سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(108) ننگے سر نماز پڑھنا افضل ہے یا سر ڈھانپ کر؟

  • 14211
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 4232

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ننگے سر نماز پڑھنی افضل ہے یا سر ڈھانپ کر افضل ہے؟ جواب کتاب وسنت کی روشنی میں صادر فرمایا جائے۔(شیخ ثناءاللہ صاحب محلہ رضا آباد فیصل آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسی طرح ننگے سر نماز کو سنت باور کرانے والے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو اپنے موقف کے اثبات میں بڑے دھڑ لے کے ساتھ پیش کرتے ہیں:

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْكَدِرِ، قَالَ: «صَلَّى جَابِرٌ فِي إِزَارٍ قَدْ عَقَدَهُ مِنْ قِبَلِ قَفَاهُ وَثِيَابُهُ مَوْضُوعَةٌ عَلَى المِشْجَبِ» ، قَالَ لَهُ قَائِلٌ: تُصَلِّى فِى إِزَارٍ وَاحِدٍ؟، فَقَالَ: «إِنَّمَا صَنَعْتُ ذَلِكَ لِيَرَانِي أَحْمَقُ مِثْلُكَ وَأَيُّنَا كَانَ لَهُ ثَوْبَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (صحیح البخاری: ج۱ص۵۱)

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ایک تہبند میں گلیتی باندھ کر نماز پڑھی جب کہ ان کے شانوں والی چادر ترپائی پر ڈالی ہوئی تھی۔ تو ایک آدمی نے ان کے اس انداز پر اعتراض کیا کہ آپ نے یوں ایک کپڑے میں نماز کیوں پڑھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ تاکہ آپ جیسا نادان دیکھ لے۔ بتلاؤ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ہم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوتے تھے۔‘‘

اس حدیث سے ننگے سر نماز کا جواز یا اباحت تو ثابت ہوتی ہے۔ مگر اس سے کثرت عمل اور آپ کی سنت اور عادت مستمرہ کا استدلال ناقابل فہم ہے۔ ورنہ حضرت جابر معترض کے جواب میں أیتاکان لہ ثوبان فی عھد رسول اللہﷺ کہ کر ماضی کی یاد نہ دلاتے۔

الشیخ عبیداللہ محدث مبارکپوریؓ اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں:

والمعنی کان أکثرنا فی عھدہﷺ لا یملك إلا الثوب مع ذلك فلم یکلف تحصیل ثوب ثان لیصلی فيه علی الجواز والحدیث فيه دلیل علی جواز الصلوة فی الثوب الواحد لن یقدر علی أکثرھم وھو قول عامة الفقھاء روی عن ابن عمر خلاف ذلك وکذا من ابن مسعود۔ (مرعاة المفاتیح: ج۱ص۵۰۶)

’’اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حضرت جابر دراصل یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں اکثر صحابہ کے پاس ایک سے زائد کپڑے نہ ہوتے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے نماز پڑھنے کے لے کسی صحابی کو دوسرا کپڑا مہیا کرنے کی تکلیف نہ دی۔ پس آپ کا دوسرے کپڑے کا حکم نہ دینا ایک کپڑے میں نماز کے جواز کی دلیل ہے اور اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ ایک سے زائد کپڑے ہوتے ہوئے بھی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ عام فقہاء کا یہی قول ہے تاہم حضرت ابن عمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما اس کے خلاف ہیں۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا سنت اور افضل نہیں، ورنہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ یہ وضاحت نہ فرماتے کہ عہد رسالت میں اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس دو دو کپڑے نہ ہوتے تھے۔

۳۔ اسی طرح ننگے سر نماز کو سنت قرار دینے والے حضرات ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کی اس روایت استدلال کرتے ہیں:

عَنْ أُبی بن کعب قال اَلصَّلوة فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ سُنة۔ (رواہ احمد، مشکوة ومرعتة المفاتیح: ج۱ص۵۰۶)

’’سر ننگے نماز پڑھنا سنت ہے۔‘‘

یہ روایت مسند کی نہیں بلکہ الحاقی ہے اور ضعیف ہے۔ حافظ ہیثمی تصریح فرماتے ہیں:

رواہ عبداللہ من زیاداته والطبرانی وفيه أبو نضرة بن بقية وأبو نضرة لم یسمع من أبی ولا من ابن مسعود۔ (مرعاة ج۱ص۵۰۶)

یہ روایت ابی بن کعب رضی اللہ عنہما پر موقوف ہے اور اس کے راوی ابو نضرہ کا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں لہٰذا یہ روایت موقوف ہونے کے علاوہ منقطع اورضعیف ہے۔ لہٰذا یہ حجت نہیں۔

۴۔ حدثنا عبداللہ بن محمد الزھری حدثنا سفیان بن عیینة قال رأیت شریکا صلی بنا العصر فوضع قلنسوته بین یديه یعنی فی فریضة۔ (بذل الجھود باب الخط اذا لم یجد عصا ج۱ص۳۶۷ وعون المعبود: ج۱ص۲۵۶)

’’جناب سفیان بن عینیہؒ کہتے ہیں کہ شریک نامی آدمی نے ہم کو عصر کی فرض نماز ٹوپی اتار کر پڑھائی اور ٹوپی اپنے سامنے رکھی۔‘‘

اول یہ تو مرفوع حدیث ہے اور نہ کسی صحابی کا اثر۔

ثانی یہ کہ معلوم نہیں کہ یہ شریک کون بزرگ ہیں؟ شریک بن عبداللہ بن ابی نمر ہیں یا شریک بن عبداللہ نخعی تبع تابعی ہیں۔ مولانا خلیل احمد سہارنپوری لکھتے ہیں:

وَلَم یُتعین أَنَّ شَرِیْکاً ھٰذَا مَنْ ھُوَ فَلَعَله شَریک بن عبداللہ بن أبی نمر أو شریک بن عبداللہ النخعی۔ (بذل الجھود: ج۱ص۳۶۷)

اور صاحب عونالمعبود نے بھی یہی لکھا ہے گویا وہ ان کا پتہ نہیں چلا سکے۔ یہ شریک بن عبداللہ تابعی ہیں یا تبع تابعی ہیں۔

ثالث یہ کہ یہ دونوں ضعف سے محفوظ نہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:

شَرِیْکُ بن عبداللہ بن أبی نَمْرِ صُدُوقٌ یُخْطِی مِنَ الخامسة۔ (تقریب التھذیب: ص۱۴۵)

اور اسی طرح شریک نخعی کا بھی آخر میں حافظہ بگڑ گیا تھا۔

شریک بن عبداللہ النخعی الکوفی یخطی کثیرا تغیر حفظه من الثامنة۔ (تقریب: ص۱۴۵)

دونوں شریک نامی راویوں میں کم بیش ضعف ہے۔ لہٰذا یہ اثر دلیل نہیں بن سکتا۔

رابع یہ کہ ان کا اپنا عمل ہے: ولا حجة لاحد دون رسول اللہﷺ۔

خامس اس لیے کہ امام ابو داؤد نے اس اثر کو باب الخط إذا لم یجد عصا میں روایت فرمایا ہے۔ امام ابو داؤد کی اس صنیع اور طرز عمل سے ظاہر ہے کہ یہاں ضرورتاً سر ننگا رکھا گیا ہے کیونکہ جب ان کو سترہ کے لیے کوئی لاٹھی یا برچھی نہ ملی تو انہوں نے سترہ کا کام ٹوپی سے لے لیا۔ گویا انہوں نے ٹوپی کا سترہ کے طور پر استعمال کیا۔ ضرورت اور کسی عذر سے سر ننگا رکھا جائے تو اس میں بحث نہیں۔ بحث اس میں ہے کہ فیشن اور عادت کے طور پر نماز میں سر ننگا رکھنا کہاں تک درست ہے؟ بہرحال یہ شریک تابعی ہوں یا تبع تابعی دونوں میں کچھ نہ کچھ ضعف ہے۔ لہٰذا مذکورہ پانچ وجوہ کے پیش نظر یہ اثر حجت نہیں۔ اور فصل خصومات میں ایسی کمزور روایت دلیل نہیں بن سکتی۔

ان احادیث وآثار کے مطابق ننگے سر نماز، کپڑے ہونے نہ ہونے دونوں صورتوں میں بلاشبہ جائز ہے۔ جس طرح کسی شخص کی پنڈلی، پیٹ، اور پشت وغیرہ اعضاء برہنہ ہوں تو اس حالت میں اس کی نماز جائز ہے، اسی طرح سر ننگے بھی بلا شبہ جائز ہے۔ اسی طرح امام اگر نماز کے بعدپاؤں آسمان کی طرف اٹھائے یا مقتدی حضرات کوئی ایسی حرکت کریں۔ احادیث میں اس سے رکاوٹ ثابت نہیں ہوگی۔ مگر صاحب دانش ایسا کرنے سے یقیناً گریز کرے گا۔ ننگے سر نماز پڑھنے کی عادت بھی قریباً اسی قبیل سے ہے۔ جواز کے باوجود ایسی عادات وحرکات عقل وفہم کے خلاف ہیں۔ دانا اور متدین آدمی کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لہٰذا سر ننگے نماز کے جواز اور اباحت سنت قرار دینا یا سنت سمجھ کر اس کو اپنانا اور باور کرانا رسول اللہﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سلف صالحینؒ کے تعامل اور توارث کے خلاف ہے۔ ہمارے اس مؤقف کی تائیدات حسب ذیل ہیں:

۱۔ ننگے سر نماز کو سنت باور کرنے والے کہا کرتے ہیں کہ سر اعضائے ستر میں شامل نہیں۔ لہٰذا اس کا ڈھانپنا ضروری نہیں۔ ہمیں تسلیم ہے کہ سر اعضائے ستر میں شامل نہیں۔ مگر ننگے سر نماز کے مسئلہ کواس لحاظ سے نہیں، بلکہ آداب نماز کے لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ ﴿٢٦﴾...الاعراف

’’اے بنی آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے جو تمہاری شرمگاہ چھپاتا ہے اور زیبائش بھی ہے اور پرہیز گاری کا لباس یہ سب سے بہتر ہے۔ یہ (لباس) اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ سمجھیں۔‘‘

اس آیت شریفہ سے ثابت ہوا کہ لباس جہاں انسان کی ضرورت ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بھی ہے۔ پھر آگے آیت نمبر ۳۱ میں فرمایا:

﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ... ٣١﴾...الاعراف

’’اے بنی آدم ہر نماز کے وقت اپنے آپ کو آراستہ کر لیا کرو۔‘‘

آیت نمبر ۲۶ میں لباس کو زینت فرمایا اور اس آیت نمبر ۳۱ میں اس زینت کو اس کے عمدہ موقع پر استعمال میں لانے کا حکم فرمایا۔ کیونکہ جب دنیا میں امراء سلاطین کے دربار میں بغیر لباس کے جانے کو تیار نہیں ہوتے تو نماز میں کہ خاص اللہ عزوجل کا دربار ہے، بغیر پورے لباس کے حاضر ہونا بے ادبی ہے اور اس میں مشرکین کی اس افرط وتفریط کا بھی رد ہے جس کو ابن عباس رضی اللہ عنہا نے نقل کیا ہے کہ بعض قبائل عرب برہنہ ہو کر طواف کعبہ کرتے تھے۔ عورتیں رات کو برہنہ طواف کرتی تھیں اور مسجد منیٰ  میں آکر کپڑے اتار ڈالتے تھے۔

کوئی ان دونوں آیات کی جو بھی تفسیر کرے مگر ان دونوں کے اطلاق اور عموم سے علی الاقل۔ الحکم لیموم اللغظ لا بخصوص السبب پورا لباس زیب تن نماز پڑھنا نماز کی شان اور اس کے آداب میں شامل ہے۔ اور ہمارے عرف میں تین کپڑے پگڑی، تہبند اور قمیص پورا لباس کہلاتے ہیں۔ یہی بات ہے فیشن کے طور پر سر ننگا رکھنے کے شوقین اور تہذیب فرنگی کے رسیا لوگ اپنی شادی کے موقع پر پگڑی پہن کر جاتے ہیں۔

۲۔  امیر المومنین فی الحدیث اور رئیس الفقہاء امام بخاری اپنی صحیح میں ایک باب ان الفاظ میں قائم فرماتے ہیں:

باب وجوب الصلوة فی الثیاب وقول اللہ تعالیٰ ﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ (صحیح البخاری: ج۱ص۵۱)

امام بخاری کی اس تبویب کا مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ زینت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اعضائے ستر ڈھانکنے کے علاوہ اچھے اور صاف ستھرے کپڑوں میں نماز ادا کرنی چاہیے۔

۳۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يُصَلِّي أَحَدُكُمْ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَاتِقَيْهِ شَيْءٌ» (بخاری: ج۱ص۵۲)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے اور آنحالیکہ اس کے کندھے پر کوئی کپڑا نہ ہو۔‘‘

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

فَیَحْصُلُ الستر لجُزءِ مِّنْ أَعَالِی الْبَدَنِ وإن کان لَیسَ بِعَوْرَة۔ (مرعاة المفاتیح: ج۱ص۴۹۷)

یعنی رسول اللہﷺ نے نماز میں شانے کو ڈھانکنے کا حکم اس لیے دیا ہے تاکہ بدن کا اعلیٰ حصہ بھی نماز میں ڈھکا رہے اگرچہ وہ عورت، یعنی اعضائے ستر میں شامل نہیں۔

۴۔          حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اثر سے مزید وضاحت ملتی ہے:

۴۔ قَامَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنِ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ، فَقَالَ: «أَوَكُلُّكُمْ يَجِدُ ثَوْبَيْنِ» ثُمَّ سَأَلَ رَجُلٌ عُمَرَ، فَقَالَ: «إِذَا وَسَّعَ اللَّهُ فَأَوْسِعُوا» ، جَمَعَ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثِيَابَهُ، صَلَّى رَجُلٌ فِي إِزَارٍ وَرِدَاءٍ، فِي إِزَارٍ، وَقَمِيصٍ فِي إِزَارٍ وَقَبَاءٍ، فِي سَرَاوِيلَ وَرِدَاءٍ، فِي سَرَاوِيلَ وَقَمِيصٍ، فِي سَرَاوِيلَ وَقَبَاءٍ، فِي تُبَّانٍ وَقَبَاءٍ، فِي تُبَّانٍ وَقَمِيصٍ، قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: فِي تُبَّانٍ وَرِدَاءٍ(صحیح البخاری: ج۱ص۵۳)

’’ایک آدمی نے کھڑے ہو کر نبیﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم سب دو دو کپڑے پاتے ہو؟ پھر ایک آدمی نے حضرت عمر سے یہی سوال کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ جب اللہ تعالیٰ نے تم کو لباس میں وسعت فرما دی ہے تو تم بھی وسعت کرو۔ نمازی کو چاہیے کہ وہ اپنے کپڑے اکھٹے کر کے نماز پڑے۔ کوئی تہبند اور چادر میں نماز پڑھے، کوئی تہبند اورقمیض میں، کوئی تہبند اور قباء میں، کوئی پاجامہ اور چادر میں، کوئی پاجامے اور قمیص میں، کوئی پاجامے اور قباء میں، کوئی جانگیا اور قمیض میں نماز پڑھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا کہ کوئی جانگیا اور دچادر میں نماز پڑھے۔‘‘

عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد حکم ہو یا صرف خبر۔ اس میں کپڑوں کی کمیابی اور عدم استطاعت صاف سمجھ میں آتی ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر پورے کپڑے میسر ہوں اور کوئی مانع نہ ہو تو تکلف سے فقیری اور مسکنت کا اظہار نہ کرنا چاہیے۔ بخاری کے شارح ابن منیر فرماتے ہیں:

الصحیح أنه کلام فی معنی الشرط کانه قال إن جمع رجل عليه ثبابه فحسن۔ (فتح الباری: ج۲ص۴۰۱۔ نیل الاوطار: ج۲ص۸۳)

’’یہ کلام شرط کے معنی میں ہے، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر کوئی نماز ی پورے لباس میں نماز پڑھے تو اچھا ہے۔‘‘

شیخ الاسلام ابن حجر لکھتے ہیں:

وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلِيلٌ عَلَى وُجُوبِ الصَّلَاةِ فِي الثِّيَابِ لِمَا فِيهِ مِنْ أَنَّ الِاقْتِصَارِ عَلَى الثَّوْبِ الْوَاحِدِ كَانَ لِضِيقِ الْحَالِ وَفِيهِ أَنَّ الصَّلَاةَ فِي الثَّوْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنَ الثَّوْبِ الْوَاحِدِ وَصَرَّحَ الْقَاضِي عِيَاضٌ بِنَفْيِ الْخِلَافِ فِي ذَلِكَ(فتح الباری: ج۲ص۴۰۱)

یعنی اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک سے زائد کپڑوں میں نماز پڑھنا واجگ ہے کیونکہ ایک کپڑے میں اکتفا تو صرف تنگ حالی اور کپڑوں کی قلت کی وجہ سے تھی۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک کپڑے کی نسبت دو کپڑوں میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس میں کسی کا کوئی اختلا ف نہیں۔

امام شوکانی رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں:

وَأجْمَعو أن الصلوة فی ثوبین أفضل صرح بذلک القاضی عباض وابن عبدالبر والنووی۔ (نیل الاوطار: ج۲ص۸۴)

’’ایک کپڑے کی نسبت دو کپڑوں میں نماز افضل ہونے پر اجماع ہوچکا ہے جیسے کہ قاضی عیاض، ابن عبدالبر اور نووی نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔‘‘

۵۔  ہمارے موقف کی تائید حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث حسن سے بھی ہوتی ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَلْبَسْ ثَوْبَيْهِ , فَإِنَّ اللهَ أَحَقُّ ان يُزَّيَّنَ لَهُ(رواه الطبرانی فی الکبیر واسنادہ حسن۔ سنن بیھقی: ج۲ص۲۳۶)

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے لگے تو دو کپڑے پہن کر نماز پڑھے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے دربار میں حاضری کے وقت زینت اختیار کی جائے۔‘‘ اور زینت سے مراد لباس کے ساتھ آراستہ ہونا ہے۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ کی یہی تفسیر فرمائی ہے:

أن المراد بھا اللباس۔ (سنن بیھقی وتخلیص الحبیر: ج۱ص۲۸۷)

۶۔ عَنْ نَافِعٍ قَالَ: تَخَلَّفْتُ يَوْمًا فِي عَلَفِ الرِّكَابِ فَدَخَلَ عَلَيَّ ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَقَالَ لِي: أَلَمْ تُكْسَ ثَوْبَيْنِ؟ قُلْتُ: بَلَى قَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ بَعَثْتُكَ إِلَى بَعْضِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَكُنْتَ تَذْهَبُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ؟ قُلْتُ: لَا قَالَ: فَاللهُ أَحَقُّ أَنْ يُتَجَمَّلَ لَهُ أَمِ النَّاسُ۔ (سنن بیھقی:ج۲ص۲۳۶)

’’نافع مولیٰ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن اونٹوں کے لیے گھاس لانے کی وجہ سے نماز باجماعت نہ پا سکا۔ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میرے پاس تشریف لائے تو میں اس وقت ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس دو کپڑے نہیں ہیں؟ میں نے کہا موجود ہیں تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اگر میں تمہیں  مدینہ منورہ کے کسی شہری کے پاس بھیجوں تو کیا تم ایک ہی کپڑے میں جاؤ گے؟ میں نے کہا: نہیں تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے مقابلہ میں اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی حاضری میں جانے کے لیے زینت وزیبائش کا اہتمام کیا جائے۔‘‘

۷۔     عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما تصریح فرماتے ہیں:

عن ابْنُ مَسْعُودٍ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ إِذَا كَانَ فِي الثِّيَابِ قِلَّةٌ فَأَمَّا إِذَا وَسَّعَ اللهُ فَالصَّلَاةُ فِي ثَوْبَيْنِ أَزْكَى(رواہ احمد۔ مرعاة : ج۱ص۵۰۵)

’’ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والی بات اس دور کی ہے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تنگدستی کی زد میں تھے اور کپڑوں کی قلت تھی۔ اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے فراوانی عطا فرما دی ہے تو اب دو کپڑوں میں نماز پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔‘‘

عن ابن مسعود لا یُصَلِّین فِی ثَوبٍ واحد وإن کان أوسع مِمَّا بین السماء والارض۔(مرعاة  المفاتیح: ج۱ص۵۰۶)

’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ (کپڑوں کی موجودگی میں) ایک کپڑے میں نماز ہرگز نہ پڑھی جائے۔ اگرچہ وہ زمین آسمان کے درمیان فاصلہ کے برابر چوڑا اور لمبا ہو۔‘‘

اس احادیث میں اگرچہ سر ڈھانکنے کے متعلق کوئی صراحت نہیں، تاہم دو کپڑوں سے سر ڈھانکنے کا زیادہ امکان ہوجاتا ہے۔

اکابر اہل علم کے فتاویٰ

امام مالک کا فتویٰ:

قال مالک أحب إلی أن یجعل الذی یُصَلِّیْ فِیْ الْقَمِیْصِ الْوَاحِدِ عَلیٰ عاثقة ثوبا أو عمامة۔ (موطا باب الرخصة فی الصلوة فی الثوب الواحد: ج۱ص۱۲۳)

’’امام مالک فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک پسندیدہ چیز یہ ہے کہ جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے وہ اپنے کندھوں پر کپڑا ڈالے یا پنے پر عمامہ باندھے۔‘‘

اس کی شرح میں علامہ زرقانی فرماتے ہیں کہ امام مالک کا یہ فتویٰ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کی بنا پر ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک نماز نہ پڑھے جب تک اس کے کندھوں پر کوئی کپڑا نہ ہو۔ مؤطا امام مالک پڑھنے پڑھانے والے امام مالک کی اس اصطلاح سے خوب واقف ہیں۔ آپ جب کسی مسئلہ کے متعلق فرماتے ہیں احب الی۔ میرے نزدیک یہ پسندیدہ بات ہے تو اس سے مراد وجوب ہوتا ہے، جیسا کہ حافظ ابن عبدالبر اور دیگر شارحین موطا نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا فتویٰ:

واللہ تعالیٰ أمر بقدر زائد علی سترالعورۃ فی الصلوة وھو أخذ الزینة فقال اللہ  ﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾  (اختیارات ابن تیمیہ وفتاویٰ علماء اھل حدیث: ج۳ص۲۹۰،۲۹۱)

یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا  ﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ 

حافظ ابن قدامہ حنبلی کا فتویٰ:

وھو أن یصلی فی ثوبین أواکثر فإنه إذا أبلغ فی الستر یروی عن عمر أنه قال إذا أوسع اللہ فأوسعوا۔ (المغنی لابن قدامة: الفصل الثانی فی الفضیلة ج۱ص۲۳۹)

’’فضیلت اس میں ہے کہ دو یا دو سے زیادہ کپڑوں میں نماز ادا کرے کیونکہ دو یا دو سے زیادہ کپڑوں میں ستر اور پردہ زیادہ ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ حال میں وسعت فرمائے تو آدمی کو بھی وسعت سے کام لینا چاہیے۔‘‘

علام تمیمی کا فتویٰ:

قال التمیمی الثوب الواحد یجزی والثوبان احسن والاربع اکمل قمیص وسراویل وعمامة وازار۔ (مغنی لاابن قدامة: ج۱ص۲۴)

’’ایک کپڑا نماز کے جواز کے لیے کافی ہے۔ دو کپڑے بہتر ہیں، چار کپڑے ہوں تو نماز اور زیادہ کامل ہوگی۔ چار کپڑے یہ قمیض، پاجامہ، پگڑی اور تہبند۔‘‘

حافظ بدرالدین عینی کا فتویٰ:

آپ نے عمدۃ القاری میں مختلف مذاہب کے بیان میں تفصیل سے کام لیا ہے، ان کی اس طویل بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک کپڑے میں نماز درست ہے تاہم جب وسعت ہو اور کپڑے میسر ہوں تو پھر ایک کپڑے پر اکتفا مستحسن نہیں۔

حدیث کے مشہور شارح ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی کا فتویٰ:

ستر سرمرد کو واجب نہ سہی مگر بحکم  ﴿خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ...﴾ اور رسول اللہﷺ کا سر پر عمامہ رکھنے سے عمامہ سنت ہے ہمیشہ ننگے سر کو نماز کا شعار بنانا بھی ایجاد بندہ ہے اور خلاف سنت کا ہے چنیں کا حکم اور ہے شعار کا اور اول جائز ثانی ایجاد (یعنی ہمیشہ ننگے سر کا وطیرہ بدعت ہے) (فتاویٰ ثنائیہ: ج۱ص۵۹۲)

سیدمحمد داؤد غزنوی کا فتویٰ:

آپ اپنے والد بزرگوارامام عبدالجبار غزنویؒ کا ننگے سر نماز کے خلاف فتویٰ نقل کر کے ااکر میں اپنے رائے سامی کایوں اظہار فرماتے ہیں:

ابتدائے عہد اسلام کو چھوڑ کر جب کہ کپڑوں کی قلت تھی اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے  کوئی ایسی روایت نہیں گزری جس میں یہ صراحت مذکور ہو کہ نبیﷺ  نے یا صحابہ رضی اللہ عنہم نے مسجد میں اور وہ بھی نماز باجماعت میں ننگے سر نماز پڑھی ہو۔ چہ جائیکہ معمول بنا لیا ہو۔ اس لیے اس بدرسم کو جو پھیل رہی ہے بند کرنا چاہیے۔ اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز مکروہ ہوگی۔ اگر تعبد اور خضوع عاجزی کے خیال سے پرھی جائے تو یہ نصاریٰ کے ساتھ تشبہہ ہوگا۔ اسلام میں ننگے سر رہنا سوائے احرام کے تعبد کا خشوع وخضوع کے علامت نہیں اور اگر کسل اور سستی کی وجہ سے ہے تو یہ م نافقوں کی خلقت سے تشابہ ہو گا﴿وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ ... ٥٤﴾...التوبة  (منافق نماز کو آتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر) غرض ہر لحاظ سے ناپسندیدہ عمل ہے فقط۔ (ہفت روزہ الاعتصام: ج۱۱شمارہ ۱۸۔ وفتاوی علمائے اہلحدیث: ج۳ص۳۹۱)

مجتہد العصر حافظ عبداللہ روپڑی کا فتوٰی:

 اگر سر ڈھکنا ضروری ہوتا تو اس کا بھی کہیں حکم ہوتا۔ ہاں افضل ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں یہ فیصلہ کیا إذا وسع اللہ فأسعوا یعنی جب اللہ تعالیٰ فراخی کرے تم بھی فراخی کرو۔ بخاری مع فتح الباری، مشکوٰۃ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے بھی اس کے قریب روایت ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث المعروف فتاویٰ روپڑیہ۔)

مولانا عبدالمجید سوہدروی کا فتویٰ:

ننگے سر نماز ہو جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےجواز ملتا ہےل مگر بطور فیشن، لاپرواہی اور تعصب کی بنا پر مستقل اور ابدالآباد کے لیے یہ عادت بنا لینا، جیسا کہ آج کل دھڑ لے سے کیا جا رہا ہے، ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ نبی علیہ السلام نے خود یہ عمل نہیں کیا۔ (اہل حدیث سوبدرہ: جلد۱۵شمارہ۲۲۰، فتاویٰ اہل حدیث: ج۳ص۲۸۱)

مولانا محمد اسماعیل سلفی کا فتویٰ:

آپ نے ننگے سر نماز کی عادت کے خلاف بڑا طویل، مدلل، زور دار اور فکر انگیز فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ اس فتویٰ کے تین اقتباسات حاضر خدمت ہیں۔ فرماتے ہیں:

غرض کسی حدیث سے بلا عذر ننگے سر نماز پڑھنے کو عادت بنا لینا ثابت نہیں۔ محض بے عملی یا بدعملی وغیرہ کی وجہ سے یہ رواج چل نکلا ہے۔ بلکہ بعض نادان تو اسے سنت باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ (معاذاللہ) کپڑے موجود ہوں ننگے سر نمازپڑھنا یا ضد سے ہوگا یا عقل کی کمی کا نتیجہ۔ آخر میں فرماتے ہیں اس ساری تفصیل کا ماحصل یہ ہے کہ نماز میں سر ننگا رکھنے کی عادت اور بلا وجہ ایسا کرنا اچھا فعل نہیں۔ یہ عمل فیشن کے طور پر روز بروز عام رواج پکڑ رہا ہے یہ اور بھی نامناسب ہے۔ ویسے یہ مسئلہ کتابوں سے زیادہ عقل وفراست سے متعلق ہے اگر اس جنس لطیف سے طبیعت محروم نہ وہ تو نماز ننگے سر ویسے ہی  مکروہ معلوم ہوتی ہے۔ ضرورت اور اضطرار کا باب اس سے الگ ہے۔ (فتاویٰ علمائے اھل حدیث: ج۲ص۳۸۹)

عملی توارث:

قرآن مجید کے اطلاق، رسول اللہﷺ کے ارشاد، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تصریحات، شارحین حدیث کی تحقیقات اور شیخ الکل امام ابن تیمیہ ودیگر مفتیان عظام کے فتاویٰ جات زیب قرطاس کرنے کے بعد اتمام حجت کےطور پر رملی توارث بھی پیش کردینا نامناسب نہ ہوگا۔ سو واضح رہے یہ رسول اللہﷺ، صحابہ کرام سلف صالحین اور اہل علم کا طریق وہی رہا ہے جو شروع سے اب تک مساجد میں متوارث اور معمول بھی چلا آرہا ہے رضوان اللہ علیہم اجمعین، یعنی رسول اللہﷺ اور سلف صالحین کی عادت یہی تھی کہ پگڑی یا ٹوپی سمیت پورے لباس میں نماز ادا فرماتے تھے۔ لیجیے پڑھئے اور غلط رواج پر کچھ غور فرمائیے۔

امام مالک کی تصریح:

قَالَ مَالِكٌ لَيْسَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ أَنْ يَلْبَسَ الرَّجُلُ الثَّوْبَ الْوَاحِدَ فِي جَمَاعَةِ النَّاسِ فَكَيْفَ بِالْمَسْجِدِ وَهُوَ مَوْضِعُ اجْتِمَاعِ النَّاسِ وَمَوْضِعُ تَجَمُّلٍ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى {خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ} [الأعراف: 31] (حاشیہ موطا امام مالک: ص۱۲۳)

’’لوگوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظامؒ) میں ایک کپڑے میں باجماعت نماز پڑھنے کا رواج نہ تھاچہ جائیکہ وہ مسجد میں ایسا کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’تم ہر نماز کے وقت لبا س پہن لیا کرو‘‘۔

حافظ عبداللہ محدث روپڑیؒ تصریح فرماتے ہیں:

عام حالت سلف کی یہی تھی کہ وہ پگڑی اور ٹوپیوں کے ساتھ نماز پڑھتے اور اسی بنا پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ پر ایک کپڑے میں نماز پڑھنے پر اعتراض ہوا۔ اور حسن بصری کے قول سے بھی یہی ظاہر ہے۔ (فتاویٰ اھل حدیث روپڑیہ ج۱ص۳۵۷)

خلاصہ کلام یہ کہ پگڑی، ٹوپی وغیرہ کی موجودگی میں ننگے سر نماز بلاشبہ جائز ہے، اس کے لیے نہ تو بحث کی ضرورت ہے اور نہ احادیث کی ٹٹول کی کوئی حاجت۔ مگر اس کو رسول اللہﷺ کی سنت اور عادت مبارک سمجھنا صحیح نہیں۔ بلکہ اس جواز کو شعار بنا لینا بدرسم اور ایجاد بندہ ہے اور عافیت اس کے ترک ہی میں ہے۔ پس پورا لباس قمیض، تہبند اور پگڑی وغیرہ پہن کر اور بن ٹھن کر نماز پڑھنی چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کی عادت مستمرہ اور سلف وخلف اہل علم کا متوارث عمل یہی رہا ہے کہ وہ پگڑی اور ٹوپیوں کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے اور یہی طریق سنت اور افضل ہے۔ کوئی ایسی مرفوع حدیث صحیح اور صریح میرے ناقص علم ومطالعہ میں نہیں گزری جس سے اس عادت اور فیشن کا ثبوت ملتا ہو۔ چہ جائیکہ اس رواج اور بدرسم کو سنت کہا جائے یا اس کو سنت باور کرانے کے لیے الشہب قلم کو مہمیز کی جائے۔ اور سیدھے سادے نمازیوں کو طویل لا طائل بحثوں میں الجھا دیا جائے۔ عذر اور اضطرار کا باگ اس سے الگ ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص376

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ