سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) شب برات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • 13904
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 5240

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بریڈ فورڈ سے قربان حسین دریافت کرتے ہیں کہ کیا پندرہویں شعبان کو شب برات کے طور پر منانا حدیث سے ثابت ہے  اور اس رات کی فضیلت کے بارے میں صحیح مسئلہ کیا ہے؟ قرآن و حدیث  کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

برصغیر پاک و ہند میں اس رات کو شب برات کے علاوہ شب قدر بھی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ احادیث میں اس رات کے بارے میں شب برات یا شب قدر کے الفاظ کا کہیں ذکر نہیں ۔ بعض روایات میں اس رات  کا جو ذکر آیا ہے وہ نصف شعبان کی رات کے حوالے سے آیا ہے اور ویسے بھی شب قدر اورشب برات سےمراد لیلۃ القدر ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔

سورہ القدر میں فرمایا:

﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ فى لَيلَةِ القَدرِ‌ ﴿١﴾... سورةالقدر

’’ ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا۔‘‘

سورہ دخان میں ہے کہ

﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ فى لَيلَةٍ مُبـٰرَ‌كَةٍ... ﴿٣﴾... سورة الدخان

’’یعنی ہم نے اس کتاب کو برکت والی رات میں نازل کیا۔‘‘

           یہ خیال درست نہیں ہے کہ سورہ دخان میں مراد شعبان کی ۱۴۔۱۵ کی درمیانی شب ہے کیونکہ معتبر تفاسیر  میں اس سے مراد لیلۃ القدر ہی لی گئی ہے۔

جہاں تک اس رات کو منانے کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں  اس کے مختلف طریقے رائج ہیں:

ایک یہ کہ اس شام کو اچھے اور عمدہ کھانے (حلوہ وغیرہ) پکائے جاتے ہیں اور پھر خود ہی بیٹھ کر اسے مزے سے کھاتےہیں۔

دوسرا  یہ کہ آتش بازی کی جاتی ہے اور گولہ بارود خوب استعمال کیا جاتاہے۔ تیسرا طریقہ کچھ لوگوں کے ہاں یہ بھی مروج ہے کہ اس رات کے استقبال کے لئے گھروں کو صاف کیا جاتا ہے اور انہیں خوب سجایا جاتاہے اور یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس دن مرے ہوئے لوگوں کی روحیں واپس آتی ہیں۔

چوتھا طریقہ بعض جگہوں پر یہ بھی دیکھا گیا کہ اس رات لوگ خصوصی اہتمام کے ساتھ اور بعض اوقات اجتماعی شکل میں قبرستا ن کی زیارت اور دعا کےلئے جاتے ہیں۔

پانچواں طریقہ جو زیادہ معروف ہے وہ اس دن روزہ رکھنا اور رات کو عبادت و ذکر کرنے کا طریقہ ہے۔

ان پانچوں طریقوں میں جہاں تک پہلے تین کا تعلق ہے اسن کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں بلکہ یہ بدعت اور خرافات کے زمرے میں آتےہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ نصف شعبان کی اس را ت کو سرے سے اسلامی تہوار کہا ہی نہیں جاسکتا اور اسے عیدین یا حج وغیرہ کی شکل دینا ہی غلط ہے۔

اور پھر یہ حلوہ پکانے اور کھانے ‘آتش بازی کرنے اور گھروں کو سجانے کی رسمیں تو یوں بھی کسی اسلامی تہوار کا حصہ نہیں۔ یہ وہ خود ساختہ رسومات ہیں جو یا تو بعض مذہبی پیشواؤں نے اپنے مخصوص مفادات کے لئے جاری کیں اور یا پھر مسلمانوں نے ہندوؤں سے مستعار لے لی ہیں اور آتش بازی کا کسی دن کے منانے کے ساتھ اسلام میں سرے سے تصور ہی موجود نہیں۔

مردوں کی روحوں کے آنے کا عقیدہ بھی باطل ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ مرنے کے بعد کسی روح کا واپس آنا نہ شعبان کی اس رات میں ممکن ہے نہ کسی دوسرے دن وہ واپس  اس دنیا میں آ سکتی ہیں۔

اس رات قبرستا ن کی خصوصی زیارت کا مسئلہ بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ یوں تو کسی بھی دن یا رات قبروں کی مسنون طریقے سے زیارت جائز ہے۔ بلکہ رسول اللہﷺ نے قبروں کی زیارت کی تلقین فرمائی ہے لیکن اس رات بطور خاص اور اجتماعی شکل میں اس رات کی فضیلت کی وجہ سے جانا ثابت نہیں اس بارے میں ایک روایت ترمذی شریف کی پیش کی جاتی ہے۔مگر محدثین نے اس سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس لئے ضعیف حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔

اب رہا مسئلہ پانچویں طریقے کا جس پر زیادہ لوگ عمل کرتے ہیں یعنی دن کو روزہ رکھنا اور رات کو ذکر وعبادت کرنا اور اس کےفضائل بیان کرنے کےلئے مخصوص مجلسیں منعقد کرانا۔

اس بارے میں درج ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں:

۱۔شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تعالیٰ سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ جو کوئی بخشش مانگے ‘توبہ  کرے ‘رزق میں فراخی مانگے‘ بیماری سے شفاعت طلب کرے’ تو میں اس کی یہ دعائیں قبول کروں گا۔ یہ اعلان طلوع فجر تک جاری رہتا ہے۔

۲۔دوسری حدیث یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ مشرکو ں اور آپس میں بغض و عناد رکھنے والوں کے سوا سب کو معاف کردیتا ہے۔

۳۔ایک تیسری روایت بھی عوام میں مشہور  ہے کہ اس دن کا روزہ درکھو اور رات کو قیام کرو۔

    یہ تمام روایات جو اس رات کی فضیلت میں بیان کی جاتی ہیں وہ سند کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں اور محدثین نے حدیث کی صحت کےلئے جو معیار مقرر کیا ہے اس پر پورا نہیں اترتیں ۔ اس لئے ان روایات کو بنیاد بنا کر اس رات کو خصوصی اسلامی تہوار کی حیثیت دینا ہرگز قرین قیاس نہیں ہے۔ علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی اس بارے میں صحیح راہ نمائی کریں۔ ورنہ وہ بے چارے ان چیزوں کو شریعت کے احکام اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات  سمجھ  کر پابندی کرنا شروع کردیتے ہیں۔

اس بارے میں جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ شعبان کے مہینے میں دوسرے مہینوں کے مقابلے میں زیادہ روزہ رکھتے تھے۔

جیسا کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے علاوہ  دوسرے جس مہینے میں سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے وہ شعبان کا مہینہ تھا اور اس مہینے میں رمضان کی خود بھی تیاری کرتے اور  صحابہ کرامؓ کو بھی ترغیب دیتے۔

آج مسلمان دین سے ناواقفیت کی وجہ سے اس مہینے میں کثرت صوم کے عمل سے تو غافل ہیں لیکن فالتور سموں کو خوب اہتمام سے کرتے ہیں۔

        آخر میں یہ عرض کروں گا کہ یو ں تو اس رات کو باقاعدہ اہتمام سے کسی خاص طریقے سے منانے کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں لیکن لوگوں کو آتش بازی اور حلوے مانڈے کے شغل سے نجات دلانے کے لئے انہیں عبادت کی ترغیب دی جائے تو اس کے مقابلے میں یہ بہتر ہے اور اگر کوئی شخص آتش بازی اور فضول رسمیں  چھوڑ کر انفرادی طور پر اس رات ذکرو عبادت کرلیتا ہے تو اسے بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہئے بلکہ اس رات کی صحیح حیثیت اچھے انداز سے اس کے سامنے واضح کردینی چاہئے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص289

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ