سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(70) قربانی کی کھالوں سے مسجد کا الاؤڈ اسپیکر خریدنا جائز نہیں

  • 14143
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1149

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پلاٹ رقبہ اس غرض سے خریدا تھا کہ یہاں مدرسہ بنے گا، یہاں بچے تعلیم حاصل کریں گے اور ضرورت پڑنے پر عید بھی پڑھی جائے گی اور جلسہ وغیرہ بھی ہوجائے گا، یہ پلاٹ زکوٰۃ کی رقم سے خریدا تھا جو اس پر عمارت تعمیر ہوئی وہ کثرت سے زکوٰۃ کی رقم سے بنی۔ قربانی کے مویشیوں کو فروخت کر کے وہ رقم بھی اس پر لگی۔ کیا اب اس کو گرا کر مسجد تعمیر ہو سکتی ہے؟ اس کا فیصلہ قرآن سنت کی رو سے وضاحت کریں۔ یہ مدرسہ یا جگہ پاکستان میں ہو یا بیرون ملک کیا سب کے لیے یکساں مسئلہ ہے؟ (مسائل مہتمم حاجی محمد ابراہیم)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ قربانی کے چمڑے بوجوہ مسجد کی تعمیر اور اس کے متعلقہ سامان کی فراہمی میں نہیں لگ سکتے۔ اول یہ کہ یہ خاص مساکین، یتامیٰ اور دراصل دوسرے نادار لوگوں کا حق ہے، یعنی قربانی کے چمڑوں کا مصرف صرف یہی لوگ ہیں

((عن عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ: «أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا، لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، فِي الْمَسَاكِينِ وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا مِنْهَا شَيْئًا)) (متفق عليه صحیح البخاری ج۱ص۲۳۲)

’’حضرت علی کہتے ہیں کہ مجھے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ میں آپﷺ کی قربانی کے اونٹوں کی حفاظت کروں، ان کا گوشت، ان کی کھالیں اور ان کے جھول پالان مسکینوں میں تقسیم کر دوں اور قصابوں کو اس میں اجرت نہ دوں۔

قال فی سبل السلام دَلَّ الحدیث عَلیٰ اَنَّہُ یُتَصَدَّقُ بِالْجُلُودِ وَالْجِلَالِ الخ۔ (سبل السلام ج۳ص۹۵)

اس حدیث میں دلیل ہے کہ قربانی کے جانور کا چمڑا جھول وغیرہ بھی صدقہ کر دیا جائے۔

نووی لکھتے ہیں:

وفی ھذا الحدیث فوائد کثیرة منھا انه یتصدق بلحومھا وجلودھا وجلالھا ان لا یعطی الجزار منھا لان عطیة عوض عن عمله فیکون معنی بیع جزء منھا وذالك لا یجوز۔ (ص۴۲۳)

اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں: ایک یہ ہے کہ قربانیوں کے گوشت، چمڑے اور پلان صدقہ کر دیے جائیں اور قربانی کا کوئی حصہ جزارت میں نہ دیا جائے کیوں کہ یہ قربانی کی بیع کے حکم میں ہے جو کہ جائز نہیں۔

ثانی یہ کہ قربانی کی کھال بیچنا منع ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ چمڑا ہی مستحق کو دے دیا جائے۔ چنانچہ یہی امر بنص حدیث ثابت ہے۔ مسند احمد میں ہے: ﴿ وَاسْتَمْتِعُوْابِجُلُوْدِھَا وَلا تَبِیْعُوْھَا﴾   (فتاوی نذیریہ ص۲۴۱ج۳) یعنی اسے کے چمڑے سے خود فائدہ تو اٹھا سکتے ہو، مگر بیچ نہیں سکتے۔‘‘

سنن الکبری للبیہقی میں ہے آپ نے فرمایا مَنْ بَاعَ جِلْدَ اَضْحِیته فلا اُضْحِیَة لہ۔ (فتاویٰ نذیریہ ص) ’’جس نے قربانی کا چمڑا بیچا اس کی قربانی نہین ہوئی۔‘‘

صاحب السبل کہتے ہیں:

حُكْمُ الْأُضْحِيَّةِ حُكْمُ الْهَدْيِ فِي أَنَّهُ لَا يُبَاعُ لَحْمُهَا وَلَا جِلْدُهَا وَلَا يُعْطَى الْجَزَّارُ مِنْهَا شَيْئًا اجرة۔ (سبل السلام ج۳ص۹۵)

’’یعنی اضحیہ کا حکم ہدی کا سا ہے ان کا گوشت اور چمڑے بیچے نہیں جا سکتے اور نہ ہی قصاب کو مزدوری میں دیے جا سکتے ہیں۔‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوا: مسجد یا اس کا متعلقہ سامان لاؤڈ سپیکر وغیرہ قربانی کی کھالوں کا مصرف ہرگز نہیں ہیں، قربانی کی کھالیں صرف فقرا، یتامیٰ اور دوسرے مستحقین کا حق ہے۔ بہتر تو یہی ہے کھال ہی مستحقین کے سپرد کر دی جائے، تاہم فقراء ومساکین کی بہتری کے پیش نظر کھالیں فروخت کر کے ان کی قیمت فقراء، مساکین میں تقسیم کی جاسکتی ہے، مگر پیسے وہی ہوں، تبدیل نہ کئے جائیں۔ فتاویٰ رو پڑیہ (ص۴۳۵ج۲) کے مطابق حضرت محدث روپڑی اور فتاوی ثنائیہ (ص۷۲۶ج۱ اور ص۷۲۲ج۱) کے مطابق شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری اور فتاویٰ نذیریہ (ص۲۴۱ج۳) کے مطابق حضرت شیخ الکل میاں نذیرحسین کا بھی یہی فتویٰ ہے اور ہیچ مرد کی رائے بھی یہی ہے۔ لہٰذا﴿ فَاتَّقُوا اللہَ مَااسْتَطَعْتُمْ﴾ کے پیش نظر لاؤڈ سپیکر کو فروخت کر کے اس کی قیمت اور مسجد کو دی گئی بقایا رقم، یعنی کھالوں کی ساری رقم فقراء میں تقسیم کر دینا ضروری امر ہے ورنہ قربانیاں اکارت جائیں گی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص313

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ