سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(234) مضاربت کا مسئلہ

  • 13992
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1193

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں مبلغ پا نچ لا کھ روپے ایک جاننے والے اشفاق سے ان الفاظ میں یہ کہہ کر لیتا ہوں کہ آپ مجھے پا نچ لاکھ روپے مضاربت پر دیں ،میں جہاں اور جس کو منا سب سمجھوں گا ،اس سے کاروبار کروں گا اور اس کاروبار سے جو آمدنی ہوگی وہ ہم آپس میں پچاس پچاس فیصد کے حساب سے تقسیم کر لیں گے۔اشفاق کی رضامندی کے بعد میں نےاپنے ایک اور جا ننے والے خیر محمد سے یہ معاملہ طے کیا کہ میرے پاس پانچ لاکھ روپے ہیں ،آپ اس سے ایک کیلے کا باغ خرید لیں جس میں کیلے لگے ہوئے ہوں اور سال تک ٹھیکے پر معاہدہ کر لیں۔ کا غذات میں یہ معاہدہ 11ماہ کا ہو گا۔ جتنی بھی خالص آمدنی ہوگی،دونوں میں پچاس پچاس فیصد تقسیم ہو جائے گی ،محنت آپ کریں گے ،اب مجھے خیر محمد جو آدھا نفع دے گا اس کا آدھا میں اشفاق کو دینا درست ہوگا؟اگر خیر محمد کا معاملہ میں اجارہ باطل ہےتو اگر پھل موجود ہوں تب کیا حکم ہوگا ، اور اگر فروخت یا استعمال کیا جاچکا ہو تو اس صورت میں اس کا کیا حکم ہوگا؟ براہ مہربانی راہ نمائی فرما کر ممنون مشکور ہوں ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر توآپ نے خود کاروبار کرنے کی بات کی ہے اور پانچ لاکھ روپے سے حاصل شدہ آمدنی کا پچاس فیصد دینے کا کہا ہے تو پھر خیر محمد سے آپ کی بات کرنا درست نہیں ہے،کیونکہ اس انداز میں آپ اشفاق کو پچاس فیصد نہیں بلکہ پچیس فیصد دے رہے ہیں،جو کہ دھوکہ ہے۔اور ہر ایسی بیع جس میں دھوکہ ہو شریعت نے اس سے منع فرمایا ہے۔ہاں البتہ اگر آپ پہلے سے ہی اس کے ساتھ یہ طے کر لیتے ہیں اور اسے بتا دیتے ہیں کہ میں اس انداز میں تجارت کروں گا تو پھر اشفاق کی رضا مندی سے معاملہ درست ہو جائے گا۔مذکورہ صورتحال میں آپ پر لازم ہے کہ آپ اس پھل کا مکمل نصف جو آپ کو خیر محمد سے حاصل ہو ،آپ وہ سارے کا سارا اشفاق کو دے دیں۔کیونکہ آپ نے خود تو کچھ کیا ہی نہیں ہے اور پھر آپ نے اس سے پانچ لاکھ کے منافع کا نصف دینے کو کہا تھا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ