سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) کیا اولیاء مرتے نہیں؟

  • 13769
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1771

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میڈسٹون جیل سے محمد اسلم نے پوچھا ہے

(۱)یہاں جیل میں ہمارے ساتھیوں کےدرمیان اولیاء اللہ کےمرنے کے بعد کی زندگی کےبارے میں بحث ہوتی رہتی ہے۔ ایک صاحب نے ہمارے ایک ساتھی کو ایک خط لکھا ہے جس میں تحریر ہے:

‘‘ دراصل مرتا کوئی بھی نہیں’ صرف اس دنیا سے عالم برزخ میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ عالم برزخ کے احوال اس دنیا سے مختلف ہیں۔ شہدا کی طرح صدیقین بھی زندہ ہیں مگر ان کی زندگی اس قسم کی ہے جس کا شعور ہمیں نہیں۔ اولیاء اللہ صدیقین میں سے ہیں وہ ہمیں توجہ دے سکتے ہیں’ ہمارے لئے دعا کرسکتے ہیں اور ان کی توجہ اور دعا سے دلوں میں پاکیزہ جذبات اور اچھے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ طبیعت اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہوتی ہے۔ دنیوی امور میں ان سے نہیں مانگنا چاہئے نہ انہیں یہ بات پسند ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولیاء اللہ کا مقام اللہ کے ہاں انتہائی ارفع و اعلی ہے اس میں کوئی کلام نہیں اور اللہ کے نیک بندوں کا ادب و احترام نہ کرنے والے لوگ یقیناً قابل مذمت ہیں۔ جہاں تک وفات کے بعد ان کی زندگی یا دعا سننے اور توجہ کرنے کا مسئلہ ہے تو ان مسائل میں وہی راستہ صحیح اور بہتر ہوگا جو ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں ملتا ہے۔ اپنی رائے اور خواہش کے ذریعے کسی مسئلے کو ثابت کرنے کا رحجان درست نہیں۔ آپ کے دوست کو جوکسی صاحب نے خط لکھا ہے اس میں چار باتیں کہی گئی ہیں۔

اول’ یہ کہ مرتا کوئی بھی نہیں۔

دوم’  یہ کہ شہداء کی طرح صدیقین بھی زندہ ہیں۔

سوم’ یہ کہ وہ توجہ دے سکتے ہیں اور دعا کرسکتے ہیں۔

چہارم’ یہ کہ دنیوی امور میں ان سے نہیں مانگنا چاہئے۔

ان کا کہ کہنا کہ مرتا تو کوئی بھی نہیں صرف اس دنیا سے عالم برزخ میں منتقل ہو جاتے ہیں’ یہ بات عجیب اور مضحکہ خیز سی معلوم ہوتی ہے۔ اس بزرگ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ برزخ کی طرف جانے کو یہ مرنا کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ فرمان قرآن کے بالکل خلاف ہے۔

قرآں کہتا ہے:

﴿كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ...﴿١٨٥﴾... سورة آل عمران

’’ کہ ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘

اور یہ حضرت فرما رہے ہیں کہ دراصل مرنا تو کسی نے بھی نہیں۔

قرآن کہتا ہے:

﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَيِّتونَ ﴿٣٠﴾... سورة الزمر

’’آپ کو بھی فوت ہونا ہے اور وہ بھی مرنے والے ہیں۔‘‘

ایک اور جگہ برگزیدہ نبی کے بارے میں فرمایا:

﴿أَم كُنتُم شُهَداءَ إِذ حَضَرَ‌ يَعقوبَ المَوتُ...١٣٣﴾... سورة البقرة

’’ کیا تم اس وقت حاضر تھے جب یعقوب کو موت حاضر ہوئی۔‘‘

اور ایک مقام پر حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:

﴿فَلَمّا قَضَينا عَلَيهِ المَوتَ...١٤﴾... سورة سبا

’’کہ حضرت سلیمان ؑ پر جب ہم نے موت کا فیصلہ کیا۔‘‘

یہ اور اس طرح کی متعدد آیات قرآنی ہیں جن میں ہر ذی روح کے لئے موت کے برحق ہونے کا ذکر آیا ہے۔ اس لئے کہ کہنا بالکل جہالت کی بات ہے کہ ‘‘ مرتا کوئی بھی نہیں’’ بے شک قرآن و حدیث کی رو سے اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک نے مرنا ہے۔

رہی عالم برزخ کی طرف منتقل ہونے کی بات تو یہ درست ہے۔ موت کے بعد عالم برزخ میں رہنا ہے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ ہمارے لئے دعا اور توجہ کرسکتے ہیں اور اس کا دلوں پر اثر ہوتا ہے۔ یہ بھی بے سند بات ہے۔ اس پر قرآن و سنت سےکوئی دلیل نہیں ۔ دعا اور پکار تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔ مافوق الاسباب اللہ کی ذات کے سوا کسی زندے یا مردے دونوں سے دعا کرنا یا کچھ مانگنا جائز نہیں۔اولیاء اللہ کا مقام اپنی جگہ لیکن سرور کائنات رہبر انسانیت ﷺ نے بھی کسی جگہ ارشاد نہیں فرمایا کہ مجھ سے دعا کیا کرو۔ آپ نے تو یہ حکم دیا کہ مجھ پر درود سلام کی کثرت سے پڑھا کرو۔ مگر کسی جگہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد مجھ سے مانگا کرو۔ میں تمہارے لئے دعا کروں گا یا مجھے پکارا کرو میں تمہاری طرف توجہ کیا کروں گا اور نہ ہی صحابہ کرام سے یہ ثابت ہے کہ وہ دعا اور توجہ کےلئے حضورﷺ کے روضہ اقدس پر حاضری دیتے ہوں۔ صحابہ پر مشکل دور آئے’ پریشانیوں سے دوچار ہوئے مگر ایک بھی ایسا واقعہ نہیں کہ وہ ان کے حل کے لئے روضہ مبارک پر گئے ہوں اور پھر حضور ﷺ کو پکارا ہو۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص77

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ