دلیل:

قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَزَادَ ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ قُرَّةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَقَدْ أَدْرَكَهَا قَبْلَ أَنْ يُقِيمَ الْإِمَامُ صُلْبَهُ» (جزء القراة بخاری ص۶۷)

کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا، جس نے امام کے ساتھ رکوع پالیا، پہلے اس کے کہ امام اپنی پیٹھ سیدھی کرے تو اس نے رکعت پالی۔

یہ حدیث سخت ضعیف ہے۔ چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:

وَأَمَّا يَحْيَى بْنُ حُمَيْدٍ فَمَجْهُولٌ لَا يُعْتَمَدُ عَلَى حَدِيثِهِ غَيْرُ مَعْرُوفٍ بِصِحَّةٍ، خَبَرُهُ مَرْفُوعٌ وَلَيْسَ هَذَا مِمَّا يَحْتَجُّ بِهِ أَهْلُ الْعِلْمِ، وَقَدْ تَابَعَ مَالِكًا فِي حَدِيثِهِ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ الْهَادِ، وَيُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَشُعَيْبٌ، وَابْنُ جَرِيجٍ، [ص:52] وَكَذَلِكَ قَالَ عِرَاكُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَوْ كَانَ مِنْ هَؤُلَاءِ وَاحِدٌ لَمْ يَحْكُمْ بِخِلَافِ يَحْيَى بْنِ حُمَيْدٍ أُوثِرَ ثَلَاثَةٌ عَلَيْهِ، فَكَيْفَ بِاتِّفَاقِ مَنْ ذَكَرْنَا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَعِرَاكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ خَبَرٌ مُسْتَفِيضٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحِجَازِ، وَغَيْرِهَا وَقَوْلُهُ: «قَبْلَ أَنْ يُقِيمَ الْإِمَامُ صُلْبَهُ» لَا مَعْنَى لَهُ وَلَا وَجْهَ لِزِيَادَتِهِ۔ ((جزء القراةبخاری ص۶۷)

’’کہ یحییٰ بن حمید غیر ذمہ دار اور ناقابل حجت ہے اور نہ اس کی مرفوع حدیث کی صحت اہل علم کے نزدیک تسلیم کی گئی ہے۔ اور یحییٰ بن حمید کے برخلاف عبیداللہ بن عمر، یحییٰ بن سعید، یونس، معمر، سفیان بن عیینہ اور شعیب، ابن جریج نے مالک کی روایت کی متابعت کی ہے اور عراک بن مالک بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی روایت کرتا ہے۔ یہاں اگر ایک آدھ راوی یحییٰ بن حمید کے خلاف ہوتا تو میں اپنی رائے پر اسے ترجیح نہ دیتا مگر یہان تو پوری جماعت کی جماعت یحیی بن حمید کے خلاف ہے اور یہ روایت اہل حجاز کے ہاں کثرت حاصل کر چکی،یعنی یہ مستفیض روایت ہے۔

قبل ان یقیم الامام صلبہ بے معنی الفاظ ہیں۔ اور اس جملہ کی زیادتی کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی: یعنی الفاظ شاذ اور منکر ہیں کیونکہ یحیی بن حمید نے اپنے دس مذکورہ ساتھیوں کے خلاف ان الفاظ کو ذکر کیا ہے۔

یہاں فقد ادرکھا سے مراد رکعت نہیں ہے بلکہ جماعت کا ثواب اور نماز ہے: چنانچہ انہی ابوہریرہؓ سے مروی ہے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصَّلَاةِ رَكْعَةً فَقَدْ أَدْرَكَ۔ (جزء القراة بخاری ص۶۷)

جناب نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ جس نے جماعت کے ساتھ ایک رکعت پالی تو اس نے جماعت کا ثواب پالیا۔ اس میں ایک راوی قرہ بن عبدالرحمان بھی ضعیف ہے، چنانچہ تقریب التہذیب میں ہے۔

قرة بن عبدالرحمان اسمه یحیی صدوق له مناکیر من السابعة۔ (تقریب ص۲۸۲)

فقہاء ومحدثین کے دلائل:

ازروئے احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ امام، مقتدی، مسافر پر ہرسری، جہری نماز میں اور نماز کی ہر ہر رکعت میں نماز، خواہ فرض ہو یا نفل جماعت کے ساتھ ہو یا الگ، ہر شخص پر سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔

چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ان الفاظ میں ترجمہ قائم کیا ہے:

بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ (ص ۱۰۴ ج۱، صحیح بخاری)

اور پھرمندرجہ ذیل احادیث سے انہوں نے اپنے مقدمہ کو مدلل کیا ہے:

عن عبادة بن الصامت ان رسول اللہﷺ قال لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ۔ (ص۱۰۴)

’’کہ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص فاتحۃ الکتاب نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘

اعتراض:

اس حدیث میں تو صرف یہ آتا ہے کہ نماز نہیں ہوتی، یہ تو نہیں کہا کہ یہ نماز کفایت نہیں کرتی؟

جواب: (۱) امام بخاریؒ فرماتے ہیں:

إِنَّ الْخَبَرَ إِذَا جَاءَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحُكْمُهُ عَلَى اسْمِهِ وَعَلَى الْجُمْلَةِ حَتَّى يَجِيءَ بَيَانُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (جزء القراة بخاری ص۸)

’’کہ جب آنحضرتﷺ کی طرف سے کوئی خبر آئے تو اس کا حکم اسی حال پر رہے گا اور اس کی تاویل کی اجازت نہیں ہوگی، حتی کہ آنحضرتﷺ کی طرف سےاس کی وضاحت نہ آجائے۔‘‘

جواب نمبر ۲: احادیث میں تصریح ہے فاتحہ کے بغیر نماز کفایت نہیں کرتی۔

قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: لَا تُجْزِيهِ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ۔ (تحفة الاحوذی ج۱ص۲۰۷)

اور ابن حبان، ابن خزیمہ اور دارقطنی نے عبادہ بن صامتؓ سے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں:

لا تجزی صلوة لا یقرأ فیھا بفاتحة الکتاب۔ (تحفة الاحوذی ص۲۰۶ج۱)

’’کہ فاتحۃ الکتاب کے بغیر کفایت نہیں کرتی۔‘‘

حدیث میں لا صلاة بفاتحة الکتاب لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ

فی کل رکعۃ کی تصریح نہیں آئی۔

۱۔            امام بخاری فرماتے ہیں:

قِيلَ لَهُ: قَدْ بَيَّنَ حِينَ قَالَ: «اقْرَأْ ثُمَّ ارْكَعْ ثُمَّ اسْجُدْ ثُمَّ ارْفَعْ فَإِنَّكَ إِنْ أَتْمَمْتَ صَلَاتَكَ عَلَى هَذَا فَقَدْ تَمَّتْ، وَإِلَّا كَأَنَّمَا تَنْقُصُهُ مِنْ صَلَاتِكَ» ، فَبَيَّنَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ فِيَ كُلِّ رَكْعَةٍ قِرَاءَةً وَرُكُوعًا وَسُجُودًا وَأَمَرَهُ أَنْ يُتِمَّ صَلَاتَهُ عَلَى مَا بَيَّنَ لَهُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى وھذا حدیث مفسر للصلوة کلھا لا لرکعة دون رکعة وَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْأَرْبَعِ كُلِّهَا۔ (جزء القراة س۶۵)

’’کہ ایک آدمی نے نماز اچھے طریقہ سے نہ پڑھی تو آنحضرتﷺ نے اس کو فرمایا تھا کہ پہلے قراۃ کر اور پھر رکوع میں چلے جااور پھراٹھ کھڑا ہواور پھر سجدہ کر، پھراٹھ، پھراگرتو نے اس طریقہ پر اپنی نماز پوری کر لی توتیری نماز مکمل ہوگئی۔ ورنہ نامکمل رہی۔‘‘ اس حدیث کے مطابق حضرت نبی اکرمﷺ نے وضاحت فرما دی ہے کہ ہر رکعت میں قراۃ، رکوع، سجدہ ضروری ہے۔ اور فرمایا کہ پہلی رکعت کی طرح اپنی نماز پوری کرو۔ اور یہ حدیث پوری نماز کی تفسیر ہے۔ نہ کہ ایک آدھ رکعت کے لیے ہے۔ اور بخاری شریف میں اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں۔

وافعل فی صلوتک کلھا۔ (صحیح بخاری ص۱۰۵ بروایت ابو ھریرہ لا صلوة الا بفاتحة الکتاب۔)

پھر اپنی پوری نمازمیں اسی طرح کرو۔

وضاحت:

قراۃ سے مراد مطلق قرآن نہیں ہے بلکہ اس سے مرادقراۃ فاتحۃ الکتاب ہے جیسے کہ ابوداؤد میں اس کی تصریح موجودہے۔

عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ، - بِهَذِهِ الْقِصَّةِ -، قَالَ: «إِذَا قُمْتَ فَتَوَجَّهْتَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، وَبِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَقْرَأَ، وَإِذَا رَكَعْتَ فَضَعْ رَاحَتَيْكَ عَلَى رُكْبَتَيْكَ، وَامْدُدْ ظَهْرَكَ» (عون المعبودص۳۲۱ج۱ باب صلوة من لا یقیم سلبه فی الرکوع ووالسجود، سکت عليه ابو داؤد المنذری والعلامةشمس الحق الدیانوی فی عون المعبود وسکت عليه ایضاالحافظ ابن حجر فی فتح الباری فھذا الحدیث عنده حسن ایضا۔ (فتح الباری ص۴۱۶)

کہ اس قصہ میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تو قبلہ رخ ہوکر کھڑاہوجائے تو اللہ اکبر کہو اورپھر سورۃ فاتحہ وغیرہ پڑھو اورپھررکوع میں ہاتھوں کو گھٹنوں پررکھو اور اپنی پیٹھ کوہموارکرو، بہرحال اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحیح بخاری اور جزء القراءۃ کے الفاظ میں اقراء سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ مطلق قراءت قرآن مراد نہیں ہے۔

اس کی تائید ابوداؤد کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: «أُمِرْنَا أَنْ نَقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَا تَيَسَّرَ» (عون المعبود ج۱ باب من ترک القراۃ فی صلوته بفاتحة الکتاب ص۳۰۰، فتح الباری پ۳ باب وجوب القراة ص۴۱۶، کتاب القراۃ للبیھقی ص۱۵)

اور امام بیہقی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے۔

فَأَسْبَغِ الْوُضُوءَ، ثُمَّ كَبِّرْ، فَإِذَا اسْتَوَيْتَ قَائِمًا قَرَأْتَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، ثُمَّ قَرَأْتَ بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، (کتاب القراة ص۱۵ القراة للبیھقی۔)

ان تمام حدیثوں سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قراءۃ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔

۲۔ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ خلف الامام وھذا اسناد صحیح والزیادة التی فيه کزیادةالتی فی حدیث مکحول وغیرہ فھی عن عباده بن الصامت صحیحة مشھورة من اوہ کثیرة۔ (جزء القراة للبیھقی ص۵۶، عون المعبود ص۳۳۴ج۱)

’’کہ حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی، اس کی نماز نہیں ہوئی۔‘‘

۳۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ» ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ. فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ؟ فَقَالَ: «اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ» ؛ فإنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " قَالَ اللهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] ، قَالَ اللهُ تَعَالَى: حَمِدَنِي عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ: {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1] ، قَالَ اللهُ تَعَالَى: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ: {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ} ، قَالَ: مَجَّدَنِي عَبْدِي - وَقَالَ مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي - فَإِذَا قَالَ: {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} [الفاتحة: 5] قَالَ: هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ: {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] قَالَ: هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ " (صحیح مسلم نووی ج۱ص۱۷۰۔ الخ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے یہ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص سورۂ فاتحہ کے  بغیر نماز پڑھے گا تو اس کی نماز بےکار اور ادھوری ہے۔ یہ بات آپ نے تین بارفرمائی۔ ہم نے کہا ہم تو امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس وقت دل میں ہی پڑھ لیا کرو۔ کیونکہ میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں نے نماز (الحمد) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر لیا ہے، میرے بندے کے لئے وہ کچھ ہے جو وہ مانگے جب بندہ کہتا ہے الْحَمْدُللہ رَبِّ الْعَالَمِیْن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ جب بندہ کہتا ہے الرحمن الرحیم اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری کی تعریف (ثنا) کی۔  جب بندہ کہتا ہے مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ کہتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی (ایک دوسری دفعہ روایت کرتے راوی نے) میرے بندے نے اپنا کام مجھے سونپ دیا۔ جب بندہ کہتا ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے۔ میرے بندے کے لئے وہ جو سوال کرے۔ پھر جب بندہ کہتا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو اللہ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لئے ہے اور اس کے لئے وہ کچھ ہے جس کا وہ سوال کرے۔ چنانچہ سورۂ فاتحہ کی اہمیت کے پیش نظر امام نوویؒ نے باب وجوب قراءۃ الفاتحہ فی کل رکعۃ کا ترجمہ قائم کرکے لکھاہے۔ (صحیح مسلم مع نووی ص۱۶۹،۱۷۰، جالقراۃ بخاری ص۴۷،۴۸)

فيه دلیل لمذھب الشافی ومن وافقه ان قراة الفاتحة واجبة علی الامام والماموم والمنفرد ومم یوید وجوبھا علی الماموم قول ابی ھریرة اقرا بھا فی نفسک۔ (نووی ج۱ص۱۷۰)

کہ اس حدیث کے مطابق امام، مقتدی اور منفرد پرواجب ہے کہ وہ ہررکعت میں فاتحہ پڑھا کریں اور یہ بھی یاد رہے یہ یہاں صلوۃ سے مراد فاتحہ ہے۔ چنانچہ امام نوویؒ فرماتے ہیں:

وقَالَ الْعُلَمَاءُ الْمُرَادُ بِالصَّلَاةِ هُنَا الْفَاتِحَةُ سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِأَنَّهَا لَا تَصِحُّ إِلَّا بِهَا كَقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجُّ عَرَفَةُ فَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى وُجُوبِهَا بِعَيْنِهَا فِي الصَّلَاةِ۔ (ص۱۷۰ج۱)

کہ علماء  نے کہا ہے کہ یہاں صلوۃ سے مراد فاتحہ ہے اور فاتحہ کو نماز اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے بغیر  نماز صحیح نہیں ہوتی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ آنحضرتﷺ نے وقوف عرفہ کی اہمیت وجوب کی وجہ سےنفس وقوف عرفہ کوحج قرار دیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ کا پڑھنا فرض عین ہے۔ موصوف مزید فرماتے ہیں:

وَالصَّحِيحُ الَّذِي عَلَيْهِ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ وُجُوبُ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَعْرَابِيِّ ثم افعل ذلك في يصلاتك كُلِّهَا۔ (نووی ص۱۷۰ج۱)

بہرحال جمہور علمائے سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ ہررکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ نے اعرابی کو تاکید فرمائی تھی کہ وہ ہررکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھے۔

۴۔ قال ابو داؤد سال رجل رسول اللہﷺ أفی کل صلوة قراة قال نعم قال رجل من الانصار وجبت۔ (جزء القراة بخاری ص۸)

’’حضرت ابودرداء سے روایت ہے کہ آدمی نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ کیا ہرنمازمیں قراءت (سورۃ فاتحہ) ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں! اس پر ایک انصاری کہنے لگا: تب تو قراۃ واجب ہوگئی۔‘‘

۵۔ قال البخاری تَوَاتَرَ عَنْ رسول اللہﷺ لَا صَلوٰۃَ اِلَّا بقرأۃ اُمِّ الْقُرْان۔ (جزء القراة ص۸)

’’کہ آنحضرتﷺ کی یہ حدیث متواتر ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر ک سی کی نمازنہیں ہوتی۔‘‘

۶۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ الْإِمَامَ فِي الرُّكُوعِ فَلْيَرْكَعْ مَعَهُ وَلْيُعِدْ الرَّكْعَةَ» (جزء القراة ص)

’’جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس نے امام کو رکوع میں پایا وہ اس کے ساتھ رکعت ادا کرے اور اس رکعت کو لوٹائے۔‘‘

۷۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ: «أَنَّهُ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ» فَمَا زَادَ۔ (جزء القراة بخاری ص۴)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ کے حکم کے مطابق میں نے منادی کردی کہ سورۃ فاتحہ اور مزید قراءت کے سوا نماز بالکل نہیں ہوتی۔‘‘

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا أَبُو عمرو المستملی اخبرنا علی بن حجم واخبرنا ابو عبداللہ حدثنی ابو الطیب الکرابیسی حدثنا ابراھیم بن محمد حدثنا علی بن حجر حدثنا شریک عن اشعث بن سلیم عن عبداللہ بن زیادالاسدی قال صلیت الی جنت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خلف الامام فسمعته یقرأ فی الظھر والعصر۔ (کتاب القراة للبیھقی ص۷۶، حدیث ۱۷۲)

’’کہ عبداللہ بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پہلو میں امام کے پیچھے نماز پڑھی تو میں نے سنا کہ آپ (عبداللہ بن مسعودؓ) ظہر اور عصر کی نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھ رہے تھے۔‘‘

بہرحال مذکورہ احادیث صحیحہ، صریحہ، متصلہ، غیر  معللہ ولاشاذہ کے مطابق ہمارے نزدیک یہی زیادہ صحیح ہے کہ امام، مقتدی اور منفرد کی کوئی نماز بھی خواہ مقامی ہو یا مسافر، نماز نفلی ہو یا فرضی، بغیر سورہ فاتحہ پڑھنے کے ہرگز صحیح نہیں ہوگی۔ اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ مدرک رکوع کی رکعت بھی صحیح نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ ہر نماز کی رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ ہمارے نزدیک یہی قول اسلم واحوط ہے۔ واللہ اعلم وعلمه اتم وحکمه احکم

بہرحال میرے بھائی، نئے اور پرانے فیشن کی پھبتی مناسب نہیں ہے۔ اگرچہ مدرک رکوع کے متعلق پرانا اختلاف چلا آرہاہے اور دونوں گروہ اپنے اپنے دلائل بھی رکھتے ہیں، حتی کہ امام شوکانیؒ نے اپنے رسالہ فتح الربانی میں مدرک رکوع کی رکعت کو صحیح تسلیم کرلیاہے۔ مگر اس فقیر پر تقصیر کے نزدیک ازروئے مذکورہ دلائل حدیثہ کے مدرک رکوع نہیں ہوتی۔ اور اس کو یہ رکعت دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔ کیونکہ قیام اور قراءت سورۃ فاتحہ چھوٹ چکے ہیں اور یہ دونوں (قیام وسورہ فاتحہ) فرض اور رکن ہیں اور فرض ورکن کی ادائیگی کے بغیر رکعت نہیں  ہوگی۔ رہا آپ کا یہ خدشہ کہ اگر مدرک رکوع کی رکعت کو تسلیم نہ کیا جائے  تو پھر صبح کی نماز میں ۳ رکوع اور ظہر وعصر کی نماز میں ۵رکوع ہوجائیں گے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے طور پر تعداد رکوع میں اضافہ یقیناً ناجائز ہے۔ تاہم اگر امام کی اقتدا میں ایسا ہو جائے تو پھر اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں ہے۔ کیونکہ امام کی اقتدا ضروری ہے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل حدیث اسی پر دلالت کر رہی ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، (عون المعبود ص۲۳۵ باب الامام یصلی فقود، موطا ص۱۱۷،۱۱۸، باب صلوة الامام وھو جالس۔)

کہ امام اس لئے بنایا جاتا ہے اس کی اقتدا کی جائے۔

 عون المعبود شرح ابی داؤد کے مطابق خود آنحضرتﷺ کو بھی ایک دفعہ عبدالرحمٰن بن عوف کیااقتدا  میں صبح کی نماز میں تین رکوع کرنے پڑے تھے اور حدیث یہ ہے۔

عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، قَالَ: تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ هَذِهِ الْقِصَّةَ، قَالَ: فَأَتَيْنَا النَّاسَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ يُصَلِّي بِهِمُ الصُّبْحَ -[39]-، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ أَنْ يَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنْ يَمْضِيَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ رَكْعَةً، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى الرَّكْعَةَ الَّتِي سُبِقَ بِهَا، وَلَمْ يَزِدْ عَلَيْهَا شیئا۔ (عون المعبود ص۵۷ ج۱ باب مسح علی الخفین)

زرارہ بن اوفی سے روایت ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک دفعہ صبح کی نماز سے لیٹ ہوگئے تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جماعت کرائی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ آنحضرتﷺ تشریف لے آئے ہیں تو انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا۔ لیکن آپ نے اشارہ سے انہیں نماز کو شروع رکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ مغیرہ کہتے ہیں کہ میں نے اور آنحضرتﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کی۔ جب عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا تو ہم نے ایک رکعت اٹھ کر ادا کی۔

اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ آپ نے امام کی اقتدا میں صبح کی نماز میں دو تشہد پڑھے حالانکہ اس میں تشہد صرف ایک ہوتا ہے۔

تو یہی حکم اس جبری رکوع کا سمجھ لیناچاہیے جوامام کی اقتدامیں بعض دفعہ مغرب کے چاررکوع اورچار تشہد بن جاتے ہیں مگر یہ سب اس لئے جائز ہیں کہ امام کی اقتدا فرض ہے، بہرحال ہمارے نزدیک مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہوتی۔ اور امام کی اقتدا میں اگر نماز کے ارکان میں اضافہ ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص394

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ