سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(245) کیا مذہبی یا سیاسی جماعت کو چندہ دینا جائز ہے؟

  • 14095
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1166

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایسٹ ہیم لندن سے راجہ محمد رفیق لکھتے ہیں۔

کیا کسی مذہبی  یا سیاسی جماعت کو چندہ دیناجائز ہے۔ دینی جماعتیں بھی کافی ہیں ۔ دین تو ایک ہے مگر ان جماعتوں نے کافی دین بنارکھے ہیں اور پھر یہ جماعتیں صرف چندے کی بنیاد پر چل رہی ہیں ان کو گورنمنٹ گرانٹ تو نہیں دیتی اور پھر کچھ جماعتیں دین کو کافی  نقصان بھی پہنچا رہی ہیں۔ اگر خالص اللہ کے دین کےلئے کام کریں تو اس میں فرقہ پرستی نہیں ہونی چاہئے مگر اب تک کئی ایسی جماعتیں ہیں جو مسلمانوں کو نفرت سے دیکھتی ہیں اور غیر مسلموں سے پیارکرتی ہیں ۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی جماعتوں کو چندہ دینا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں تک دینی جماعتوں یا سیاسی و معاشرتی جماعتوں کو چندہ دینے یا مالی تعاون کرنے کا  مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں قرآن کریم کا ارشاد بڑا واضح ہے کہ

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ...﴿٢﴾... سورةالمائدة

’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ہرگز تعاون نہ کرو۔‘‘

تو یہ قرآن کا اصول  ہے کسی فرد یا جماعت سے تعاون کے سلسلے میں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے کام سے کسی کا دینی یا دنیاوی بھلاہورہا ہے اور اس میں شریعت کے کسی حکم کی مخالفت بھی نہیں ہورہی تو ایسی جماعت سے ضرور تعاون کرنا چاہئے۔ بعض جماعتوں کے کچھ کام اگر خلاف اسلام ہیں اور کچھ وہ نیکی  کے کام بھی کررہے ہیں تو نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ا ن سے تعاون کرنے میں کرئی قباحت نہیں ۔ ہاں اگر ان سے تعاون کرنے کی وجہ سے ان کے برے پہلو نمایاں ہونے کا خطرہ ہے یا اس چندے سے وہ غلط کام کرنے شروع کردیں تو ایسے لوگوں سے مالی تعاون نہیں کرنا چاہئے۔ جو لوگ خالص دین کی بجائے فرقہ پرستی اور نفرت انگیزی پھیلاتے ہیں اور ان کی وجہ سے مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیلنے کا اندیشہ ہے’ایسے  لوگون کی مالی مدد نہیں کرنی چاہئے اور ان کے مقابلے میں جو جماعتیں خالص کتا ب و سنت کی اشاعت اور مسلمانو ں میں اتحاد و تعاون کے لئے کوشاں ہوں انہیں ترجیح دینی چاہئے۔

مسلمانوں سے نفر ت اور غیر مسلموں سے پیار یہ کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔

اسلام تو سبھی سے پیارومحبت کی تلقین کرتا ہے اور اپنے ہم عقیدہ بھائیوں سے زیادہ محبت و قربت کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نفرت وعناد کے خلاف ہے۔ اخلاقی لحاظ سے اسلام میں غیر مسلم بھی قابل عزت و احترام ہیں لیکن محبت اور قلبی دوستی کے قابل نہیں۔دشمنا ن اسلام سے دلی تعلق قائم کرنا اور مسلمانوں سے نفرت کرنا سنگین جرم ہے۔قرآن نے واضح طورپر کہاہے

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ...﴿١﴾... سورةالممتحنة

’’کہ اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔‘‘

تو معلوم ہوا کہ وہ غیر مسلم جن کے سینوں  میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و کینہ ہے  اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں مسلمان ایسے لوگوں کو دوست نہیں بنا سکتے۔ رہی بات اخلاقی طورپر میل جول ’عدل انصاف اور مصیبت و تنگی کے وقت تعاون ’یہ ہر انسان کے ساتھ کرنا ضروری ہے۔

بہرحال ایسی جماعتیں یا ادارے جن کے طرز عمل سے اسلام اور مسلمانوں  کو نقصان پہنچتا ہے اور اسلامی تشخص خطرے میں پڑجاتا ہے ان سے تعاون نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ان سے ایسا طرز عمل اثم وعدوان کے زمرے میں آتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص527

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ