سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) استعمال شدہ پانی سے وضو؟

  • 13791
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1419

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نشفیلڈ سے عبد الحق صاحب پوچھتے ہیں

ایک برتن جیسے سنک واش بیسن میں پانی ڈال کر اس کا پانی سے وضو کیاجائے جب کہ پانی کےنکاس کو بند کردیا جائے’لیکن تازہ پانی پہلے جمع شدہ پانی سے آتا رہے کیا وضو جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)استعمال شدہ پانی سے وضو کرنے کا مسئلہ ان چند مسائل میں سے ہے جن کے بارے میں علماء اور فقہاء کےدرمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اس مسئلے میں ایک رائے یہ ہے کہ ایسے پانی سے کسی صورت میں وضو جائز نہیں ہے۔

دوسری رائے یہ ہے کہ ایسے پانی سے وضو جائز ہے مگر مکروہ ہے۔

تیسری رائے یہ ہے کہ یہ عام پانی کی طرح ہے اس سے وضو بالکل جائز ہے۔ تحقیق کے بعد جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ بنیادی طورپر یہ عام پانی کی طرح ہے اس سے وضو جائز ہے لیکن اس میں چند باتوں کے لحاظ رکھنا ضروری ہے اول یہ کہ پانی اتنا کم ہے یا برتن اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں جو پانی جمع ہوتا ہے اس میں نجاست شامل ہوگئی تو ایسے پانی سے وضو جائز نہیں ہوگا جیسے کسی آدمی کےجسم پر پلیدی بھی یا نجس شے تھی اسی میں اس کی صفائی کی تو ایسا  پانی قابل استعمال نہیں رہے گا۔ اس کی تائید حضرت ابوہریرہؓ کی یہ حدیث کرتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: «لا یغتلن احدکم فی الماء الی دائم وهو جنب» ( مسلم مترجم ج۱ باب النھی عن الاغتسال فی الماء الراکد ص ۴۰۹)’’یعنی تم میں سے کوئی شخص جب جنبی ہو(اس پر غسل فرض ہو) تو وہ کھڑے پانی میں غسل نہ کرے۔‘‘ اس کامطلب یہی ہے کہ کھڑے پانی میں نجاست شامل ہوجائے خاص طور پر جب کہ پانی تھوڑی مقدار میں ہو اسی طرح اگر کسی نجاست یا گندگی کی وجہ سے اس پانی کے مزے’رنگ و بو میں تبدیلی آجاتی ہے تو ایسے استعمال شدہ پانی سے وضو کرنے سے بھی پرہیز کرناچاہئے۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی چیز نہیں ہے تو بنیادی طورپر ایسے پانی سے وضو کرناجائز ہے اور اس جواز کی  تائید رسول اکرمﷺ کی درج ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے۔

 ’’حضرت ابو جحیفہؓ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔آپﷺ کے وضو کےلئے پانی لایا گیا۔ آپ نے وضو فرمایا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ آپﷺ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو لے کر اپنے چہروں پر ملتے  تھے۔‘‘(بحواله  نیل الاوطار کتاب الطہارة)

دوسری حدیث حضرت ابو موسیٰ ؓ کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

’’نبی کریمﷺ نے پانی کا برتن منگوایا آپ نے اپنے ہاتھ اور چہرہ اس پانی میں دھوئے اور پھر حضرت ابوموسیؓ اور حضرت بلالؓ سے کہا کہ یہ پانی لو اور باقی اپنے  چہروں اور سینوں پر ڈال دو۔(نیل الاوطار ایضاً)

تیسری حدیث حضرت سائب بن یزیدؓ کی ہے‘وہ فرماتے ہیں۔

’’نبی کریمﷺ کے پاس میری خالہ حاضر ہوئی اور عرض کیا میرا بھانجا بیمار ہے۔ اس کے لئے خیروبرکت کی دعا فرمائیں‘ تو آپﷺ نے میرے  سر پر ہاتھ پھیر کردعا کی۔ پھر آپ نے وضو فرمایا اور میں نے آپ کے وضو کا پانی پیا اور  پھر نماز کے لئے آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔‘‘

ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے‘ جس پانی سے وضو کیا جائے وہ پاک ہے اور اسے دوبارہ وضو کے لئے یا پینے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص118

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ