سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(221) کیا حضورﷺ نے گانے کی اجازت دی تھی؟

  • 14071
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 3340

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لندن سے محمد اسلم لکھتے ہیں۔ کیا اسلام میں گانا بجانا موسیقی اور قوالی وغیرہ سب ممنوع و ناجائز ہے؟ کچھ لوگ کہتےہیں کہ حضورﷺ کے زمانے میں بھی گانے گائے جاتے تھے اور آپ نے ان کی اجازت دی تھی۔ اس بارے میں کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل مسئلے کی وضاحت سے پہلے دو باتوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

اول یہ کہ اسلامی شریعت میں کسی چیز کے جائز و ناجائز یا حلال و حرام ہونے کے بارے میں اصل اتھارٹی قرآن و حدیث ہے ۔ا ن کے علاوہ کوئی شخصیت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اگر اس نے قرآن وحدیث سے دلیل کے بغیر کسی چیز کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارےمیں فیصلہ دیا تو وہ قابل قبول نہ ہوگا۔موسیقی ہو یا قوالی یا گانا بجانا ان کی حرمت کراہت یا عدم جواز اگر قران وسنت سے ثابت ہوجاتا ہے تو ا س کے بعد کوئی بڑی سے بڑی شخصیت بھی اسے ناجائز قرار نہیں دے سکتی اور اگر کسی زمانے میں بڑے بڑے لوگ بھی موسیقی یا قوالی کے شائق رہے ہوں تو ان کا یہ فعل ہمارے لئے سند ہے نہ دلیل۔

دوسری بات جس کا ذکر یہاں ضرور ی ہے وہ یہ کہ  کوئی حرام یا ممنوع کام جب لوگوں میں عام ہوجائے اور اکثریت اس میں ملوث ہو جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہرگز نہیں بن سکتا کہ وہ کام اب حلال اور جائز ہوگیا ہے۔ آج کل موسیقی اور گانا بجانا اس قدر عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر انہ اس سے محفوظ ہو اور قوالی کا تو یہ عالم ہے کہ اسے ایک عبادت اور ثواب کے طور پر سنا جاتا ہے اور لوگوں کو یہ وہم ہوجاتا ہے کہ یہ کام جب اتنی کثرت سے رائج ہیں کوئی گھر بھی ان سے محفوظ نہیں تو یہ ناجائز کیسے ہوسکتاہے۔

حالانکہ شرعی طور پر اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ کسی کام کو تھوڑے لوگ کررہے ہیں یا زیادہ۔ اصل وزن تو اس بات کا ہے کہ وہ کام قرآن وسنت کی رو سے جائز ہے یا ناجائز؟

اب ہم اصل مسئلے کی طرف آتےہیں۔ ہمارے لئے یہ ثبوت اور اطمینان کے لئے کافی ہے کہ رسول اکرمﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے زمانے میں نہ قوالیاں تھیں اور نہ گانے بجانے کی محفلیں جمتی تھیں اور نہ سماع و سرود کا کہیں نشان ملتا ہے اس کے برعکس آپ نے ان لوگوں کے برے انجام سے ڈرایا جو ان حرام کاموں کو حلال کریں گے۔ صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث ہے آپ نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ ریشم شراب اور گانے بجاے کو حلال کریں گے اور انجام کار ان کی شکلیں مسخ ہوجائیں گی اور وہ بندر اور خنزیر بن جائیں گے۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآن نے لہوولعب کی ایسی شکلوں کی مذمت کہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام سے دوری کا سبب بنتی ہیں اور دور حاضر میں گانے بجانے کی کوئی بھی ایسی شکل نہیں جس کے بارے میں یہ کہاجائے کہ انہیں سننے کے بعد ایمان تازہ ہوتا ہے بلکہ مروجہ گانے بجانے کی جتنی بھی شکلیں ہیں وہ دین سے دوری کا باعث بنتی ہیں۔ اس لئے سورہ لقمان آیت نمبر ۵ میں لہو الحدیث  کے ان پر ستارون کو رسوا کن عذاب کی خبر دی گئی ہے۔

چاروں اماموں اور دوسرے مجتہدین نے بھی موسیقی کے بارے میں واضح طور پر کہا ہے کہ یہ ناجائز ہے اور بعض نے کھل کر اسے حرام قرار دیا ہے۔ امام شافعی ؒ نے تو یہاں تک کہا کہ جو شخص گانے اور موسیقی کا دلدادہ ہو اس کی شہادت بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ اور ان کے اصحاب سے بھی موسیقی کے حرام ہونے کے اقوال ثابت ہیں ۔ امام مالک کے بارے میں آتا ہے کہ ان سے مدینہ کے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا  جو گانے بجانے کے رسیا تھے تو  انہوں نے فرمایا یہ مدینہ کے فاسق لوگ ہیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ رسول اکرمﷺ کے زمانے میں گانے گائے جاتے تھے اور آپ نے انہیں سناتھا یا اجازت دی تھی یہ قطعی طورپر غلط ہے۔ شاید ان لوگوں کا اشارہ ان بچیوں کے شعر کے گانے سے ہے جو مختلف مناسبات سے ثابت ہیں  جیسے ہجرت کے موقع پر اور پھر عید وغیرہ کی مناسبت سے ثابت ہے۔ لیکن ان لڑکیوں کی شعر گوئی پر موجودہ دور کے فحش اور بے ہودہ گانوں کو قیاس کرنا درج ذیل وجوہ کی بنا پر بالکل باطل ہے۔

۱۔جو بچیاں حضور اکرم ﷺ کے زمانے یا آپ کی موجودگی میں شعر گا کر پڑھتی تھیں ان کے بارے میں دلائل سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ چھوٹی اور نابالغ بچیاں تھیں۔ ان معصوم بچیوں کے پاکیزہ اشعار پڑھنے کو موجودہ دور کی پیشہ رو گانے والیوں سے ملانا غلط ہے۔

۲۔ اس دور میں جو شعر گوئی یا گانے کے واقعات ملتے ہیں ان میں سے کسی میں بھی موسیقی کے آلات کا ذکر نہیں ہے اور آج کل کی موسیقی کے سامنے جو گانے کا لازی جزوبن چکی ہے اس کو جائز کرنے کے لئے کسی روایت یا حدیث میں ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں۔ ہاں البتہ دف بجا کر اشعار پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے (دف و ڈھولک ہے جو صرف  ایک طرف سے ہاتھ بجائی جاتی ہے) اس سے زیادہ کسی چیز کا ذکر تک نہیں۔

۳۔بعض روایات سے اگر چھوٹی بچیوں یا بالغ مردوں کے اشعار پڑھنے یا گانے کے جوا ز کے دلائل اگر تسلیم بھی کرلئے جائیں اور یہ مان لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اس کی ایک حد تک اجازت تھی تب بھی دور حاضر کے گانے بجانے اور قوالی و موسیقی کی محفلوں کی جائز قرار نہیں دیاجاسکتا۔ کجا وہ پاکیزہ اشعار جن میں اسلام کی عظمت کا ذکر ہے اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہو اور کجا اس دور کے پیشہ ور گانے والوں اور گانے والیوں کے سفلی جذبات کو بھڑکانے والے اشعار جن میں عورت جنس اور شیطانی عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے ان میں باہمی نہ کوئی مناسبت ہے اور نہ کوئی تعلق۔

ایسے پاکیزہ اشعار کا پڑھنا جن میں اسلام کی سربلندی اور حقانیت کا ذکر ہے یا رسول اکرمﷺ صحابہ اکرامؓ اور دوسری اسلامی شخصیتوں  کے مناقب و فضائل بیان کئے گئے ہوں یا اللہ کی راہ میں جہاد کی رغبت دلائی گئی ہو وہ حضورﷺ کے زمانے میں بھی جائز تھےا ور آج بھی جائز ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص476

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ