سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) مسئلہ رفع الیدین اور آ مین بالجہر

  • 14152
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2164

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

۱۔  کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ آمین بالجہر اور رفع الیدین کے بغیر نماز ہو جاتی ہے یا نہین؟ س بارے میں علمائے اہلحدیث کا کیا مسلک ہے؟ وہ اگر اس بارے میں متفق نہیں تو قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

۲۔ اگر کوئی اہلحدیث جو ان مذکورہ دونوں مسائل کا قائل وفاعل ہے، زندگی میں دو چار بار حالات کی مجبوری سے ان پر عمل نہ کر سکا تو کیا اس کی وہ نمازیں ہو گئیں یا نہیں؟ اگر وہ اس حال میں فوت ہو گیا تو جنتی ہوگا یا جہنمی؟

۳۔ ہمارے بعض اہل حدیث علماء دیہاتوں میں دعوت وتبلیغ کے لیے جاتے ہیں، اگر وہ اس موقع پر یہ دونوں مسائل ترک کر دیں تو وہاں تبلیغ قرآن وسنت ممکن ہو جاتی ہے، ورنہ نہیں۔ ایسے حالات میں ایسے اہلحدیث مبلغین جو کٹر اہلحدیث ہیں جو نمازیں دونوں مسائل مذکورہ کے بغیر ادا کرتے ہیں اور بعد میں اللہ سے معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔ کیا ان کی نمازیں ہو گئیں یا نہیں؟

۴۔ چند افراد نے مذکورہ مسائل کو موضوع بنا کر مذکورہ علما۴ خلاف ایک پروپیگنڈہ شروع کر کے لوگوں کو دو ذہنوں میں تقسیم کرنے کی ایکک مہم شروع کر رکھی ہے، شرعاً ان کا کیا حکم ہے؟

۵۔ جس گاؤں میں علماء کے خلاف یہ مہم شروع کی جارہی ہے وہاں اکثر شادیوں میں بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں اور بریلویوں کو مشرک جان کر ان کو رشتے دیے اور لیے جاتے ہیں۔ شرعاً ایسے اہلحدیث کے بارے میں کیا فتویٰ ہے؟ فبینواتوجروا۔ (سائل عبدالرحمٰن سوہدرہ)

محترم علمائے کرام درج بالہ سوالات کے جوابات دینے سے قبل اگر ان سوالات کے پیدا ہونے کا اصل پس منظر جان لیا جائے تو ان شاء اللہ جوابات تحریر کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔ وہ یہ ہے:

۱۔ مبلغین مذکورہ اکثر تبلیغ کے لیے بریلوی مساجد میں جاتے ہیں اور مساجد کے مولوی اور عوام میں بعض لوگ ان مبلغین کے اہلحدیث ہونے سے بخوبی واقف ہیں۔ کیا اس طرح ان کے ترک رفع الیدین اور آمین بالجہر سے بریلوی مزاج کے لیے ضروری دعوت وتبلیغ (خالص توحید) ممکن ہے؟ اور کی ایہ طریقہ تبلیغ مسنون ہے؟

ان مبلغین کے ترک رفع الیدین اور ترک آمین بالجہر سے نئے اہلحدیث ہونے والے نوجوانوں میں اضطراب اور بے چینی نے اس وقت شدت اختیار کی جب ان کی ملاقات ان بریلوی لوگوں سے ہوئی جہاں یہ مبلغین اپنا تبلیغی پروگرام انجام دے کر آئے تھے اور انہوں (بریلوی افراد)نے بطور طعنہ مبلغین کے عمل کو پیش کیا۔

۳۔ جیسا کہ اوپر سوال نمبر ۵ میں اشارہ کیا ہے اور مزید وہ گاؤں مشہور تو اہلحدیث ہے لیکن اعمال کے اعتبار سے بریلوی رسم ورواج ان میں نفوذ کر چکے ہیں اور خوشی اور غمی کے اوقات میں اکثر غیر شرعی افعال انجام دیتے ہیں۔ کیا اپنے ایسے بے عمل اہلحدیث بھائیوں کی دعوت تبلیغ کے ذریعے اصلاح کرنا ضروری ہے یا اپنے امتیازی مسائل سے دست بردار ہو کر بریلوی مساجد میں بریلوی رنگ اختیار کر کے بریلویوں کو تبلیغ کرنا ضروری ہے؟

۴۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنے گرد نواح کے بعض بریلوی دیہات میں ان مبلغین کے ترک رفع الیدین اور ترک آمین بالجہر کے باوجود انہیں اپنے تبلیغی مشن میں ناکامی ہوئی اور بریلوی علماء نے ان کو اپنی مساجد میں پروگرام کرنے سے منع کر دیا ہے۔ برائے مہربانی ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے درج بالا سوالات کے جوابات قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (حافظ عظمت اللہ تلواڑہ سوہدرہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب سوال ۲ تا۳: سائل نے سوال نامہ میں غیب کی باتوں کے متعلق فیصلہ طلب فرمایا ہے یعنی بامر مجبوری زندگی میں دو چار دفعہ آمین اور رفع الیدین چھوڑنے والے کی نمازیں قبول ہوں گی یا نہیں اور رفع الیدین کا شرعی حکم اور ان کی اہمیت۔ تو گزارش ہے کہ یہ دونوں سنت مؤکدہ ہیں اور رسول اللہﷺ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سمیت تمام صحابہ ان دونوں پر عمر بھر عمل پیرا رہے۔ کوئی صحیح مرفوع متصل غیر معلل ولا شاذ حدیث رسول اللہﷺ یا میرے علم میں جس میں یہ تصریح ہو کہ رسول اللہﷺ نے کسی صحابی نے اپنی فلاں نماز میں رفع الیدین نہیں کی تھی یا آمین بالجہر کو ترک کیا ہو۔ ومن یدعی لہ فعلیہ البیان بالبرھان رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں۔ جیسا کہ علامہ مجدد الدین فیروز آبادی نے تصریح فرمائی ہے:

کثرت ایں معنی بہ تواتر ماندہ است وچہار صد اثر وخبر دریں باب صحیح شدہ وعشرہ مبشرہ روایت کردہ اند لایزال بریں کیفیت بودتا ازیں جہاں رحلت کردہ غیر ازیں چیزے ثابت نشدہ۔ (کتاب سفر السعادۃ: ص۱۸۔)

’’کثرت روایات کی وجہ سے (تین مواقع پر ثابت شدہ رفع الیدین) متواتر حدیث ہے، اس مسئلہ میں چار سواحادیث اور آثار صحابہ وارد ہیں، عشرہ مبشرہ نے ان کو روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:

ذَكَرَ الْحَاكِمُ وَأَبُو الْقَاسِمِ بْنُ مَنْدَهْ مِمَّنْ رَوَاهُ الْعَشَرَةُ الْمُبَشَّرَةُ وَذَكَرَ شَيْخُنَا أَبُو الْفَضْلِ الْحَافِظُ أَنَّهُ تَتَبَّعَ مَنْ رَوَاهُ مِنَ الصَّحَابَةِ فَبَلَغُوا خَمْسِينَ رَجُلًا من الصحابۃ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری: ج۲ص۱۷۵ باب رفع الیدین اذا کبر واذا رکع واذا رفع۔)

رفع الیدین کی احادیث کو امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں امام سیوطیؒ نے الاذھار المنتاثرہ میں، حافظ حازمی نے کتاب الاعتبار میں اور حضرت انور شاہ حنفی کشمیری نے عرف الشذی میں متواتر قرار دیا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام کی ایک جماعت کے نزدیک رفع الیدین واجب ہے اور بغیر رفع الیدین کے پڑھی جانے والی نماز ان کے نزدیک باطل۔

علامہ تقی السبکی المتوفی ۷۵۶لکھتے ہیں:

وذھب الأوزاعی والحمیدی وجماعة غیرھما إلی أنه واجب وأنه یفسد الصلوة بترکه ومن الدلیل لوجوبه أن مالك بن الحویرث رضی اللہ عنه رأی النبیﷺ یفعله فی الصلوة وقال له ولاصحابه صلو کما رأیتمونی اصلی۔ والامر للوجوب۔ (جزء رفع الیدین للسبکی:ص۱۵۔)

’’امام اوزاعی اور امام حمیدی اور ان کے سوا علماء کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ رفع الیدین واجب ہے اور اس کے چھوڑ دینے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اس کے وجوب پر ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کو نماز میں رفع الیدین کرتے دیکھا اور آپﷺ نے مالک اور ان کے ساتھیوں کو فرمایا: اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا، اور امروجوب کے لیے ہوتا ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلاتی لکھتے ہیں:

وممن قال بالوجوب أیضا الاوزاعی والحمیدی شیخ البخاری وابن خزیمة من اصحابنا۔ وقال ابن عبدالبر کل من نقل عنه الإیجاب لایبطل الصلوة بترکه إلا فی روایة الاوزاعی والحمیدی۔ (فتح الباری: ج۲باب رفع الیدین فیالتکبیرة الاولی ص۱۷۴۔)

امام اوزاعی، امام حمیدی اور امام ابن خزیمہ کے نزدیک رفع لایدین واجب ہے: تاہم امام اوزاعی اور امام بخاری کے استاد امام حمیدی کے نزدیک رفع الیدین کے ترک سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔

امام بخاریؒ کے استاد امام علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بنا پر مسلمانوں پر رفع الیدین کرنا ضروری ہے۔ (جزء رفع الیدین امام بخاری۔)

امام بخاری کے استاذ امام محمد بن یحییٰ ذہلی کا بھی یہی قول ہے کہ رفع الیدین نہ کرنے والے شخص کی نماز ناقص ہوگی۔ (صحیح ابن خزیمہ: ج۱ص۷۹۸ وصلوۃ الرسول مع تحقیق عبدالرؤف بن عبدالحنان: ص۴۲۱)

رفع الیدین نہ کرنے کی سزا

کان ابن عمر رضی اللہ عنہما إذا رأی رجلا لا یرفع یدیه رماہ بالحصیٰ۔ (جزء رفع الیدین للسبکی: ص۱۵ وفتح الباری: ج۲ص۱۷۵)

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو دیکھتے کہ وہ رفع الیدین نہیں کرتا تو اسے کنکریاں مارتے۔‘‘

غرضیکہ ان ائمہ کرام کے مطابق رفع الیدین نہ کرنے سے نماز فاسد یا باطل ہوجاتی ہے۔ تاہم آمین بالجہر کی یہ حیثیت نہیں۔ مگر ہم اس تشدد کے قائل نہیں۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں بڑی محکم اور سنت ثابتہ ہیں اور نماز وہی صحیح ہوتی ہے جو سنت ثابتہ کے مطابق پڑھی جائے۔ رہی یہ بات کہ ان کے بغیر نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں اور ان کو چھوڑنے والا جنتی ہے یا نہیں تو اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ ہاں ان دونوں کا یا کسی بھی سنت ثابتہ کا اسخفاف اور توہین سخت کبیرہ گناہ ہے، حتی کہ کفر کا خطرہ ہے۔

تاہم سنت کو بنظرحقارت دیکھنے والے اور بلاوجہ شرعی عذر کے اس کو ترک کرنے والے اور اس کا مذاق اڑانے والے شخص کو گمراہ کہا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا فتویٰ لو ترکتم سنۃ نبیکم لضللتم۔ نہایت قابل غور ہے۔

دین ہاتھ سے دے کر گر آزاد ہو ملت

ہے ایسی تجارت سے مسلمان کو خسارہ

اس لیے ایسے مبلغین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ فرصت کے لمحات میں سورہ قُلْ یٰأِئُّھَاالْکَافِرُوْنَ کی تفسیر اور شان نزول کا مطالعہ ضرور کریں۔

جواب نمبر۴: ایسے لوگوں کو بھی اپنی غلط روش سے باز آجانا چاہیے۔ کیونکہ معاشرہ میں انارکی اور سر پھٹول پیدا کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ اور یحبون ان تشیع الفاحشۃ کا مصداق ہے۔

جواب نمبر۵۔ بریلوی مشرک ہیں اور مشرک آدمی موحدہ لڑکی کا کفو نہیں ہوتا:أَفمَنْ کَانَ مُؤْمِناً کَمَنْ کَانَ فَاسِقاً لہٰذا ان کے ساتھ مناکجت خلاف شریعت اور کبیرہ گناہ ہے۔ اس حرکت بد سے فورا ً باز آ جانا چاہیے ورنہ پیدا ہونے والی اولاد کے مشرک اور بدعقیدہ ہونے کی ذمہ داری مناکحت کرنے والوں پر عائد ہوگی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص322

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ