سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(68) مسجد میں جھگڑا کرنا اور دنیاوی باتیں باآواز بلند کرنا

  • 14141
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 11429

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجد میں جھگڑا کرنا اور دنیاوی باتیں باآواز بلند کرنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجد میں شور غوغا کرنا اور باآواز بلند دنیوی باتیں کرنا اور اسی طرح گم شدہ کا اعلان کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث مروی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يَنْشُدُ ضَالَّةً فِي الْمَسْجِدِ فَلْيَقُلْ لَا رَدَّهَا اللهُ عَلَيْكَ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِهَذَا» (باب النھی نشد الضالۃ فی المسجد ص۲۱۰ج۱)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص کسی ایسے آدمی کو سنے جو مسجد میں گمشدہ چیزوں کا اعلان کر رہا ہے تو اس کے جواب میں کہے کہ اللہ تجھ پر تیری چیز نہ لوٹائے (یعنی اللہ کرے نہ ملے) کیونکہ مسجدیں گمشدہ چیزوں کی تلاش کے لئے نہیں بنائی گئیں۔‘‘

دوسری حدیث میں ہے:

((لَا وَجَدْتَهُ، إِنَّمَا بُنِيَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِيَتْ لَهُ))

’’تو یہ چیز نہ پائے، مسجدیں جن فوائد کے لئے بنائی گئی ہیں انہیں کے لیے ہیں۔‘‘

امام نووی اس حدیث کی شرح میں تصریح فرماتے ہیں:

إنما بنیت المساجد لما بنیت له کا معنی یہ ہے کہ مسجدیں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر، نماز، مذاکرہ علمیہ اور خیر کے کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ (نووی: ج۱ص۲۱۰)

امام مالکؒ اور علماء کی جماعت کے نزدیک علم کی بات بھی بلند آواز سے کرنا مکروہ ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہؒ اور امام محمد بن مسلمہ مالکیؒ کے نزدیک مسجد میں علم کی بات اور اسی طرح دنیا کی ضروری بات بلند آﷺاز سے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (نووی ج۱ص۲۱۰)

حضرت سائب کہتے ہیں کہ میں مسجد میں کھڑا تھا کسی نے مجھے کنکری ماری، دیکھا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے اور فرمایا ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لاؤ، میں ان دونوں کو لے آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے پوچھا کہ کہاں کے رہنے والے ہو؟ تو انہوں نے کہا ہم طائف کے باشندے ہیں، فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ کے شہری ہوتے تو میں تمہیں سزا دیتا کہ تم مسجد رسول میں با آواش بلند بول رہے تھے۔ (رواہ البخاری، مشکوۃ مع تنقیح الرواۃ: ج۱ص۱۳۳)

سید احمد حسن محدث دہلوی اس حدیث کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں کہ امام بخاری باب رفع الصوت فی المسجد میں اس حدیث کے بعد دوسرے مقام پر باب تقاضی الدین ورفع الأصوات فی المساجد میں حدیث لائے ہیں جس میں عبد اللہ بن ابی حدرد رضی اللہ عنہ نے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر دونوں اونچا بولنے لگ گئے تھے اور رسول اللہﷺ نے ان کو منع نہیں کیا جس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں باآواز بلند بات کرنا جائز ہے: جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ممانعت پر مبنی ہے۔ امام بخاری ؒ کے اس طرز عمل میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسجد میں بے کار اور فضول باتوں میں با آواز بلند بات کرنا منع ہے مگر خیر اور منفعت بخش بات میں آواز بلند ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ بہر حال مسجد میں بے کاردنیوی باتیں کرنا شور ڈالنا، خطبات اور وعظوں میں نعرہ بازی کرنا خطباء کی خوشامد میں زندہ باد زندہ باد جیسے غیر شرعی جملے کہنا، تصویریں اتارنا، جیسا کہ رواج چل نکلا ہے بہرحال منع، ناجائز اور بدعت سیئہ ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص311

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ